• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کے ممتاز صنعت کاروں اور کاروباری شخصیات کیساتھ حالیہ ملاقاتوں میں انہیں کاروباری سرگرمیوں میں تعطل اور ملکی معیشت کی زبوں حالی پر کافی پریشان اور فکر مند پایا۔ زر مبادلہ کے کم ہوتے ذخائر، ڈالر کی بے لگامی، لیٹر آف کریڈٹ کی بندش، خام مال کی امپورٹ میں رکاوٹ، افراطِ زر میں اضافے اور عوام کی قوت خرید میں کمی ان کے لئے انتہائی پریشانی کا باعث تھی۔ بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافے، اشیا اور سروسز پر مزید ٹیکس اور سبسڈی کے خاتمے سے نا صرف کاروباری افراد بلکہ عوام بھی متاثر ہوں گے۔ ایسے دگرگوں حالات میں سب کی نظریں آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیج اور دوست ممالک کی طرف سے متوقع مالی امداد یا مزید قرضوں کے حصول پر گڑی ہوئی ہیں۔ ملک کے دوسرے طبقات کی طرح کاروباری حلقے بھی تقسیم کا شکار ہیں۔ کوئی موجودہ حکومت کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے تو کچھ لوگ سابق حکومتوں کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کی حصول اقتدار کے لئے محاذ آرائی سے عوام اور کاروباری طبقہ یکساں طور پر متاثر ہو رہا ہے۔ اپوزیشن میں بیٹھی بڑی سیاسی جماعت تحریک انصاف موجودہ غیر یقینی صورتحال اور معاشی تنزلی کا ذمہ دار پی ڈی ایم جماعتوں کے حکومتی اتحاد کو قرار دے رہی ہے اور کسی طور پربھی حکمران اتحاد کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں۔ اقتدار سے علیحدگی کے بعد تحریک انصاف کو ملنے والی غیر متوقع عوامی حمایت جس کی کی بڑی وجہ مظلومیت کا بیانیہ اور سوشل میڈیا پر متحرک پی ٹی آئی کے نوجوان کارکن تھے ،اب اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ اپنے پاور بیس کو مضبوط و مربوط رکھنے کے لئے محاذآرائی کی سیاست اور حکومتی اتحاد و قومی اداروں پر مسلسل تنقید ضروری ہے اور ان کی یہ حکمتِ عملی کسی حد تک کامیاب ہوتی نظر آ رہی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کی وجوہات کچھ بھی ہوں حکمران اتحاد کی بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ نواز نے ہچکچاتے ہوئے اقتدار میں آنا قبول کیا جس کا اسے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا۔ اقتدار میں آنے کے بعد مسلم لیگ ن کے قائدین کے خلاف بنائے گئے مقدمات ختم ہوگئے، اتحادی جماعتوں کے ممبرانِ اسمبلی کی کثیر تعداد کو وزیر و مشیر بنا دیا گیا اور ترقیاتی اسکیموں کی مد میں انہیں کروڑوں روپے کے فنڈز جاری ہو گئے۔ دوسری طرف تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور پارٹی کے ارکان کے خلاف کیسز بنا دیئے گئے اور ان کو اسی طرح عدالتوں میں گھسیٹا جا رہا ہے جیسے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے لوگوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا تھا۔ عمران خان نے اقتدار سےبیدخلی کے بعد بیرونی و ملکی سازشوں کا ذکر کیا اور رجیم چینج آپریشن کا ذمہ دار امریکہ کو قرار دیا کیونکہ ان کو پتہ تھا یا بتایا گیا تھا کہ اس بیانیے کو عوامی پذیرائی مل سکتی ہے ، اس کے علاوہ انہوں نے ملکی سلامتی کے اداروں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور انہیں سیاست میں دخل اندازی کا ذمہ دار قرار دیا۔ بعد ازاں عمران خان نے امریکی مداخلت کے بیان کو واپس لیتے ہوئے سابق عسکری قیادت کو اقتدار سے اپنی محرومی کا ذمہ دار قرار دیا۔ایسے حالات میں چند ملک دشمن عناصر بعض بیرونی ممالک کے آلہ کار بن کر اپنے وطن کی محافظ فوج کے کیخلاف بے بنیاد پراپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہیں۔ ملکی سرحدوں کی حفاظت ہو یا دہشت گردی کیخلاف جنگ ہماری فوج نے اپنے افسروں اور جوانوں کے خون سے اس پاک دھرتی کی حفاظت کی ہے۔ ماضی میں یقیناً چند افسروں سے غلطیاں ہوئی ہوں گی ، وہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں مگر ان چند افراد کی وجہ سے پورے ادارے کومطعون کرنا کسی صورت مناسب نہیں۔ پوری دنیا کے ممالک کی افواج اور دفاعی اداروں سے غلطیاں سرزد ہوتی ہیں اور بعض فیصلے بھی غلط ثابت ہوتے ہیں اور وہاں کے خفیہ ادارے بھی نیشنل سیکورٹی کے نام پر اپنے شہریوں اور غیر ملکیوں کی کڑی نگرانی کرتے ہیں مگر تمام تر آزادیوں کے باوجود ان ترقی یافتہ ملکوں کے آزادشہریوں کو اجازت نہیں کہ وہ اپنی فوج یا قومی سلامتی کے اداروں پر تنقید کر سکیں۔ نظم و ضبط کی پابند پاکستان کی فوج کا شمار دنیا کی بہتریں افواج میں ہوتا ہے جو نئی عسکری قیادت کے زیرِسایہ ملکی سالمیت اور تحفظ کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں۔ ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر، گاؤں اور گوٹھ میں پاک فوج کے شہیدوں کے نام سڑکوں اور چوراہوں پر آویزاں ہیں اور ان شہیدوں کے بوڑھے والدین، بیوائیں اور کمسن بچے فخر کرتے ہیں کہ ان کے پیارے اس دھرتی کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔ آج بھی فوجی بھرتی کے مراکز کے باہر لگی طویل قطاریں اس امرکی غماز ہیں کہ ملک کے نوجوانوں میں وطن سے محبت اور اس کی حفاظت کے لئے جان کی قربانی دینے کا جذبہ کم نہیں ہوا۔ اس وقت ملک جن مشکلات کا شکار ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں آپس کی لڑائیاں بھول کر ملک کو معاشی گرداب سے نکالنے کے لئے مل بیٹھ کر کوئی لائحہ عمل تشکیل دیں اور تمام اسٹیک ہولڈرز بھی بلا تفریق سب سیاسی قوتوں کو اکٹھا کریں۔ ان کٹھن حالات میں کچھ عرصہ کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کے ایماندار، قابل اور سوجھ بوجھ رکھنے والے افراد پر مشتمل ایک قومی حکومت قائم کر دی جائے تو معاشی مشکلات کم ہو سکتی ہیں اور اس طرح شاید باہمی نفرتیں بھی کم ہو جائیں۔

(صاحب مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین