• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ نے غلام محمود ڈوگر کا تبادلہ روک دیا

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کا تبادلہ روک دیا۔

عدالتِ عظمیٰ کے جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، جسٹس منیب اختر اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی بینچ کا حصہ ہیں۔

سپریم کورٹ نے سابق سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر تبادلہ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے غلام محمود ڈوگر کے ٹرانسفر کا آرڈر معطل کر دیا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پنجاب میں تقرر و تبادلے کا معاملہ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے سامنے زیرِ التواء ہے۔

فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ نگراں حکومت پنجاب کی جانب سے تقرر و تبادلے کا معاملہ 5 رکنی لارجر بینچ کو بھیج رہے ہیں۔

عدالتِ عظمیٰ نے فیصلے میں کہا کہ غلام محمود ڈوگر کا تبادلہ روک دیا جائے، الیکشن کمیشن زبانی تبادلے کرنے کا کوئی ریکارڈ پیش نہیں کر سکا۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے بتایا ہے کہ کمشنر نے زبانی آرڈر سے تقرر و تبادلے کی اجازت دی، الیکشن کمشنر کمیشن ممبران کی مشاورت کے بغیر تقرر و تبادلے کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ چیف الیکشن کمشنر کو کمیشن کے ممبران نے تقرر و تبادلے کا اختیار نہیں سونپا تھا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلے میں یہ بھی کہنا ہے کہ بظاہر الیکشن کمشنر نے سپریم کورٹ میں زیرِ التواء کیس کے باوجود تبادلے کی اجازت دی۔

اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے سابق سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کے ٹرانسفر کا کیس نمٹا دیا۔

چیف الیکشن کمشنر کہاں ہیں؟ جسٹس اعجاز کا استفسار

سابق سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر تبادلہ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کہاں ہیں؟

سیکریٹری الیکشن کمیشن نے بتایا کہ چیف الیکشن کمشنر کی طبیعت ناساز ہے، پیش نہیں ہو سکتے، پنجاب حکومت نے 23 جنوری کو غلام محمود ڈوگر کے تبادلے کی زبانی درخواست کی، 24 جنوری کو تحریری درخواست آئی، 6 فروری کو منظوری دی۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا عام حالات میں بھی زبانی درخواست پر احکامات جاری ہوتے ہیں؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ زبانی درخواست آئی، منظور ہوئی اور عمل بھی ہو گیا، عمل درآمد کے بعد خط و کتابت کی گئی۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا سرکاری ادارے زبانی کام کرتے ہیں؟ کیا آئینی ادارے زبانی احکامات جاری کر سکتے ہیں؟ چیف الیکشن کمشنر نہیں، تبادلوں کی منظوری الیکشن کمیشن دے سکتا ہے، کیا الیکشن کمیشن نے اپنے اختیارات چیف الیکشن کمشنر کو تفویض کیے ہیں؟

ڈی جی لاء الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ اختیارات تفویض کرنے کی کوئی دستاویز موجود نہیں ہے۔

ڈی جی لاء نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کی آبزرویشن کی روشنی میں تبادلوں کا حکم دیا، سپریم کورٹ نے 2013ء میں اپنے فیصلے میں آبزرویشن دی تھی۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ عدالتی فیصلے کی روشنی میں تو قانون سازی بھی ہو چکی ہے، عدالتی فیصلہ صرف سیکریٹریز کے حوالے سے تھا، الیکشن کمیشن نے تو اسسٹنٹ کمشنرز کے بھی تبادلوں کا حکم دے دیا، صوبائی حکومت کی درخواست کے بغیر کمیشن کیسے حکم دے سکتا ہے؟

جسٹس مظاہر نقوی نے ہدایت کی کہ زبانی احکامات کی قانونی حیثیت سے بھی آگاہ کریں، سپریم کورٹ زبانی احکامات کے حوالے سے متعدد فیصلے جاری کر چکی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر مسٹر ایکس کو کہہ دیتے صبر کریں، کمیشن آپ کی درخواست پر فیصلہ کرے گا، چیف الیکشن کمشنر خود ہی پورا الیکشن کمیشن بن کر کیسے فیصلے کر رہے ہیں؟

سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی ٹرانسفر پوسٹنگز پر ریکارڈ پیش کرنے کے لیے مزید وقت دینے کی استدعا مسترد کر دی۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ گھڑی بہت تیز چل رہی ہے، ٹک، ٹک، ٹک، 90 روز ختم ہونے ہیں اور الیکشن کمیشن مزید وقت مانگ رہا ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا کام ہی شفاف الیکشن کرانا ہے، اس کے لیے بھی وقت مانگ رہے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ چیف الیکشن کمشنر سے تقرر و تبادلے کے لیے رابطہ کس نے کیا؟ الیکشن کمشنر الیکشن ایکٹ کی کس شق کے تحت خود ہی یہ حکم دے سکتے ہیں کہ تقرر و تبادلے کر دو؟ انتخابات کو 90 دن میں ہونا ہے، ہر گزرتے وقت کے ساتھ 90 دن ختم ہو رہے ہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 26 جنوری کو اومنی بس آرڈر دے دیا کہ پنجاب کی بیورو کریسی تبدیل کر دو، الیکشن کمیشن کے 26 جنوری کے حکم کے مطابق سیکریٹری سے لے کر چپڑاسی تک سب تبدیل کر دو۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن آخر کر کیا رہا ہے؟

جسٹس منیب اختر سیکریٹری الیکشن کمیشن پر برہم

اس دوران سیکریٹری الیکشن کمیشن عمر حمید کے بار بار بولنے پر جسٹس منیب اختر برہم ہو گئے اور انہیں تنبیہ کی کہ بات کرنے کے دوران مجھے ٹوکنے کی جرأت نہ کریں۔

سیکریٹری الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ مجھے بنیادی قانون معلوم ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ بنیادی قانون پتہ ہونے سے آپ وکیل نہیں کہلائیں گے۔

جسٹس منیب اختر نے سیکریٹری الیکشن کمیشن سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ سے نہیں ڈی جی لاء سے بات کر رہے ہیں، الیکشن کمیشن کو 24 جنوری کو زبانی اجازت کی کیا عجلت تھی؟

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا واحد کام انتخابات کرانا ہے۔

گزشتہ سماعت کا احوال

سپریم کورٹ آف پاکستان نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو آج دوبارہ طلب کر رکھا تھا۔

بینچ نے تحریری حکم نامے میں پنجاب کے انتخابات کا معاملہ از خود نوٹس کے لیے چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کو بھجوا دیا تھا۔

قومی خبریں سے مزید