(گزشتہ سے پیوستہ)
9/11کیا ہوا دنیا ہی تبدیل ہوگئی اور ساتھ ہی پاکستان کا’’منظر نامہ‘‘ بھی، جنرل پرویز مشرف کو اقتدار میں آئے ابھی دوسال بھی نہیں ہوئے تھے انہوں نے اپنے قریبی رفقا سے مشورہ کیا اور پھر اپنے ایک قابل اعتماد ساتھی ISI کے سربراہ جنرل محمود کو افغانستان اس پیغام کے ساتھ بھیجاکہ طالبان کے امیرملا عمر پر واضح کیا جائے کہ اگر القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو وہاں سے نکلنے کا نہیں کہا گیا تو امریکہ حملہ کرسکتا ہے۔ اب پتا نہیں جنرل محمود اپنی خاموشی کب توڑیں گے لیکن اس وقت ان کے ساتھ جانے والے دوجید علما کرام میں سے ایک مفتی جمیل مرحوم نے اس راقم کو بتایا تھا کہ اصل پیغام دیا ہی نہیں گیا‘‘۔
دوسرے ملا عمر کے استادوں میں سے ایک مفتی نظام الدین شامزی تھے۔ بعد میں یہ دونوں بڑے عالم دین کو ’ نامعلوم افراد‘ نے شہید کردیا۔
پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا افغانستان پر امریکہ اور س کے اتحادیوں نے حملہ کردیا اور ہم نے فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کیا۔ القاعدہ اور طالبان کی قیادت نے پاکستان میں پناہ لی اور پھر اس کا بدلہ بھی ہم ہی سے لیا اور کراچی سے خیبر تک لہولہان ہوگئے بلوچستان اور سابقہ فاٹا کو الگ قیمت ادا کرنی پڑی۔ ہماری افغان پالیسی ہمیشہ سے ناقص رہی ہے جس کی قیمت نہ جانے ہماری کتنی نسلیں ادا کریں گی۔ جنرل ضیا کا ’جہادافغانستان‘ ہو یا مشرف کی دہشت گردی کیخلاف جنگ پچھلے چالیس سالوں میں شاید ہی ہماری سویلین قیادت کااس ’سیل‘ میں کوئی عمل دخل رہا ہو۔ جنرل حمید گل نے ایک بار راقم کو بتایا تھا کہ جب ان کی بے نظیر بھٹو سے پہلی ملاقات ہوئی تھی توانہیں یہ بتا دیاگیا تھا کہ ریاست کی افغان پالیسی کیا ہے اور رہےگی،اس سے پہلے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی حکومت اسی پالیسی سے انحراف پر برطرف کی گئی تھی۔
لہذا اگر ضیا کی پالیسی کے نتیجے میں ہمیں افغان مہاجرین ، منشیات اور اسلحہ کے تحفہ ملے تو مشرف کی پالیسی سے دہشت گردی کا ایک نہ رکنے والا تحفہ اور یہ دو پالیسیاں بنیاد بنیں اس ’ انتہا پسندی‘ کی جس نے پورے معاشرےکو تباہ کرکے رکھ دیا۔
ہر فوجی آمر کی طرح جنرل مشرف کو بھی چونکہ اقتدار کو طول دینا تھا اس کے لئے پہلا وار عدلیہ پر ہوا اور دوسرا سیاست پر۔ عمران خان اس وقت سیاست میں نئے تھے اور کرکٹ ہی ان کی پہچان تھی۔
مشرف نے کرپٹ سیاست دانوں کیخلاف ایکشن کا نعرہ لگایا تو کپتان نے ان کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا حالانکہ ان کے چند قریبی ساتھی معراج محمد خان اور حامد خان اس کے خلاف تھے۔
2006کے عام انتخابات کے بعد یہ رومانس اس وقت ختم ہوا تو مشرف نے اجلاس بلایا ، خان صاحب کو ان کے دائیں جانب چوہدری شجاعت اور بائیں پرویز الٰہی نظر آئے۔’’ یہ بھی ویسا ہی نکلا‘۔ معراج صاحب نے خان صاحب کے یہ الفاظ مجھے بتائے ۔
گجرات کے چوہدری بہرحال مشرف صاحب کے قابل اعتماد سیاسی مشیر رہے ان9سالوں میں بدقسمتی سے یہ غلطی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید سے بھی ہوئی اور ایک بار نہیں دوبار 12اکتوبر1999کے اقدام کی مشروط حمایت کرکے مگر انہوں نے ساتھ فوری انتخابات کا مطالبہ بھی کیا۔ دوسری بار انہوں نے زیادہ بڑی غلطی کی جب2007میں انہوں نے این آر او لے لیا حالانکہ وہ نواز شریف کے ساتھ تاریخی ’میثاق جمہوریت‘ پر دستخط کرچکی تھیں۔ لیکن یہ معاہدہ انہوں نے اس وقت ختم کردیا جب جنرل مشرف نے انہیں الیکشن سے قبل پاکستان نہ آنے کا مشورہ دیا وہ18اکتوبر کو واپس آئیں اور27سمبر 2007کو الیکشن سے کچھ دنوں پہلے شہید کردی گئیں۔
جنرل مشرف کے دور میں دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ(ن) اور پی پی پی کو تقسیم کیا گیا اور مسلم لیگ (ق) اور پی پی پی (پیڑیاٹ) بذریعہ قومی احتساب بیورو بنوائی گئی۔ پیڑیاٹ تواپنی موت آپ مر گئی دوسری باجوہ صاحب کے طفیل خان صاحب کے حوالے کی گئی مگر اس وقت وہ تقسیم ہوکر آدھی پی ٹی آئی کی ہوگئی اور باقی زرداری صاحب کی۔
مشرف صاحب نے2002میں جنم لینے والے مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل جس میں جماعت اسلامی اور جمعیت علما اسلام شامل تھیں کے ساتھ بھی ایک معاہدہ کیا جسے لیگل فریم ورک آرڈر کا نام دیا گیا۔ ایم ایم اے کی مدد سے مشرف کے اقدامات کو آئینی تحفظ پارلیمنٹ سے مل گیا مگر وہ خود اس وعدہ سے منحرف ہوگئے کہ دسمبر2004میں وہ آرمی چیف کے عہدےسے ریٹائر ہوجائینگے۔
مشرف دور میں پہلی بار ’لاپتہ افراد‘ کے مسئلے نے شدت اختیار کی۔ بہت سے لوگ امریکہ کے حوالے کئے گئے اور بہت سے ان کی ایجنسیاں خود لے گئیں مگر جس مسئلے نے سب سے زیادہ شدت اختیار کی وہ بلوچستان کا معاملہ تھا۔ماضی کے حکمرانوں کی طرح انہوں نے بھی اس کا فوجی حل نکالنے کی کوشش کی جس سے معاملات پیچیدہ اور احساس محرومی میں مزیداضافہ ہوا۔رہی سہی کسر نواب بگٹی کے قتل نے پوری کردی آج بھی اس کی چنگاریاں محسوس کی جارہی ہیں۔جنرل مشرف نے اقتدار کو طول دینے کی خاطر دومرتبہ آئین اور دومرتبہ عدلیہ پر حملے کئے۔
دوچیف جسٹس سعید الزماں صدیقی اور افتخار محمد چوہدری ان کے عتاب کا نشانہ بنے یہ الگ بات ہے کہ چوہدری صاحب 2001میں اس بنچ کا حصہ تھے جس نے ان کو ’’ نظریہ ضرورت‘‘ دیا۔ان کے دور کو ان کے حامی کچھ بنیادی ریفارمز کی بناپر یادرکھنا چاہتے ہیں جن میں نئے بلدیاتی نظام کے ذریعہ اختیارات کو نچلی سطح تک لے جانا، پولیس آرڈر۔2002، خواتین کی نشستوں میں اضافہ، اقلیتوں کے تحفظ کے لئے اقدامات وغیرہ شامل ہیں۔
جہاں تک میڈیا کی آزادی اور اظہار رائے کا تعلق ہے تو ان کے دور میں پچاس سے زائد صحافی مارے گئے۔ ایک کیس میں تو صحافی کی بیوہ بھی ماردی گئی۔
نجی شعبہ میں لائسنس کے اجرا کا پس منظر’کارگل کی جنگ‘ ہے جس کے خاتمہ پر ہمارے اداروں کو احساس ہوا کہ بھارت میں پرائیویٹ چینلز ہونے کا فائدہ انہیں ایسی جنگ کے بیانیہ کو اپنے حق میں پیش کرنے سے ہوا پھر3نومبر2007کو انہوں نے کئی چینلز اور اینکرز پرپابندی لگادی جس کے کیخلاف88روز تحریکِ آزادی صحافت جاری رہی۔
ہردور آنے والوں کیلئے کچھ سبق چھوڑ جاتا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ آمر جمہوریت کا لبادہ اوڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور جمہوریت کانام لینے والے بعض اوقات آمر بن جاتے ہیں مقصد شاید دونوں کا ایک ہی ہوتا ہے اپنے اقتدار کو طول دینا۔ مگر عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے کو بہرحال حق حکمرانی حاصل ہوتا ہے آمر قابض اور غاصب ہی کہلاتا ہے۔