• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس حقیقت سے تو سب ہی واقف ہیں کہ ترقی پذیر ممالک جہاں تیل و گیس کی کھپت تو بہت زیادہ ہوتی ہے جب کہ پیداوار بہت کم ، لہٰذا یہ ترقی پذیر ممالک تیل پیدا کرنے والے ممالک سے تیل و گیس خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں تاکہ ملک کی معیشت کا پہیہ چلا سکیں ، لیکن یہ بات بہت ہی کم لوگ جانتے ہوں گے کہ اس تیل و گیس کی خریداری کا طریقۂ کار کیا ہے اور تیل و گیس کی خریداری میں کرپشن کے ذریعے اربوں روپےکس طرح بنائے جاتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان بھی ان غریب ترقی پذیر ممالک میں شامل ہے جہاں تیل و گیس کی کھپت تو بہت زیادہ ہے لیکن پیداوار انتہائی کم ہے جس کے باعث پاکستان کو زرمبادلہ کی خطیر رقم تیل و گیس کی خریداری پر خرچ کرنا پڑتی ہے ، اس وقت پاکستان کو جس معاشی بحران کا سامنا ہے اس کا سبب زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی ہے تاہم اپنی برآمدات ، اوورسیز پاکستانیوں کی ترسیلات زر، دوست ممالک اور آئی ایم ایف کے ذریعے جو بھی زرمبادلہ پاکستان حاصل کرپارہا ہے اسے خرچ کرنے کیلئے بہت منصوبہ بندی کرنا پڑتی ہے پاکستان اس وقت اپنا قیمتی زرمبادلہ چار اہم مقاصد پرخرچ کررہا ہے جن میں عالمی قرض کی ادائیگی، تیل و گیس کی خریداری ، دفاعی مقاصد اور پھر اگر کچھ بچ جائے تو ملک کی معیشت کیلئےضروری اشیاکی خریداری ۔ ان حالات میں حکومت پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ زرمبادلہ کو انتہائی احتیاط سے خرچ کیا جائے تاکہ ملک ڈیفالٹ سے بچ سکے ، گزشتہ دنوں یہ جاننے کا موقع ملا کہ حکمران اگر چاہیں تو ملکی مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے ملک کیلئے بہت زیادہ زرمبادلہ بچاسکتے ہیں بصورت دیگر کروڑوں ڈالر اپنی جیبوں میں بھر کر نسلوں کیلئے دولت جمع کرسکتے ہیں ، جی ہاں گزشتہ دنوں ایک بین الاقوامی کمپنی کے وفد سے ملاقات ہوئی جس کے پاس ایک یورپی کمپنی کا تیل اور افریقی ملک کی ایل این جی فروخت کرنے کا لائسنس ہے،یہ کمپنی تیسری دنیا کے کئی ممالک کو بطور تھرڈ پارٹی تیل اور ایل این جی فروخت کررہی ہے ، اس کمپنی نے جاپان میں مقیم ایک سینئر پاکستانی کوایڈوائزر مقرر کیا ہے۔ گزشتہ دنوں انہوں نے ہی تیسری دنیا کےایک سفارت کار سے اس کمپنی کے وفد کی ملاقات کا اہتمام کیا ، ملاقات میں راقم کو بھی شرکت کرنے کا موقع ملا ، میٹنگ کے آغاز میں تیل و گیس فروخت کرنے والی کمپنی کے سربراہ نے اپنی کمپنی کو حاصل تیل و گیس کی فروخت کے لائسنس کے حوالے سے مذکورہ سفارت کار کو آگاہ کیا اور ان ممالک کے حوالے سے بھی بتایا جہاں جہاں یہ تیل و گیس فروخت ہورہی ہے اور اپنی کمپنی کی قانونی حیثیت سے بھی آگاہ کیا ، جب کہ تمام تر تفصیلات کے بعد جب تیل اور ایل این جی کی قیمتوں کے حوالے سے آگاہ کیا تو کمپنی کے نمائندے نے کھل کر کہا کہ یہ تیل و گیس عالمی مارکیٹ کی قیمتوں پر فروخت کیا جائے گا لیکن عالمی مارکیٹ کی قیمت پر بیس سے پچیس فیصد رعایت بھی دی جاسکتی ہے ، صرف یہی نہیں بلکہ یہ تمام سودے مذکورہ ملک کی جانب سے بینک کی ایل سی پر ہی کئے جائیں گے اور جب مذکورہ تیل یا ایل این جی کا جہاز تیل و گیس خریدنے والے ملک کی پورٹ پر لنگر انداز ہوجائے گا تو ایل سی کلیئر کردی جائےگی ، یعنی تیل و گیس کی خریداری کا سودا انتہائی شفاف انداز میں کیا جائے گا ، تاہم کمپنی کے نمائندے نے مذکورہ سفارت کار کو یہ پیشکش بھی کی کہ تیل وگیس کی قیمت میں جو بیس سے پچیس فیصد رعایت آپ کے ملک کو دی جاسکتی ہے وہ رعایت کسی شخصیت کوبھی دی جا سکتی ہے یعنی خریدار پر منحصر ہے کہ وہ یا تو اپنے ملک و قوم کو یہ فائدہ دلوادے یا پھر کک بیک کی صورت میں خود فائدہ اٹھالے، لیکن مذکورہ سفارت کار نے ببانگ دہل اپنے ملک کیلئے مذکورہ رعایت حاصل کرنے کی بات کی، معلوم نہیں یہ سودا طےپایا یا نہیں لیکن یہ ضرور معلوم ہو گیاکہ ہمارے ملک میں جس طرح ماضی میں رینٹل پاور پلانٹس اورآئی پی پیز کے ذریعے بجلی خریدی گئی ، یا ماضی میں تیل و گیس اور ایل این جی خریدی گئی ، ان سودوں میں بھی کیا کوئی رعایت ملی ہو گی؟ اگر ملی ہوگی تو اس کا فائدہ ملک کو ہوا ہوگا یا کسی نے ذاتی مفادات حاصل کئے ہونگے؟ کاش ہمارے حکمران اتنے مخلص ہوتے کہ ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دیتے تو یقین جانیے برسوں قبل ہی پاکستان ترقی پذیر ممالک کی فہرست سے نکل کر ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکا ہوتا۔ امید ہے ہمارے حکمران قومی مفاد کو ترجیح دیں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین