بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کہتے ہیں:میری زندگی میں پاکستان بھارت سے جنگ نہیں جیت سکتا بھارتی وزیراعظم کیوں اپنی زندگی کے پیچھے پڑے ہیں، پاکستان تو اُن کی عمر دراز کے لئے کوششیں کر رہا ہے، جب دونوں سوئیاں بارہ پر ہوں تو منموہن پیارے بیان نہ دیا کریں، اس کے بعد جو بیان دیں گے پاکستان کی مہربانی ہو گی میری پگ کی لاج رکھ لے میری زندگی میں جنگ نہ کرے بس یہی خوف ہے پاکستان کا جو بنیئے اور سردار کو کھائے جاتا ہے، وگرنہ پاکستان نے تو امن کی آشا پال رکھی ہے، اور ہر روز اسے دانہ بھی ڈالتا ہے، اور کیا چاہئے وڈے سردار جی اور ہندو نیتائوں کو
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے
یہ ڈر یہ خوف پاکستان کی فوج کا کیوں بھارت بھکشوئوں کے دل و دماغ سے نہیں نکلتا اب تو دنیا بھر کا ہر طرح کا اسلحہ بھی جمع کر لیا ہے، پھر بھی اندر کا ڈر نہیں جاتا تو خواجہ اجمیر کے مزار پر منت مانیں، یا شیراں والی کے چرنوں میں بیٹھ کر پراتھناکریں کہ پاکستان کا ڈر ہمارے دلوں سے نکال دو، من موہن جی! اطمینان رکھیں آپ کے بعد بھی پاکستان بھارت سے جنگ نہیں پیار کرے گا، تجارت کرے گا، ثقافتی طائفوں کے تبادلے کرے گا، ویزا بھی ختم کر دے گا، یہ ڈر کر دھمکی پر گزارہ کرنا چھوڑ دیں، بھارت پاکستان پر شب خون مارنے کی نہ سوچے تو پاکستان کبھی جارحیت اختیار نہیں کرے گا، منموہن سنگھ کو کیا معلوم نہیں کہ ہمارے وزیراعظم نواز شریف ہیں، اور شریف آدمی تو اپنے کام سے کام رکھتا ہے، جیتا ہے اور جینے دیتا ہے، ہاں اگر کوئی بار بار چونڈی وڈے تو امن کی آشا کو نراشا بنانے کا جرم وار تو بھارت ہو گا، پاکستان جب جنگ ہی نہیں کرے گا تو ہار جیت کا انجانا دھڑکو کیوں لگا ہوا ہے۔
٭٭٭٭
پاکستان میں احتجاج اور سکیورٹی خدشات کے پیش نظر امریکہ نے نیٹو سپلائی کے لئے متبادل راستے اختیار کر لئے، تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ امریکی فیصلہ ہماری تدبیری کامیابی ہے
ڈرون تو روکے نہیں رستے بدل لئے
بوٹ تو بدلے نہیں تسمے بدل لئے
امریکی سفارت خانے سے صدا بلند ہوئی کہ پاکستان کا راستہ کم خرچ ہے اس لئے اہم ہے، لیکن سکیورٹی کے بندوبست کر کے پھر سے پاکستان کے راستے نیٹو سپلائی جاری کر لیں گے۔ خان صاحب کا ہدف تو ڈرون حملے بند کرانا تھا وہ تو حاصل نہ ہو سکا، البتہ گناہِ بے لذت کا ثواب ضرور پا لیا، پاکستان کے گلشن کا کاروبار چل رہا ہے، اسے چلنے دیا جائے امریکہ سے پرخاش کہیں اتنی مہنگی نہ پڑے کہ ہمارے ہاں مہنگائی اور بڑھ جائے، ویسے امریکہ کو بھی غور کرنا چاہئے کہ خود اُس کے ہاں یہ سروے سامنے آ گیا ہے کہ ڈرون حملے دوسرے ممالک میں مداخلت کا سبب بن رہے ہیں، امریکہ کی عالمی سطح پر طاقت اور اہمیت کم ہو رہی ہے، توسیع پسندانہ پالیسی کا یہی انجام ہوتا ہے، سپر پاور اگر دنیا کی بابت مثبت رویہ اختیار کرتا تو اس کی جے جے ہو جاتی، مرے ہوئے کو مارنے کی مہم پر نکلنا اسے زیب نہیں دیتا، جب سے دانے زیادہ ہو گئے امریکی کملے سیانے ہو گئے اور غریب ملکوں پر چڑھ دوڑنے کے لئے ڈرون دوڑا دیئے، بہتر ہوتا کہ ساقی گری کی لاج رکھتا، گرتوں کو تھام لیتا، تاریخ سنہری لفظوں میں یاد کرتی مگر شاید امریکی بزرجمہروں یا صہیونی گماشتوں کو امریکہ کی یہ امر فتح درکار ہی نہیں، دنیا کی عمر کم ہو رہی ہے اسے بڑھانے کی کوششیں کرنا چاہئیں، خان صاحب! ڈٹے رہو چاہے کوئی ساتھ ہو نہ ہو، امریکہ نے راستے تو بدل لئے ہیں، کیا پتہ ڈرون ارادے بھی بدل لے، ہمارے وزیراعظم چپ ہیں چپ ہی رہیں، کہ آخر ہم نے روٹی بھی تو کھانی ہے، منے بھائی لگے رہیں، تو انہیں لگا رہنے دیں، مگر سیاچن سے غافل نہ رہیں کہ وہ ہمارے لئے لائف لائن ہے، من موہن سنگھ کی بھی سوئی پر سوئی چڑھ گئی ہے اور بھارتی نیتا بھی امن آشا کو ٹھکانے لگانے کے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں، ڈرون بند کرنے کے لئے سفارتی جنگ جاری کی جائے۔
٭٭٭٭
وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا ہے:محلے کی سطح پر بازار لگائے جائیں، آٹے کی قیمت میں اضافہ برداشت نہیں کریں گے، زائد نرخ وصول کرنے والے مگر مچھوں کو معاف نہیں کریں گے۔ شہباز شریف اور مہنگائی ممولے کے درمیان جنگ جاری ہے، وہ بھی کیا کریں کہ حالات نے ممولے کو شہباز سے لڑا دیا، یہ مہنگائی مگر مچھ دراصل ممولے ہیں، یہ جائز منافع ہضم نہیں کر سکتے، تو ناجائز منافع تو ان کی انتڑیاں پھاڑ دے گا محلے کی سطح پر سستے بازار لگائے جائیں، تو سستا آٹا، سستی اشیاء گھر کی دہلیز پر پہنچ جائیں گی، ناجائز منافع خور آدم خور ہیں، ان کے دل میں دو وقت کی روٹی بمشکل کمانے والوں کے لئے کوئی ترس نہیں یہ سمجھتے ہیں کہ لوٹنے والے شاید ابھی موجود ہیں اس لئے یہ کیوں نہ لوٹ مار کریں، شہباز شریف نے اپنے صاحبزادے حمزہ شہباز شریف کو بھی اپنے سانچے میں ڈھال لیا ہے، وہ اپنی جگہ ٹگ آف وار میں مصروف ہیں، عوام حوصلہ افزائی کریں اور ان کے ساتھ مل کر زور لگائیں، تو بڑی توندوں والے منافع خوروں کی قبریں کھد سکتی ہیں، سب سے بڑا ظلم ناداروں کو لوٹنا ہے، اس کی سزا شہباز پنجاب بھی دیں گے، اور قیامت کے روز تو خلاصی ہی نہ ہو گی، کہ حقوق العباد پامال کرنے والوں کے لئے داور ﷺ محشر نے بھی معافی کی شق نہیں رکھی، ہم یہاں یہ بھی کہتے چلیں کہ لاہور شہر میں تجاوزات ریڑیوں پر سوار ہے، اور ٹریفک ’’آوازار‘‘ ہے، بالخصوص دھرمپورہ پل سے مغلپورہ تک تو سڑک پر پھلوں کی ریڑیوں کا قبضہ ہے، کارپوریشن والے کچھ پانے کے لئے ان کو ہٹاتے ہیں، اور اس پریکٹس سے ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، ہماری تجویز ہے کہ کسی کھلی جگہ پر ریڑی بازار بھی لگایا جائے، بلکہ کئی جگہوں پر اس کی گنجائش ہے، اس طرح ریڑیوں والوں کی روٹی روزی بھی چلے گی، سڑکیں، سڑکیں ہی رہیں گی، اور کارپوریشن کی کالی بھیڑیں بھی سفید ہو سکیں گی۔
٭٭٭٭
وزارت ثقافت کیا کر رہی ہے، یہ تو ہمیں معلوم نہیں، لیکن ہماری اپنی ایک نمبر موسیقی آخری دموں پر ہے، فنکار کے پاس پیسہ نہیں ہوتا اور نہ ہی نالائقی کے باعث کوئی شارٹ کٹ، یہی وجہ ہے کہ ہماری اپنی موسیقی کا حال بے سر بے تال ہے، اور ہنر مند فنکار بے حال، ٹکسالی گیٹ کے اندر جا کر دیکھیں، سروے کریں، کتنے ہی فنکار سسک رہے ہیں، ہمارے ہاں چند موسیقی کے گھرانوں ہی کو میڈیا گھاس ڈالتا ہے، لیکن موسیقی کسی کی میراث نہیں، اندرون شہر میں کتنے ہی ایسے ہنر مند موجود ہیں جو ساز سے آواز تک جادو جگاتے ہیں، مگر انہیں کوئی پوچھتا نہیں، برائلر موسیقی آسمان کو چھو رہی ہے، لوگوں کے کانوں کو اس کا عادی بنا دیا گیا ہے، نئی نسل نے چونکہ اپنی موسیقی نہیں سنی اس لئے وہ یہی سمجھتے ہیں کہ یہ جو مائیک پکڑ کرا سٹیج پر ’’باں باں‘‘ کرتے اور رقص وحشت کرتے ہیں یہی بیجو باورا ہیں، یہی تان سین ہیں، صوفیہ کے کلام کو غیر موسیقی میں پیش کرنے کا آغاز ہو گیا ہے، کیونکہ ان کے پاس اپنا مسالہ ختم ہو گیا ہے، جیسے بعض شاعروں کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ انہوں نے کس بحر میں شعر کہا ہے، ویسے ہی ان نوجوانوں کو یہ معلوم نہیں کہ وہ کس راگ میں گا رہے ہیں، یہ بچے بہت ہونہار ہیں، اگر ان کو ریاض کرایا جائے، تو یہ نصرت فتح علی خان کو زندہ کر سکتے ہیں، لیکن اب تو یہ کمرشلائز ہو چکے ہیں، پیسے اور ماڈلز کے زور پر البم تیار کر کے فلوٹ کر دیتے ہیں، پھر پیسہ ہی پیسہ، ہم سے کتنے ہی ایسے فنکار اندرون شہر ملے کہ انہوں نے جب غزل چھیڑی تو ہم حیران رہ گئے کہ اس قدر سریلی آوازیں کیا ہم مٹی کی نذر کر دیں گے۔