السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
’’مختصر‘‘ کاحُکم نامہ
اتوار کو ناشتے کی میز پر میاں جی نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ میگزین ہاتھ میں تھمایا، تو سمجھ گئی کہ چٹھی شایع ہوئی ہے اور پھر شمارہ کھولتے ہی دل باغ باغ، گُل و گُل زار ہوگیا کہ یک نہ شد دو شد، ہمارے دو خطوط اکٹھے شائع ہوئے تھے۔ بلاشبہ یہ جو زندگی کی کتاب ہے، کبھی مہرباں، کبھی بےحساب ہے۔ خُوشی میں لمبی چھلانگ پھلانگنے اور صفحے پر پاؤں پسارنے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ ’’مختصر‘‘ کے حُکم نامے نے قدم روک لیے۔ بہرحال، تازہ شمارے کو ’’مختصر‘‘ کے نکتے پر مرکوز کیا۔ جس طرح ہر کارِخیر کا آغاز، اللہ کے پاک نام سے ہوتا ہے، اِسی طرح میگزین کے مطالعے کا آغاز ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے بحر بیکراں سے ہوتا ہے۔
محمود میاں نجمی کا ہم سب، خصوصاً نئی نسل پر بہت احسان ہے کہ انہوں نے معلومات کے خزانوں کامنہ کھول رکھا ہے۔ ٹائٹل کی خُوب صُورتی نے دل لُبھایا اور ساتوں رنگ دکھاتی ہوئی ماڈل ہاتھ پکڑ کر اندرونی صفحات تک لے گئی۔ برصغیر کے خونچکاں باب، یعنی سقوط ڈھاکا کا پڑھ کر تو ہم ڈھے سے گئے۔ نصف صدی ہونے کو آئی، لیکن یہ زخم آج بھی ناسور ہی بنا ہوا ہے۔ ’’عالمی افق‘‘ پر منور مرزا نے جنگ کے بادل چھائے دکھائے، تو سوچا کورونا کو بُھلا کر انسان پھر اپنی کرنی پر آیا ہوا ہے۔ ’’اِن اینڈ آؤٹ‘‘ جیسی تاریخی دستاویز کے بعد فاروق اقدس کا حنا ربانی کھر کے دورۂ افغانستان کا احوال بیان کرنا اچھا لگا۔ سعد صدیقی کا ’’فائنڈ مائی ڈاکٹر‘‘ بلاشبہ ایک نعمتِ غیر مترقبہ ہے۔ زینب شبیر کے تو ہم بھی ہم خیال ہیں کہ ’’پیار بانٹیں، کسی سے نفرت نہ کریں‘‘۔ ’’جہان دیگر‘‘ پر رانجھا صاحب چھائے ہوئے ہیں اور اپنی بزم کی رونقیں بھی عروج پر دکھائی دیں۔ (نازلی فیصل، ڈیفینس، لاہور)
ج: اگر حُکم نامے پر عمل کے بعد یہ حال ہے، تو حُکم عدولی کا کیا عالم ہوگا (کہ ابھی70فی صد خط ایڈٹ کردیا گیا ہے) ہم تو یہی سوچ کر دہشت زدہ ہوئےجاتے ہیں۔
نہ جانے کون کون سی پرتیں
’’عالمی اُفق‘‘ میں منور مرزا نے بگڑے اور الجھے ہوئے معاشی نظام کی اصلاح پر زور دیا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں تاریخی شہروں کے عہد رفتہ، ایمان افروز عظمت کا ذکر ہو رہا ہے۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس میں ڈاکٹر زبیدہ مسعود کا مضمون بے حد معلوماتی تھا۔ شفق رفیع کا ’’سنڈے اسپیشل‘‘ اپنی مثال آپ لگا۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں سلمیٰ اعوان نے چین کے ایک یک سر مختلف رُخ سے رُوشناس کروایا۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں حقیقی انسانی رشتوں کو بھرپور خراجِ تحسین و عقیدت پیش کیا جارہاہے۔ عرفان جاوید جیسے قصّہ طراز نے ’’آدمی‘‘ کی جانے کون کون سی پرتیں کھول کر سامنے رکھ دی ہیں۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں نامہ نگاروں کےتبصروں پر آپ کےبلاامتیاز پیار بھرے، کھٹے میٹھے، کٹیلے اور سُریلے جوابات کا کیا ہی کہنا۔ بلاشبہ یہ آپ کے جوابات ہی کے سبب ہے، جو دن بہ دن نامہ نگاروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ (مبارک علی ثاقب، راول پنڈی)
ج:نامہ نگاروں کی تعداد تو کچھ ایسی خاص نہیں بڑھ رہی، البتہ مواد کی مقدار خاصی بڑھ گئی ہے۔ جسے دیکھو، آٹھ آٹھ صفحات کے خطوط لکھ رہا ہے۔ ہمیں تو اصل حیرانی لوگوں کی اِس حد تک فراغت پر ہوتی ہے۔
تیرے ہوتے ہوئے محفل میں جلاتے ہیں چراغ…
شمارہ ہاتھ میں ہے اور لرزتے ہاتھوں سے (بوجہ احساسات و جذبات) قلم اُٹھایا ہے۔ آپ کی ہدایت ہے کہ خط مختصر ہو، اس لیے سیدٓھے مندرجات پر بات ہوجائے۔ محمود میاں نجمی کی تحریر، سبحان اللہ، ایمان و علم افروز تحریر۔ منور مرزا پر حیرت ہوتی ہے کہ بین الاقوامی حالات پر ایسی نظرِعمیق رکھنے والے لوگ بھی ہمارے یہاں موجود ہیں۔ اور ہماری حکومتیں ان سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھاتیں۔ توقیر کھرل کا نام میرے لیے تو نیا تھا، لیکن سقوط ڈھاکا کا جو نقشہ انہوں نے بہ زبانِ معتبر شعراء کھینچا، یوں لگا، جیسے یہ سانحہ آج ہی وقوع پذیر ہوا ہے۔ زینب شبّیر کی باتیں اتنی حقیقی لگیں کہ ان کے اندر چُھپے مردانہ جذبات کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکے۔
اتنی تلخ سچائی ہر کوئی بیان نہیں کرسکتا۔ اور ہاں، آپ کو شاید یہ بات مبالغہ لگے، لیکن بخدا سو فی صد حقیقت ہے کہ ہم ’’اسٹائل‘‘ کے صفحات صرف اُسی صُورت دیکھتے ہیں کہ جب تحریر آپ کی ہو۔ ڈاکٹر احمد حسن رانجھا کا ’’دہلی نامہ‘‘ بھی اپنی جگہ بناتا جا رہا ہے۔ جبّار مرزا فوج کے متعلق جو فرما رہے ہیں، وہ پوری قوم کی آواز ہے۔ رابعہ فاطمہ کا مختصر، مگر جامع مصمون بھی متاثر کرگیا۔ رہ گیا ’’آپ کا صفحہ‘‘ تو ایک شاعر کی زبانی کچھ کہنے کی کوشش کرتا ہوں ؎ تیرے ہوتے ہوئے محفل میں جلاتےہیں چراغ… لوگ کیا سادہ ہیں، سورج کو دِکھاتے ہیں چراغ۔ (شاہد محمود، شادمان مارکیٹ، لاہور)
ج: آپ کی تحریر، انداز تحریر اچھا ہے۔ احمد فراز کے معروف شعر کا بیڑہ ضرور غرق کیا آپ نے، جسے ہم نے درست کردیا ہے۔ اور ہمارے اسٹائل رائٹ اَپ کے حوالے سے آپ یقیناً مبالغہ آرائی نہیں فرما رہے ہوں گے،مگر یہ شاید آپ جیسے ہی کچھ لوگوں کی دُعا یا بددُعا ہے، جو یہ صفحات پھر سے ہمارے گلے آ پڑے ہیں۔ یعنی ہر ہفتے کی دردِ سری۔ اور رہی منور مرزا جیسے صاحبانِ علم کی قدردانی کی بات، تو اس مُلک کا تو المیہ ہی یہی ہے ؎ افسوس! اب کسی کا کوئی قدرداں نہیں …جوہر شناس اُٹھ گئے اہل ہنر کے ساتھ۔
کئی بار لکھنے سے متعلق سوچا
مَیں ہر اتوار آپ کا پرچہ بڑے شوق و ذوق سے پڑھتا ہوں اور ایک دو بار مختلف مضامین میں نظر آنے والی غلطیوں کی نشان دہی بھی کی ہے، جو کہ باقاعدہ شایع ہوئی۔ مَیں نے خُود بھی کئی بار لکھنے سے متعلق سوچا، لیکن وقت کی کمی اور مصروفیات آڑے آتی رہیں۔ بہرحال، آج کچھ لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں، یہ واقعہ خُود میرے ساتھ پیش آیا۔ اگر آپ کے معیار پر پورا اُترے، تو شایع فرما دیں۔ (ایم عبدالرؤف، ایجرٹن روڈ، لاہور)
ج: جی، اگر تحریر میرٹ پر پوری اُتری تو باری ہونے پر ضرور شایع ہوجائے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
ماڈلز بھی اچھی لگ رہی ہیں
’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی بہت ہی خُوب صُورت انداز میں مدینہ منوّرہ کی تاریخ بیان کر رہے ہیں، پڑھ کر دل بہت خُوش ہو رہا ہے اور دماغ بھی ترو تازہ ہوجاتا ہے۔ حالات و واقعات میں منور مرزا کے تجزئیات بےمثال ہوتے ہیں۔ اُنہوں نے چین، روس، افغانستان اور یورپی یونین پر بہت کُھل کر لکھا۔ بہت عرصے بعد ایک بہت اچھی ’’گفتگو‘‘ بھی پڑھنے کو ملی۔ کامران ٹیسوری نے عُمدہ باتیں کیؒں۔ ’’اسٹائل‘‘ بزم میں آپ کی موجودگی کے سبب اب تو ماڈلز بھی بہت اچھی لگ رہی ہیں۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ’’دہلی نٓامہ‘‘ کا جواب نہیں۔ ڈاکٹر احمد حسن رانجھا بہت احسن انداز سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اور آپ کا شکریہ کہ آپ نے ’’پیارا گھر‘‘ کو گرما گرم کھانوں سے بَھر دیا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں ہومیو ڈاکٹر ایم شمیم نوید کی کہانی ’’ہرا بھرا درخت اجاڑا تو پھر…‘‘ بہت خُوب صُورت انداز میں لکھی گئی۔ اور گوشۂ برقی خطوط میں مدثر اعجاز نے آپ کا شُکریہ ادا کیا کہ اُن کی تحریروں کو سجا سنوار کر شایع کیا جاتا ہے، تو اِسی تناظر میں ہم بھی آپ کا شُکریہ ادا کرتے ہیں کہ ہمارے خطوط کو بھی آپ کافی سجا سنوار کر شایع کرتی ہیں۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج:آداب عرض ہے۔ ہم تو بس اپنی ڈیوٹی احسن انداز میں نبھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اب ماڈلز آپ کو تو اچھی، مگر ہمیں بخدا زہر لگنے لگی ہیں۔
خاصی تسلّی ہوگئی ہوگی؟
ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ دونوں ہی میں سرچشمۂ ہدایت کےصفحات جگ مگ جگ مگ کررہےتھے۔ مجموعی طورپرپہلاشمارہ ’’عالمی یومِ اطفال‘‘ کی مناسبت سے تھا۔ جیسا کہ شفق رفیع کا فکرانگیز فیچر ’’پھول، غبارے، کھلونے بیچتے، بھیک مانگتے، درندگی کا نشانہ بنتے یہ پھول جیسے بچّے…‘‘ ایک لاجواب تحریر تھی، تو ساتھ بچّوں کے ادب سے متعلق ہونے والی کانفرنس کی رُواداد بھی شان دار تھی۔ حشرات الارض کے حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر فرخندہ منظور اور وفاقی وزیرِ مملکت برائے توانائی میر حاجی محمّدہاشم نوتیزئی کے انٹرویوز بے حد معلوماتی تھے۔ ’’خُودکشی عذاب ہے یارب‘‘ رائو محمّد شاہد اقبال کی بہترین کاوش تھی۔ باہمی تنازعات کا جنگ میں بدلنا کسی کے لیے سودمند نہیں۔ منور مرزا جی کا تجزیہ بھی حسبِ روایت لاجواب تھا۔ بابائے صحافت، مولانا ظفر علی خان کی 66ویں برسی کے موقعے پر لکھی گئی تحریر بھی خُوب صُورت تھی۔ چند اعتراضات پر عرفان جاوید نے خوب وضاحت دی۔ اُمید ہے، اب اعتراض کنندگان کی خاصی تسلّی ہوگئی ہوگی، اور یہ دیکھ کے بھی بہت خُوشی ہوئی کہ دونوں ہی شماروں میں ناچیز کے خطوط شامل تھے۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)
ج:جب ’’ناچیز‘‘ ہر ہفتے ایک خط لکھاں گے، تو پھر ہم شایع بھی تو کراں گے۔ اور آپ نے بجا فرمایا، اعتراض کنندگان کی لگتا ہے، واقعی تسلّی ہوگئی ہے، ورنہ ہماری تو ناحق ہی بدبختی آئی ہوئی تھی۔ عرفان جاوید نے خُود جواب دیا ہے، تو تب کہیں جا کے تنقیدی خطوط کا سلسلہ تھما ہے۔
سنڈے میگزین سی انتظامیہ
نرجس!کیسی ہو، امید ہے خیریت سے ہوگی۔ تم ’’آپ کا صفحہ‘‘ کو السلام علیکم‘‘ سے شروع کرکے ’’فی امان اللہ‘‘ پر ختم کرتی ہو، اور یہ وہ انفرادیت ہے، جو تمہاری عُمدہ تعلیم و تربیت کی عکّاسی کرتی ہے۔ ماشاء اللہ، اس بار پہلا صفحہ کھولتے ہی ایک بہت ہی معلوماتی، تحقیقی اور خُوب صُورت تحریر پڑھنے کو ملی، اور وہ بھی بزرگ قلم کار، محمود میاں نجمی کے قلم سے۔ مَیں اپنے پیارے سے میگزین کے پیارے سے قارئین کی جانب سے محمود میاں کو خوش آمدید کہتی ہوں۔ ہم سب کو یقین ہےکہ اب ہمیں بےحد معلوماتی اور شان دار مضامین پڑھنے کو ملیں گے۔ سلمیٰ اعوان کی تحریر ہمیشہ خُوب سے خوب تر ہی ہوتی جاتی ہے اور ہم گھر بیٹھے پوری دنیا کی سیر بھی کرلیتے ہیں۔ عرفان جاوید یقیناً ادب کی دنیا میں ایک لاجواب اضافہ ہیں۔ پیارا گھر، اِک رشتہ، اِک کہانی اور ڈائجسٹ کے صفحات بھی بہت ہی محنت کے ساتھ ترتیب دیئے جاتے ہیں۔ کاش! پیارے پاکستان کو بھی سنڈے میگزین کی مدیرہ اور ٹیم کی طرح کی بااصول، محنتی اور سخت ترین ڈسپلن پر عمل پیرا انتظامیہ میسّر آجائے۔ ایک بات پوچھنی تھی، آج کل تمہارے جوابات میں وہ کڑک پن نہیں ہوتا، بہت نرمی، مٹھاس آتی جارہی ہے، تو ایساکیوں کر ہوا؟ (ریحانہ ممتاز، کراچی)
ج: اچھا..... ایسا کچھ ہوا ہے، پتا نہیں، ہمیں تو خود خبر نہیں ہوئی۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ کچھ بے لگام، شترِبے مہار خطوط نگاروں کو محفل بدر کر دیا ہے، تو جلنے کڑھنے، غصّہ کرنے کا جوازہی ختم ہوا۔ رہی بات پاکستان کے لیے بااصول، محنتی اور سخت ترین ڈسپلن پر عمل پیرا انتظامیہ کی خواہش کی، تو یہ اختیار تو خودآپ کے (عوام کے) ہاتھوں میں ہے۔ آپ مُلک کی تقدیر کے سنوار کے لیے واقعتاً سنجیدہ ہیں تو اچھی قیادت منتخب کریں۔ اب تو نئے پاکستان، تبدیلی کے منجن سے بھی دانت مانجھ لیے۔ آئندہ کے لیے ہی کچھ عقل و شعور سے فیصلہ کرلیں۔
روایات کو زندہ
مَیں اتنا پڑھا لکھا تو نہیں ہوں، مگر روزنامہ جنگ اور سنڈے میگزین ضرور پڑھتا ہوں۔ مجھے خُوشی ہے کہ آپ نے میر صاحب کی روایات کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ اب میری اس تحریر کی نوک پلک آپ خُود ٹھیک کرلیں۔ (اے ایس شاکر، ملتان)
ج:اس تحریر کی کوئی نوک پلک ہے ہی کہاں کہ جسے ہم سنوارنے بیٹھیں۔
فی امان اللہ
اس ہفتے کی چٹھی
آپ کا ہر میگزین آپ کی اور آپ کی ٹیم کی سخت محنت کی بِنا پر بہترین مضامین کے ساتھ قارئین تک پہنچتا ہے۔ دسمبر کا پہلا شمارہ سامنے ہے۔ محمود میاں نجمی کی تحریر ’’مدینہ منوّرہ، عہدِ قدیم سے دورِ جدید تک‘‘بےحد معلوماتی سلسلے وار مضمون ہے۔ویسےاس سےپہلےجب تک’’مکّہ مکرّمہ: ماضی و حال کے آئینے میں‘‘ شایع نہیں ہوا تھا، اُن کی بےحد کمی محسوس ہورہی تھی۔ رائو محمّد شاہداقبال کافیفا فٹ بال ورلڈکپ2022ء پر مضمون بھی شان دار تھا کہ اِس میں فٹ بال، ٹرافی کی بناوٹ سے لےکر اسٹیڈیم کی تعمیر تک تمام ہی اہم باتوں کا عُمدگی سے احاطہ کیا گیا۔ یہ پڑھ کر کافی حیرانی ہوئی کہ یہ اسٹیڈیم عارضی ہے اور اصلی ٹرافی میوزیم میں رکھی جاتی ہے۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں چِین کی سیر کے بعد اب ’’دہلی نامہ‘‘ پیش کیا جارہا ہے۔
یوں تو لوگوں کی اکثریت سفر کرتی ہی ہے، لیکن جب ادیب یا شعرا سفر کرکے وہاں کے حالات و واقعات اپنے انداز اور الفاظ سے بیان کریں، تو قاری کے دل میں بھی وہاں جانے کی آرزو بیدار کردیتے ہیں۔ جیسے کہ ’’دل کو چِین کا ہے سفر درپیش‘‘اور اب یہ’’دہلی نامہ‘‘۔ ’’متفرق‘‘ میں وردہ صدیقی کے سیلاب کی تباہ کاریوں کے حوالے سے مضمون میں پوری قوم کو ترغیب دی گئی کہ سیلاب متاثرین کی حتی المقدور امداد کی جائے۔ بلاشبہ متاثرین کی امداد ہماری قومی و دینی ذمّے داری ہے۔ منور مرزا کا مضمون ’’ٹوئٹر آزاد ہوگیا‘‘ پڑھ کر محسوس ہوا کہ اِس آزادی کے فوائد کم اور نقصانات زیادہ ہوں گے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کی دونوں تحریریں لاجواب تھیں۔ مدثر اعجاز کی ’’نصائحِ پدر‘‘ میں ایک طرف تو باپ کا کردار نبھانے کےگُر بتائے گئے، دوسری طرف اولاد کو بھی سمجھایا گیا کہ والد کی نصحیتوں پر عمل پیرا ہونا کس قدر ضروری ہے۔’’یادداشتیں‘‘میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی سے متعلق پڑھا، ہم بھی دُعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن کی ان تمام خدمات قبول فرمائے۔ امجد محمود چشتی نے بہت ہی منفرد موضوع پر لکھا اور خُوب لکھا۔ اب ذہن میں ایک سوال یہ اُٹھتا ہے کہ ایسے چوروں کی سزا کیاہونی چاہیے۔
اس بار’’نئی کتابیں‘‘ میں بھی کچھ کتابیں اچھے موضوعات پر تھیں اور تبصرہ بھی عُمدہ انداز میں کیا گیا۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں نئے نئے خطوط نویسوں کا اضافہ ہورہا ہے، جوکہ خوش آئند ہے۔ لوگوں کی اکثریت میگزین پڑھتی اور اُسےپسند بھی کرتی ہے، مگر اپنی تحریر سے اظہار نہیں کرتی۔ ویسے میری ایک تجویز ہے کہ وہ لوگ جو ’’جو آپ کا صفحہ‘‘ پرباربارمسندِ خاص حاصل کرچُکے ہیں، وہ میگزین کے باقی صفحات پر بھی طبع آزمائی کریں کہ اِس طرح ان کے قلم میں مزید نکھار پیدا ہوگا اور دوسری طرف نئے خطوط نویسوں کو بھی یہ خاص مقام حاصل ہوگا۔ (شیما فاطمہ، کورنگی، کراچی)
ج: شیما! بہت اچھی تجویز ہے آپ کی اور آپ کی تحریر بھی بلاشبہ عُمدہ ہے۔ تو یوں کرتے ہیں، آغاز آپ ہی سے کرتے ہیں۔ آپ ہمیں فوراً سے پیش تر ’’پیارا گھر‘‘ کے لیے کوئی تحریر لکھ کے بھیجیں کہ ہم خود آج کل اچھے لکھاریوں کے معاملے میں سخت بحران کا شکار ہیں۔
گوشہ برقی خطوط
* میری کزن کی منگنی ہے، مَیں چاہتی ہوں کہ آپ اُسے وش کریں۔ کیا آپ میری خاطر اُسے مبارک باد دے سکتی ہیں۔ وہ سنڈے میگزین بہت شوق سے پڑھتی ہے۔ (عبدالسلام خان)
ج: آپ نے عبدالسّلام خان کی آئی ڈی سے ای میل کی ہے اور اپنا اور اپنی کزن کا نام بھی نہیں لکھا، تو اب خُود ہی بتائیں، ہم بھلا کِسے اور کیسے مبارک باد دیں۔ چلیں، یوں کہےدیتے ہیں۔ ’’عبدالسّلام خان کی آئی ڈی سے ای میل کرنے والی لڑکی کی کزن کو منگنی بہت بہت مبارک ہو۔‘‘
* سنڈے میگزین یقیناً سب کا ہر دل عزیز جریدہ ہے۔ مَیں نے تو حال ہی میں ایک شمارہ پڑھا اور بخدا قلم اٹھانے پر مجبور ہو گیا۔ ہر تحریر عُمدہ، سُرخیاں، لے آئوٹ، موضوع، اندازِ نگارش خصوصاً فیفا ورلڈ کپ سے متعلق انتہائی شان دار رپورٹس پڑھنے کو ملیں۔ محمود میاں نجمی کا ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا سلسلہ قسط وار پڑھنے میں وہ لُطف آرہا ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ اِسی طرح ناقابلِ فراموش، ڈائجسٹ جیسے سلسلے بھی خُوب ہیں نیز، مجھے اختر سعیدی کا نئی کتابوں پر تبصرے کا انداز بھی بہت ہی پسند آیا۔ (عبدالوسیم رؤف)
ج: آپ نے ہمیں بذریعہ ای میل اپنے خط کی اسکینڈ کاپی بھیجی اور اُس کی بھی پکچر لیتے ہوئے اپنے شہر کا نام غائب کردیا۔ تو پلیز، آئندہ ای میل کریں، تو اُردو ان پیج فارمیٹ میں کریں اور اپنے نام کے ساتھ مکمل پتا بھی لازماً لکھیں۔
* مَیں بہت سے کالم نگاروں کو ای میلز کرتا ہوں، مگر وہ واپس آجاتی ہیں۔ کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ (زید 629)
ج: جی نہیں، بالکل نہیں بتا سکتی۔ اِس لیے کہ وہ ہمارا شعبہ ہی نہیں۔ یہ صفحہ صرف سنڈے میگزین کے مندرجات پر بات کرنے کے لیے وقف ہے اور ہم صرف اور صرف سنڈے میگزین کے ادارتی صفحات ہی تک کے ذمّے دار ہیں۔ دیگر شعبوں میں کیا ہو رہا ہے، ہمارا کسی معاملے سے کچھ لینا دینا نہیں اور نہ ہی کسی بھی اور صفحے کے ضمن میں کوئی حتمی بات کرنا ہمارے لیے ممکن ہے۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk