• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغان طالبان کے افغانستان کا اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان نے امن کو یقینی اور دیرپا بنانے کیلئے مخلصانہ طور پر کوششوں کا آغاز کیا اور افغان طالبان سے پاکستان کو مطلوب ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کی حوالگی کے کئی مطالبات کئے لیکن افغان طالبان نے مطلوب دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کرنے کی بجائے آزاد کردیا جس کا خمیازہ آج دوبارہ ہمیں بھاری انسانی جانوں کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔مملکت خداداد پاکستان ہو یا دنیا کی کوئی بھی ریاست اس کی بقا اور مستقبل کا اولین جزو معیشت ہے اور قسمت کی کرنی یہ کہ پاکستان کی معیشت اس وقت گھٹنے ٹیکتی جارہی ہے کیونکہ معاشی استحکام کا دار و مدار امن وامان سے منسلک ہوتا ہے لیکن افسوس کہ پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے امن کے خواب کو تعبیر کی شکل دینے کیلئے کوششوں کے باوجود کامیابی کی منازل طے نہیں کرسکا۔پاکستان میں گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری دہشت گردی کی کارروائیوں میں شدت آرہی ہے۔چند روز قبل پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والا دھماکہ حکومت وقت کیلئے پریشانی اور ندامت کا سبب ہے۔ پاکستان نے سانحہ نائن الیون کے بعد امریکا کی جنگ میں کودنے کا جو غیر دانش مندانہ فیصلہ کیا تھا اس کے اثرات 80 ہزار زندگیوں کے ضیاع اور اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانے کے بعد بھی ختم ہونے میں نہیں آرہے۔افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد کالعدم تحریک طالبان ایک بار پھر پاکستان کیلئے خطرہ بن کر ابھری ہے، 2014 کے بعد پاکستان کی مسلح افواج اور سیاسی قیادت کے اتفاق سے پاکستان میں عسکری آپریشنز کے ذریعے دہشت گردی کا خاتمہ کیا گیا لیکن بھارت کی مکاری اور افغانستان کے عدم تعاون کی وجہ سے ایک بار پھر پاکستان میں دہشت گردی کا یہ کینسر پھیلنا شروع ہوچکا ہے۔جہاں تک معیشت کا تعلق ہے تو کسی بھی ریاست میں امن کے قیام تک معیشت کو بہتر بنانا کسی صورت ممکن نہیں، پاکستان نے سانحہ نائن الیون کے بعد جس آگ میں چھلانگ لگائی تھی اس کی تپش آج تک قوم کو برداشت کرنا پڑ رہی ہے۔

پاکستان کے معاشی حالات دیوالیہ ہونے کے قریب تر ہیں، مہنگائی میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے، ملک میں بجلی، پیٹرول اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں بے انتہا اضافہ ہوچکا ہے اور اب پیٹرولیم مصنوعات مزید مہنگی ہونے کا خدشہ ہے جس سے بھوک اور بدحالی میں ہولناک اضافہ متوقع ہے۔پاکستان اپنی تاریخ کے ایسے موڑ پر آچکا ہے جہاں حکمرانوں کے علاوہ عوام اور خواص سب کی زندگیاں مہنگائی کے طوفان کی زد میں آچکی ہیں اور قابل افسوس بات یہ ہے کہ حالات انتہائی دشوار ہونے کے باوجود حکمران حالات کی سنگینی کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔پاکستان کی معیشت اس وقت انتہائی مشکل صورتِ حال سے دوچار ہے،پاکستان کے پاس ایک ماہ کی درآمدات کیلئے بھی پیسے نہیں ہیں، ایک طرف شنید یہ ہے کہ امریکی ڈالر265 روپے کی حد بھی عبور کر چکا ہے لیکن حقیقت میں 300 روپے میں بھی ڈالر مارکیٹ میں دستیاب نہیں اور ڈالر مہنگا ہونے کے بعد ملک میں مہنگائی کا طوفان آنے والا ہے۔پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کا نظام امریکی ڈالر کا مرہونِ منت ہے،آپ کے پاس کتنا بھی پیسہ کیوں نہ ہو لیکن جب تک آپ کے پاس ڈالر نہیں، تب تک آپ دنیا سے کچھ بھی نہیں خرید سکتے۔یہاں تشویش کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے پاس ڈالرز ختم ہورہے ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس صرف چند دنوں کے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں، اس کے بعد کیا ہوگا؟ یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔حکومت نے ڈولتی معیشت کو سہارا دینے کیلئے عوام کا خون مزید نچوڑنا شروع کردیا ہے اور پیٹرولیم قیمتوں میںپہلے 35 روپے اور اب 22روپے کا اضافہ کرکے غربت کی چکی میں پستے عوام کی جینے کی آس کو مزید کمزور کردیا ہے اور170ارب کا منی بجٹ پیش کردیا ہے ۔بسکٹ،تیل ،جام ،کھلونے ،چاکلیٹ ،ٹافیاں ،شیمپو،صابن،ٹوتھ پیسٹ ،ہیئر کلر،شیونگ کریم، فوم بلیڈ،کمپیوٹر ،لیپ ٹاپ اور آئی فون پر اضافی جی ایس ٹی لگا دیا گیا ہے اور جی ایس ٹی 17فیصد سے بڑھا کر 18فیصد کر دیا گیاہےجس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا۔پاکستان کی معیشت کا حال یہ ہے کہ ہمارا سارا دار ومدار قرضوں اور امداد پر ہوتا ہے،اس لئے ہم قرض دینے والوں کی ہر جائز ناجائز بات ماننے کے پابند ہوتے ہیں اور پاکستان میں ہولناک مہنگائی کی وجہ بھی قرضے ہی ہیں اور اب حالات یہ ہیں کہ ہمارے پاس آئی ایم ایف کی کڑی شرائط قبول کرنے کےسوا کوئی چارہ نہیں کیونکہ خزانہ خالی ہوچکا ہے اور مجھ سمیت ماہرین کی ترسیلاتِ زر میں فوری اضافے کیلئے تجاویز کے باوجود کوئی عملی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔حکمرانوں کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اقتدار سنبھالنے کے 9 ماہ بعد بھی آپ گزشتہ حکومت کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں جبکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ اتنے وقت میں کوئی روڈ میپ بنایا جاتا اور عوام کو کٹھن حالات سے بچانے کیلئے عملی اقدامات کئے جاتے لیکن افسوس کہ حکومت کے پاس کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں ہے۔حالات آج جس نہج پر پہنچ چکے ہیں اس میں حکمرانوں کو اگر یہ لگتا ہے کہ اس ڈوبتی کشتی سے صرف عوام کو ہی خطرہ ہے تو یہ ان کی خام خیالی ہے کیونکہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور بھوک، بدحالی، بیروزگاری کا وبال عوام کی زندگیاں چھین رہا ہے اور حالات میںاگر بہتری نہ آئی تو اس سفینے کے ساتھ حکمرانوں کے تخت و تاج کو ڈوبنے سے بھی کوئی نہیں روک سکے گا۔

تازہ ترین