قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پاور کے اجلاس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک میں 1 سال کے دوران 380 ارب کی بجلی چوری کی گئی۔
اسلام آباد میں قائمہ کمیٹی برائے پاور کا اجلاس ہوا، جس میں کےالیکٹرک حکام اور سیکریٹری پاور نے بھی شرکت کی۔
سیکریٹری پاور نے اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ ایک سال میں 380 ارب روپے کی بجلی چوری ہوئی، خدشہ ہے یہ بڑھ کر 520 ارب تک پہنچ سکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کنڈے کے ذریعے 200 ارب جبکہ میٹر کے ذریعے 80 ارب روپے کی بجلی چوری ہورہی ہے۔
سیکریٹری پاور نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا میں 185 ارب روپے کی بجلی چوری ہوئی، صرف بنوں میں 7 ارب کی بجلی چوری کی جاتی ہےجبکہ مردان میں 80 فیصد بجلی چوری ہوئی۔
اس موقع پر رکن قومی اسمبلی سائرہ بانو نے کہا کہ آپ کے لوگ خود چوروں کے ساتھ ملے ہیں، جو مہنگائی ہوئی ہے لوگ چوری نہ کریں تو کیا کریں۔
سیکریٹری پاور نے اس موقع پر اعتراف کیا کہ بجلی چوروں کے ساتھ ہمارے لوگ بھی ملے ہوئے ہیں، یہی چوری کی اصل وجہ ہے۔
سیکریٹری پاور نے اس پر کہا کہ بلنگ اور ریکوری کو پرائیویٹائز کرنے کا اقدام اٹھا رہے ہیں، ہم نے اشتہارات دیے ہیں، آنے والے دنوں میں یہ کام ہو جائے گا، چاہتے ہیں کہ پولیس کی طرز پر ایک ٹاسک فورس بنائیں جو چوروں کی بجلی کاٹے۔
دوران اجلاس پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی آغا رفیع اللّٰہ نے کہا ہے کہ کےالیکٹرک ریکوری نہ ہونے کے بہانے پورے علاقے کی بجلی بند کردیتی ہے۔ اس مسئلے پر پارلیمنٹ سے بل پاس ہو چکا اور ایکٹ بھی بن چکا ہے۔
پی پی رکن قومی اسمبلی نے یہ بھی کہا کہ ریکوری نہ ہونے کے بہانے یہ بجلی بند کرتے ہیں، میری تجویز ہے کہ صرف ڈیفالٹر کی بجلی کاٹی جائے۔
اجلاس میں کےالیکٹرک حکام نے بتایا کہ بجلی کاٹنا ہمارے پاس آخری آپشن ہوتا ہے، یہ ڈیفالٹر 80 فیصد تک پہنچتے ہیں اور ہم ان کے خلاف ایف آئی آر تک نہیں کاٹ سکتے۔
حکام نے مزید کہا کہ ہم نے قسطیں کرکے دیں لیکن لوگ بل جمع نہیں کرواتے۔
دوران اجلاس سیکریٹری پاور نے بتایا کہ فیڈرز پر ہمارا کنٹرول ہوتا ہے، اس سے آگے نہیں، جب ہم فیڈرز بند کرتے ہیں تو تمام لوگوں کی بجلی بند ہو جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت ہمیں اس کی سبسڈی دے تو بجلی نہیں کاٹی جائے گی، لوڈشیڈنگ کو فیڈر لیول کے بجائے ٹرانسفارمر پر لایا جائے تو مسئلہ کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔
سیکریٹری پاور نے مزید کہا کہ اگر ٹرانسفارمر کو آن لائن بند کرنے کی صلاحیت لائی جائے تو اس پر 60 ارب روپے لاگت آئے گی، یہ منصوبہ پورے ملک میں 3 سے 4 سالوں میں قابل عمل ہوسکتا ہے۔