• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس جدید دور میں ماہرین طب کے میدان میں بڑی بڑی بیماریوں کے جدید طریقے ِعلاج اور اینٹی باڈیز متعارف کروارہے ہیں۔ ان میں سے چند کے بارے میں ذیل میں بتایا جارہا ہے۔

اپنے خون سے برقی اشیاء کوتوانائی فراہم کریں

پیوند کاری کیے جانے کے قابل طبی آلہ جات مثلاًPace makersہزاروں زندگیوں کو بچانے کے کام آ تے ہیں، تاہم ان کو چلانے کے لیے بیٹری کی ضرورت ہوتی ہے ۔Pace makerکے ساتھ لگی ہوئی بیٹری 8سال تک انہیں رواں رکھ سکتی ہے ۔ اس کے بعد اس کو تبدیل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے ۔ اسی طرح بیٹری کی طاقت سے چلنے والے دل کے پمپ کو جسم کے باہر چارج کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس مقصد کے لیے مریض کےجسم کی جلد سے گذار کر ایک تار اندر ڈالا جاتا ہے۔ 

اگر جسم کے اپنے توانائی کے نظام کی مدد سے بیٹری کو چارج کرلیا جائے تو کافی مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔لہٰذا جدید تحقیق سے سامنے آیا ہے کہ اس میں مریض کے خون میں موجود گلوکوز کو بطور توانائی کے ماخذ کے استعمال کیا جائے گا جو کہ پیوند کاری سے لگائی جانے والی ڈیوائس کی بیٹری کو طاقت فراہم کرے گی۔ یہ حیاتیاتی ایندھن سیل نوبل دھاتوں (مثلاً پلاٹینم) کےاستعما ل کیے جاسکتے ہیں ۔ یہ دھات تکسید (oxidation)اورتحلیل سے مزاحم ہوتی ہے۔ ان کو خون میں موجود گلوکوز اور اردگرد کے ٹشوز میں موجودآکسیجن کے درمیان ایک برقی میکانی تعامل سے گذارا جاسکتا ہے ،تاکہ برقی کرنٹ پیدا کیا جاسکے۔ اس مقصد کے لیے دھاتوں کے بنے ہوئے پلاٹینم الیکٹروڈ تیار کیے جارہے ہیں۔

مصنوعی حیاتیات سنسنی خیز نئی سرحدیں

کیا زندگی کی تجربہ گاہ میں کسی خراش کی مدد سے تخلیق کی جا سکتی ہے؟کیا ایک نئے حیاتی جسم (living organism)میں انجینئرنگ کے ذریعےایسی خصوصیات پیدا کی جا سکتی ہیں جو قدرتی حیاتی جسم میں موجود نہیں تھیں ۔ کیا موجودہ حیاتیاتی اجسام میں اس طرح تالیف کے ذریعے ترمیم کی جا سکتی ہے کہ ان کے اندر ایسی خصوصیات پیدا ہوجائیںجو قدرت میں موجود نہیں تھیں ؟یہ وہ سوالات ہیں جوتالیفی حیاتیات (Synthetic Biology ) کے میدان میں بہت زیادہ اٹھائے جا رہے ہیں اور ان پر غور کیا جا رہا ہے ۔اس تیزی سے وسعت پذیر موضوع کے پہلے ہی بہت سے اطلاقات و استعمالات تلاش کرلیے گئے ہیں۔ 

پودوں کی جینیاتی ساخت میں ترمیم کرکے ادویات کے میدان میں موجودہ دوائیں مزید سستی اور مزید موثر انداز میں تیار کی جاسکتی ہیں ۔ مثلاً ملیریا کے خلاف کام کرنے والی ایک دوا کو SweetWormwood کے پودے سے بنایا جاتا ہے جو کہ جنوب مشرقی ایشیاء کے ساحلی جنگلات میں پائے جانے والے مینگروو زہیں ۔اس دوا کی طلب بہت زیادہ ہے لیکن اس پودے کی پیداوار بہت محدود ہوتی ہے، تاہم سائنس دان تین مختلف حیاتیاتی اجسام سے حاصل کیے گئے ۔بیکٹیریا جین بیکٹیریا میں داخل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ 

جو کہ ایک پیش رو مواد بناتا ہے، جس کو بعد میں ملیریا کی دوا میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، نیز یہ پودے سےبراہ راست حاصل کیے گئے مواد کے مقابلے میں کہیں سستے ثابت ہو تے ہیں مختلف نا میاتی اجسام کے organism کی مالیکیولر مشینری کے مرض کے خلاف دواؤں کی تیاری جاری ہے اس میں ہائیڈروجن کو بطور توانائی کے ماخذ تیار کیا جائے گا جو کہ خراب زمین سے بھاری دھاتوں اور دسرے آلودگی پیدا کرنے والے اجزاء کو نکال دے گا یا پھر حیاتیاتی ماءکرو آبدوزتیار کی جائے گی جو کہ خون کی نالیوں میں تیرتی ہوئی جائے گی اور ٹیو مر کی جگہ پر واقع کینسر کے خلیات کو ہلاک کردے گی۔

جینیاتی طور پر ترمیم شدہ مچھر

ایک اندازے کے مطابق ہر سال 200 ملین افراد ملیریا سے متاثر ہوتے ہیں اور ملیریا سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد800,000ہے ۔ یہ بیماری ایک مادہ مچھر کے کاٹنے سے ہوتی ہے ۔ ڈینگی اور زرد بخار بھی اسی مچھر کے کاٹنے سے ہوتاہے ۔ ملیریا کے خلاف کام کرنے والی دواؤں کے خلاف ان مچھروں میں مزاحمت پیدا ہوگئی ہے ۔ ایک چینی طبی پودے Artemisia annua سے نکالی جانے والی دوا کافی عرصے سے ملیریا کے علاج کے لیے استعمال کی جارہی ہے۔

اس میں ایک مرکبArtemisin پایا جاتا ہے جو کہ ملیریا کی مزاحم شکل کے لیے موثر ہے ۔ ملیریا کے علاج کے لیے تیار کی جانے والی اکثر نئی دواؤں میںاس کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن اس طبی پودے کی مختصر مقدار اس دوائی کی بڑے پیمانے پر تیاری کی راہ میں حائل ہے۔ 

اس حوالے سے ایک متبادل تصور پر کام کیا جارہا ہے، جس کے ذریعے مچھر کی نقصان دہ نسل کی آبادی میں نمایاں کمی آجائے گی ۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی آئروین ،میں کام کرنے والےAnthony Jamesنے اس قسم کے مچھر کی جینیاتی ترمیم شدہ شکل تیار کی ہے جو صرف مادہ مچھر کو نقصان پہنچائے گا۔ ان میں جینیاتی خرابی ان مچھروں کو اڑنے کی صلاحیت سے محروم کردے گی۔

اسمارٹ بینڈیج کی نئی قسم

اسمارٹ بینڈیج کی ایک نئی قسم تیاری کے مراحل میں ہے جو کہ نہ صرف زخم کی کیفیت کے بارے میں اطلاعات فراہم کرے گی بلکہ اس قت دوا کا اخراج کرے گی جب اس کی ضرورت ہو گی۔ اسمارٹ بینڈیج زخم ٹھیک ہونے کے وقت کو کم کردے گی اور علاج میں مدد فراہم کرے گی۔ بینڈیج سے خارج کی جانے والی اطلاعات طبی عملے کو ایک سینسرکے ذریعے منتقل کی جائیں گی۔ یہ بینڈیج ہنگامی صورت حال میں زیادہ کارآمد ہو گی جب زخمی افراد کو علاج کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ 

یہ بینڈیج زخم کی کیفیت کا اندازہ لگا کر طبی عملے کے پہنچنے سے پہلے ہی دوا فراہم کرنا شروع کر دے گی۔ اس سے فوری طبی امداد نہ ملنے کے باعث ہونے والی اموات پر قابو پایا جا سکے گا۔ یہ اسمارٹ بینڈ یج ایک نجی کمپنی نے تیار کی ہے۔

فالج (اسٹروک)کی صورت میں اینٹی باڈیز کے استعمال سے دماغ کو نقصان سے بچانا

فالج (اسٹروک) کے مریضوں کا ایک اہم ترین مسئلہ Clot ختم کرنے والی دواؤں کی بروقت فراہمی ہے جن کو rtPA کہا جاتا ہے۔یہ دوائیں صرف اسٹروک کے چند گھنٹے کے اندر فراہمی کی صورت میں کام کرتی ہیں۔دوسری صورت میں خطرات فوائد کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ ان خطرات میں دوا کے دینے سے Clot کو گھلانے کے عمل کے نتیجے میں بلڈ پریشر میں اچانک اضافہ شامل ہے جو کہ بعد ازاں خون کی نالیوں کو پھاڑ کر مزید خون بہنے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس دوا کا استعمال مریض کے دماغ کا مکمل اسکین کرنے کے بعد کیا جاتا ہے ،تا کہ پہلے اسٹروک کی نوعیت معلوم کر لی جائے۔

فرانس میں یونیورسٹی آف Caen, Basse -Normandinکے سائنس دانوں نے ایک ایسی اینٹی باڈی تیار کی ہے جو دماغ کے بعض عصبیوں کے ساتھ جا کرچپک جاتی ہے اور علاج کے لیے مزید وقت دے کر اس کے نقصان دہ اثرات کو کم سے کم کر دیتی ہے۔ چوہوں میں اینٹی باڈی کے ساتھ ملا کر یہ دوا دینے کے نتیجے میں 70فی صد مریضوں میں دماغ کے نقصان کو کم کیا گیا لیکن یہ اس صورت میں ممکن ہوا جب دو اسٹروک کے فوراً یا چھ گھنٹے بعد دی گئی۔ اینٹی باڈی سے علاج کردہ چوہوں کی صحت کی بحالی کی صورت بھی بہتر تھی۔امید کی جارہی ہے کہ اگر اینٹی باڈی اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی مریض کو دے دی جائے تو Clot کوگھلانے کا عمل محفوظ اور بہتر انداز میں ہوگا۔ اس سے مریض کی حالت بہتر ہونے کی توقع ہے۔

مشکل زخموں کے لیے … Cotton Candy

ذیابطیس کے مریضوں کے بعض زخموں کا علاج انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ اس کو بھرنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔ بعض سنگین نوعیت کے زخموں کی صورت میں اعضا ء کی تقطیع بھی ضروری ہوجاتی ہے۔ عام زخموں کو بھرنے کے لیے ریشوں جیسی ساختوں Fibrin پر انحصار کیا جاتا ہے جو خون کے پلیٹ لٹس کو جکڑ لیتا ہے اور ایک حفاظتی دیوار scaffolding بنا دیتا ہے، جس سے زخم کا غلاف تشکیل پاتا ہے۔ 

رولا، میسوری امریکا میں قائم Mo-Sci Corporation نے ایک نیا شیشے کا نینوفائبر پر مشتمل مواد تیار کیا ہے جو دیکھنے میں میٹھی گولیوں Cotton Candy کی طرح ہے جسے بچے خوشی خوشی کھا تے ہیں، یہ قدرتی عمل کی نقل کر کے خون کے لوتھڑوں کو پکڑ لیتی ہے اور زخم کے بھرنے کے عمل کو شروع کر دیتی ہے۔ یہ مواد بوریٹ شیشے سے بنتا ہے جو کہ سستا بھی ہے اور تیاری کے حوالے سے آسان بھی۔ یہ جسم میں آسانی کے ساتھ جذب ہو جاتا ہے چنانچہ ٹانکوں یا بینڈیج کے نکالنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ پروڈکٹ مطبی آزمائش کے مرحلے میں ہے۔ اُمید ہے کہ جلد ہی مارکیٹ میں پیش کر دی جائے گی۔

تیز رفتار بایوپسی

جسم کے ٹشوز (بافتوں) کے متعلق یہ جاننا کہ یہ کینسر کے حامل ہیں یا نہیں مریض کے لیے زندگی اور موت کی حیثیت رکھتا ہے۔ماہر علم نسیجیات (Histologist) کو عام طور پر متعلقہ مواد حاصل کر کے اس کے متعلق تجاویز دینے کے لیے ایک گھنٹہ درکار ہوتا ہے، جس کی وجہ سے انتہائی اہم سرجری کے عمل کو موخر کرنا پڑتاہے۔ اب کینسر کی فوری شناخت کے لیے NMR اور حساس اسپیکٹرو اسکوپی تکنیک کا استعمال کیا جارہا ہے۔ اس میں ٹشوز کو NMR اسپکٹرو میٹر میں طاقت ور مقناطیسی میدان اور ریڈیو فریکونسی لہروں کا ہدف بنایا جاتا ہے۔ ٹشوز کے سالمات طاقت ور مقناطیسی میدان میں ایک خاص حالتِ رقص سے گزرتے ہیں۔

ریڈیو فریکونسی موجوں کے زیر اثر ان کے رقص کرنے اور توانائی جذب کرنے کے انداز سے اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ یہ کینسر کے حامل ہیں یا بے ضرر ہیں۔ کینسر کے ٹشوز (بافتوں) کے تجزیہ کے لیے پہلی دفعہ NMR اسپکٹرو اسکوپی کا استعمال سینٹ میری اسپتال لندن میں کیا گیا۔ایک اور طریقہ کار میں دوران آپریشن پن کے سر کے برابر ٹشوز لے کر اس کو الیکٹروڈ (الیکٹرو سرجری) سے جلایا جاتا ہے اور اس جلے ہوئے ٹشوز کے دھویں کو ماس اسپکٹرو میٹر سے گزارا جاتا ہے۔ 

بہاؤ کے خلاف خلا پید اکر کے مختلف اقسام کے مالیکیول جمع کر لیے جاتے ہیں اور ان کو بلحاظ وزن علیحدہ کیا جاتا ہے۔ یہ سرطان کے مرض کی تیز رفتار شناخت کو ممکن بناتا ہے۔ اس طریقہ کارکا استعمال جرمنی میں محققین کا ایک گروپ جس کا تعلق یونیورسٹی آف Glessen سے ہے Debrecen ہنگری کے اسپتال میں کر رہا ہے۔ NMR اور ماس اسپکٹرو اسکوپی کی بہترین سہولیات کا استعمال ایفرو ایشیائی خطے میں حسین ابراہیم جمال تحقیقی ادارہ برائے کیمیا، بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم جامعہ کراچی میں موجود ہیں۔ یہاں پر 13 Super conducting NMR اسپکٹرو میٹر موجود ہیں ۔

دمہ کے حملہ کی شناخت …… ایک دن قبل

دمہ کا حملہ بہت تکلیف دہ ہوتاہے۔ اگر اس کے بارے میں پہلے سے معلوم ہو جائے تو حفاظتی دواؤں اور دوسرے اقدامات کے ذریعے تکلیف سے بچا جا سکتا ہے۔ ایک نجی کمپنی نے ہاتھ میں رکھ کرسانس کو محسوس کرنے والا ایک آلہ تیار کیا ہے، یہ دمہ کے حملہ سے24 گھنٹے قبل اس کے بارے میں اطلاع فراہم کردیتا ہے، جس کی مددسے بعض حفاظتی اقداما ت کیے جاسکتے ہے۔ یہ معلوم ہواہے کہ دمہ کے حملہ سے 2گھنٹےقبل جسم میں نائٹروجن آکسائیڈ کی مقدار میں تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے اور دمے کے حملہ سے قبل پھپھڑے میں سوزش اور ورم آنا شروع ہو جاتا ہے۔ 

یہ سینسر انتہائی کم ارتکاز پر (ایک ارب کا ایک حصہ) نائٹرک آکسائیڈ کی سطح کا اندازہ لگا لیتے ہے۔ جلن یا سوزش جس قدر زیادہ ہو گی نائٹروجن آکسائیڈ کی مقدار بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ اس طریقے کار سےدمے کے حملے کی شدت کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اور ڈاکٹر دوائیں تجویز کر سکتے ہیں۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
سائنس و ٹیکنالوجی سے مزید