پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم، شہیدِ ملّت، لیاقت علی خان نے آئین ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے یہ شعر پڑھا تھا کہ ؎ نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے…منزل اُنہیں ملی، جو شریکِ سفر نہ تھے۔ لیاقت علی خان کو کیا معلوم تھا کہ یہ شعر مُلکی سیاست کا ٹریڈ مارک بن جائے گا اور اُن افراد کو ایک کے بعد ایک اقتدار پر براجمان ہونے کا موقع ملے گا، جو کبھی عوام اور سیاست کے ہم سفر رہے اور نہ ہی کسی عملی جدوجہد میں حصّہ لیا۔ اُنھیں کیا خبر تھی کہ ایسے ادوار بھی آتے رہیں گے، جن میں صرف بیانات سے مُلکی امور چلانے کی کوشش کی جائے گی۔ میڈیا، حُکم رانوں کا ٹُول ہوگا، عوام بے وقوف بنتے رہیں گے اور یہ لوگ اقتدار کے مزے لُوٹتے رہیں گے۔
ایک مشکل یہ ہے کہ مُلک میں کبھی بھی آزمائش کا دَور ختم نہیں ہوتا، عوام کو ہر وقت قربانیوں کے لیے تیار رہنے کی باتیں سُننی پڑتی ہیں، شاید اِسی لیے اب قربانی کی اپیل کا کوئی اثر بھی نہیں ہوتا۔ نیز، مُلکی تاریخ میں اِتنے بیانیے بدلے گئے کہ سمجھ نہیں آتا، کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ۔ سوشل میڈیا کے متعلق یہ بات عام ہے کہ اب ہر چیز کو اس کے ذریعے اپنے حق میں موڑا جاسکتا ہے۔ سچ کو جھوٹ بنانا اور جھوٹ کو سچ قرار دینا کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا۔ عوام ہر بات کو تصدیق کیے بغیر آگے پھیلانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ بس ایک بیان داغ دیا اور قوم پندرہ، بیس دن اُسی میں مصروف ہوگئی اور اُس وقت تک مصرف رہتی ہے، جب تک کوئی نیا بیان نہیں آجاتا۔ اِسی لیے قومی معاملات جمود کا شکار ہیں۔ کوئی چیز آگے بڑھتی نظر نہیں آتی۔ ان بیانیوں کی سیاست سے کیسے جان چُھڑائی جائے، یہ امر بذاتِ خود ایک مسئلہ بن چکا ہے۔
پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد قائدِ اعظم،محمّد علی جناح اور وزیرِ اعظم لیاقت علی نے مُلکی نظام کی بنیاد جمہوریت پر رکھی۔ اُن کے بعد جو بھی اقتدار میں آیا، وہ جیسا بھی تھا اور جیسے بھی دائو پیچ لڑاتا رہا، لیکن قوم میں اپنے فائونڈنگ فادرز کی جمہوریت کی خواہش اِتنی مضبوط تھی کہ وہ نسل کسی صُورت اُس سے پیچھے ہٹنے یا اُس سے انحراف پر تیار نہ ہوئی۔ اِسی لیے پہلے دس سال، یعنی1958 ء تک ہمارا ایک ہی قومی بیانیہ تھا کہ’’حُکم رانی عوام کی ہوگی اور جمہوریت ہماری منزل ہے۔‘‘
تمام تر کوتاہیوں اور غلطیوں کے باوجود قوم اس ایک نقطے پر متفّق تھی، اِسی لیے وسائل کی عدم دست یابی کے باوجود آگے بڑھتی گئی۔1958 ء میں جنرل ایّوب خان نے مارشل لا لگا کر نہ صرف جمہوریت کی بساط لپیٹ دی، بلکہ وہ قومی منزل، یعنی جمہوریت، جس پر پوری قوم میں اتفاق پایا جاتا تھا، یک سر آنکھوں سے اوجھل ہوگئی۔ ایّوب خان نے صدر بنتے ہی بیانیوں کی بنیاد رکھ دی اور اِس کے لیے اعلی پائے کے بیورکریٹس اور اپنے وفادار اہلِ دانش کی خدمات حاصل کیں۔ اُن کا پہلا بیانیہ یہ تھا کہ تمام سیاست دان کرپٹ ہیں اور اُنہوں نے مُلک کا بیڑہ غرق کردیا ہے، اِس لیے اُنھیں سیاست میں حصّہ لینے کا کوئی حق نہیں۔
اُن کا یہ بیانیہ بعدازاں ایبڈو قانون کی شکل اختیار کرگیا، جس کےتحت سیاست دانوں کو انتخابات میں حصّہ لینے کے لیے نا اہل قرار دیا گیا، ان میں وہ سیاست دان بھی شامل تھے، جنہوں نے تحریکِ پاکستان میں حصّہ لیا تھا اور جن سے عوامی وابستگی اور آزادی کی جدوجہد کی داستانیں جڑی ہوئی تھیں۔ اِس اقدام سے قبل دیانت دار وزیرِ اعظم کو سرِعام گو لی مار شہید کردیا گیا تھا۔ قوم کو سمجھایا گیا کہ سیاست بڑا گندا کھیل ہے، اس سے دُور ہی رہو، یہ تو صرف چند جینئس، طاقت وَر افراد اور خاندانوں کا کام ہے، جو مرتے دَم تک حُکم ران رہیں گے اور قوم کو فلاح کی منزل تک پہنچا دیں گے۔
یہ آمریت کا وہی نسخہ ہے، جو مِصر، عراق، شام اور یمن سمیت بہت سے ممالک میں رائج رہا۔ دوسری طرف، دنیا غضب کی چال چل رہی تھی کہ یہ وہی زمانہ تھا، جب جاپان ایٹم بم کی تباہی اور امریکی غلامی سے نکل کر تیزی سے دنیا کے منظر نامے پر چھا رہا تھا۔ وہاں وزیرِ اعظم بدلتے رہے، لیکن معاشی ترقّی اور جمہوریت کا تسلسل جاری رہا۔ جنرل ایّوب خان نے تین سو سےزاید اعلیٰ بیوروکریٹس کو بھی کرپشن کے مختلف الزامات لگا کر فارغ کیا۔ یہ وہ ماہرین تھے، جنہوں نے مُلک کو اُس دَور میں چلایا، جب دفاتر میں بیٹھنے کے لیے میز، کرسیاں تک نہیں تھیں۔ مَن پسند افراد اور فوجی افسران کی ایک کھیپ کو بڑے بڑے عُہدوں پر فائز کردیا گیا۔ جنرل ایّوب خان کا تیسرا بیانیہ غدّاری کی سرٹیفیکیٹ تقسیم کرنا تھا۔
جنہوں نے اُن کی فوجی حکومت کا ساتھ دیا، وہ محبِ وطن اور مُلک کے خیر خواہ قرار پائے، باقی سب غدّار ٹھہرے۔ اِس معاملے میں وہ ساری حدیں پار کرگئے اور مادرِ ملّت، محترمہ فاطمہ جناح تک کو غدّار اور را کا ایجنٹ قرار دے ڈالا، جو جمہوریت کی بحالی کے لیے صدارتی الیکشن میں اُن کے مقابلے میں کھڑی ہوئی تھیں۔ مادرِ ملّت نے اپنی پیرانہ سالی اور خاتون ہونے کےباوجود جس بہادری، تدبّر اور حوصلے سے جمہوریت کی جنگ لڑی، درحقیقت اُسی نے آج تک قوم میں جمہوریت کی شمع روشن کر رکھی ہے۔ وہ اسلامی دنیا ہی نہیں، بلکہ پوری دنیا کی پہلی خاتون سیاست دان تھیں، جنہوں نے یہ زبردست کارنامہ سرانجام دیا۔ مادرِ ملّت اور جمہوریت کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ تاریخ کا حصّہ ہے، لیکن تین سال بعد ہی ایّوب خان اپنی دس سالہ ترقّی کا جشن مناتے ہوئے جس رسوائی سے اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور اپنے ہی نظم کو لپیٹ کرجس بےچارگی سے اقتدار یحییٰ خان کو سپرد کیا، وہ بھی مُلک کی سیاسی تاریخ بن گئی۔
جنرل یحییٰ خان کےدَور کا بیانیہ، نظریۂ پاکستان تھا، جو اُس پر یقین رکھتا، وہ سچّا پاکستانی اور باقی سب غدّار۔بہت سی سیاسی جماعتوں، خاص طور پر مغربی پاکستان میں اس بیانیے کو پزیرائی حاصل ہوئی، کیوں کہ یہ دانش وَر فوجی جنرل کےذہن کی پیداوار تھا اور اسےخاص طریقے سے پھیلایا گیا تھا۔ دراصل اسے شیخ مجیب کے چھے نکات کے مقابلے کے لیے تراشا گیا تھا۔ مغربی پاکستان کے بڑے بڑے صحافی اور اہلِ دانش اس بیانیے کی پروموشن کرتےرہے۔مجیب کےچھے نکات سے اختلاف ممکن ہے، لیکن وہ اُس کی سیاسی جماعت، عوامی لیگ کا منشور تھا، جس میں ردّ و بدل اور تبدیلی کی گنجائش تھی۔
خُود شیخ مجیب نے الیکشن سےپہلےاور بعدمیں یہ بات کہی تھی۔ اِسی نظریے کے تحت پہلے شیخ مجیب اور اُن کی عوامی لیگ کو غدّار قراردیاگیا، پھر پورے مشرقی پاکستان کے عوام کو، جنہوں نے عوامی لیگ کو ووٹ دیئے، بھارتی ایجنٹ بنادیاگیا۔ مُلک دولخت ہوا، تو مغربی پاکستان میں بھٹّو صاحب اقتدار میں آئے۔ بلاشبہ، وہ اعلیٰ پائے کے سیاست دان تھے، لیکن وہ بھی بیانیوں ہی کے سحر میں رہے، بلکہ اُن کی سیاست کا آغاز ہی ایک بیانیے سے ہوا تھا۔ وہ یہ کہ1965 ء کی جنگ کے پس منظر میں سوویت یونین کے شہر، تاشقند میں ایّوب خان اور بھارتی وزیرِ اعظم، لال بہادر شاستری کے درمیان مذاکرات ہوئے، جو ہفتہ بَھرجاری رہے اورآخردونوں کےدرمیان معاہدہ ہوگیا، جس کےتحت دونوں ممالک کے جنگی معاملات طے پائے اور فوجیں سرحدوں سے پیچھےہٹ گئیں۔ لیکن بھٹّو صاحب نے اس معاہدے کے بعد استعفا دے دیا اور پاکستان پیپلز پارٹی کےنام سے ایک نئی سیاسی جماعت بنالی۔
اُن کا بیانیہ یہ تھا کہ’’مَیں تاشقند معاہدے کے راز کھولوں گا۔‘‘اُن کا کہنا تھا کہ’’یہ مُلک کے ساتھ دھوکا ہے،میز پرجیت کوہارمیں تبدیل کردیا گیا۔‘‘معاہدۂ تاشقند کا راز تو آج تک افشا نہ ہوسکا، لیکن اُس زمانے میں یہ مغربی پاکستان میں ایک انتہائی مقبول سیاسی بیانیہ بن گیا۔ پھر جب بنگلا دیش بننےکےبعد وہ نئےپاکستان میں اقتدار میں آئے، تو اُنہوں نے قوم کو 20 کرپٹ خاندانوں کا بیانیہ دیا۔ آدم جی دائود اور ایسے ہی بڑے بزنس گروپس چور، لٹیرے اور ڈاکو قرار دیئے گئے۔ اُن کے بینکس، انڈسٹریز اور دوسرے ادارے، یہاں تک کہ پہلی پاکستانی ایئرلائن، جو اُنہوں نے قائم کی تھی، سب پر حکومت نے قبضہ کرلیا۔
حکومت نے تعلیمی ادارے تک اپنی تحویل میں لے لیے۔ گویا حکومت کاروباری گروپ بن گئی اور سرکاری افسران ان اداروں کے کرتا دھرتا بن بیٹھے۔ پانچ سال میں پوری قومی معیشت ٹَھپ ہوکر رہ گئی۔ جب اُن کی صاحب زادی وزیرِ اعظم بنیں، تو اُنہوں نے اس قومیانے کی پالیسی کے خلاف پالیسی بنائی اورکمرشل ادارےمالکان کوواپس کردئیےکہ حکومت کا کام بزنس کرنانہیں،وہ صرف معاملات ریگیولیٹ کرتی ہے، لیکن جو نقصان ہوچُکا تھا، اُس کا ازالہ ممکن نہ تھا۔
جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا لگایا، تو اُن کا بیانیہ، اسلامی نظام کا نفاذ تھا۔ ظاہر ہے، یہ عوام کی ایک دیرینہ خواہش تھی، لیکن کسی تیاری کے بغیر محض آرڈینینس یا مارشل لا کے ذریعے اس کے نفاذ کا نسخہ صرف جنرل ضیاء ہی کے پاس تھا۔ پھر اُنہوں نے اسی بیانیے کے تحت افغانستان کی خانہ جنگی میں مُلک کو ملوّث کیا۔ اُن کا بیانیہ یہ تھا کہ وہ جہاد میں حصّہ لے رہے ہیں، حالاں کہ اس کا پاکستان سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ روس اور افغانستان کا معاملہ تھا، جو گہرے دوست تھے اور ہمیشہ پاکستان کےمخالف رہے۔
واضح رہے، افغانستان وہ واحد مُلک تھا، جس نے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کو تسلیم کرنے کے خلاف ووٹ دیا۔ ضیاء الحق کی اس پالیسی کے نقصانات پر آج تک قابو نہیں پایاجاسکا۔دہشت گردی، کلاشن کوف اور ہیروئین کلچر سب اُسی دَور کے تحائف ہیں، لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ جنرل ضیاء نے قوم کو بُری طرح تقسیم کیا۔ اُن کے بعد بے نظیر بھٹّواورمیاں نواز شریف کی دو جمہوری حکومتیں آئیں۔ اُن کا کوئی نظریہ تو نہ تھا، تاہم وہ9 سال تک میوزیکل چیئر کا دَور تھا۔ دونوں اپنی آئینی مدّت پوری نہ کرسکے۔ بیک گراؤنڈ سے ڈوریں ہلائی جاتیں اورڈیڑھ، دوسال میں حکومت فارغ ہو جاتی۔ بےنظیربھٹو اور نوازشریف کے درمیان میثاقِ جمہوریت اِسی مصیبت اور سیاست میں مداخلت سے نجات کے لیے طے پایا تھا۔
1999 ء میں جنرل پرویز مشرف نے منتخب وزیرِ اعظم، میاں نواز شریف کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا، تو ’’کرپشن سے پاک پاکستان‘‘ اور ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ اُن کا بیانیہ تھا۔ اُن کی حکومت کو شروع دنوں میں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کہ اُسے کوئی تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھا۔ پھر نائن الیون کا واقعہ ہوا اور امریکا اُن پر مہربان ہوگیا۔ پرویز مشرف اہم ہوگئے اور پاکستان اہم ترین کہ اب وہ دہشت گردی کی جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ بن گیا تھا۔ مشرف دَور میں نواز شریف کو دس سالہ جلاوطنی کاٹنی پڑی۔ جب پرویز مشرف کے خلاف وکلا کی تحریک چلی، تو اُن کے سب بیانیے بَھک سے اُڑ گئے۔ امریکی امداد اور کولیشن سپورٹ فنڈ کے ڈالرز بھی اُن کے کام نہ آئے اور مُلک ایک مرتبہ پھر صفر پر کھڑا ہوگیا۔
ان تمام فوجی حُکم رانوں میں دو باتیں مشترک تھیں۔ ایک تو اُن کا یہ بیانیہ کہ سیاست دان کرپٹ ہیں اور وہ مُلک چلانےکےاہل نہیں۔ دوسرا نظریۂ ضرورت۔ جب بھی مارشل لاء لگا، تو معاملہ سپریم کورٹ گیا، جہاں نام وَر وکلا مارشل لاکامقدمہ اِسی نظریۂ ضرورت کے بیانیےکےتحت لڑتے رہے اور اس میں کام یاب بھی رہے۔ یوں سپریم کورٹ سے فوجی آمروں کو حُکم رانی کا اجازت نامہ ملتا رہا۔ پاکستان میں وکلاء تحریک کے بعد افتخار چوہدری نے جوڈیشل ایکٹیو ازم کا آغاز کیا، جو اب تک جاری ہے کہ سیاسی اور پارلیمانی معاملات بھی عدالت میں زیرِ بحث رہتے ہیں۔
اِسی جوڈیشل ایکٹیوازم کے تحت تین حکومتیں فارغ ہوئیں۔ افتخار چوہدری کے دَور میں انتظامی معاملات میں عدالتی مداخلت بڑھی اور افسران کو بُلا کر جس انداز میں نیچا دِکھایا جاتا، وہ اب تاریخ کا حصّہ ہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے اِس سلسلے کو جاری رکھا۔ اُن کے دور میں بھی افسران کو ذلیل کیا جاتا رہا۔ سیاست دانوں کو ڈان، گاڈ فادر اور سِسیلین مافیا جیسے القابات سے نوازا گیا۔
عمران خان کے دَور میں کرپشن ختم اور سیاست دانوں کے اربوں ڈالرز بیرونِ ممالک سے واپس لانے کا بیانیہ شروع ہوا۔ اُن کا بیانیہ یہ تھا کہ’’نواز شریف اور زرداری خاندان کرپشن کی جڑ ہیں، لہٰذا جب تک انہیں سیاست سے باہر اور اُن کی لُوٹی ہوئی دولت واپس نہیں لائی جاتی، مُلک ترقّی نہیں کرسکتا۔‘‘ وہ انہیں عوامی اجتماعات میں چور، ڈاکو، لٹیرے جیسے نازیبا اور ناشائستہ الفاظ سے پکارتے رہے، لیکن جیسا کہ ذکر ہوچکا، سیاست دانوں کو کرپٹ کہنا ایک پرانا بیانیہ ہے، جو فوجی آمر سیاست دانوں کے خلاف استعمال کرتے رہے۔ ویسے یہ بیانیہ ایّوب خان کے زمانے ہی سے عوام میں مقبول کیا گیا کہ بااثر افراد، خاص طور پر تاجروں اور سیاست دانوں کے اربوں ڈالرز سوئس بینکس میں پڑے ہیں، اگر وہ واپس لے آئیں، تو مُلک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔ عمران خان کو بیانیہ بنانے کا ماسٹر قرار دیا جاتا ہے، حالاں کہ یہ سب پرانے بیانیے ہیں۔
عمران خان نے اقتدار سے جانے کے بعد امریکی مخالفت کا پرانا بیانیہ اپنایا، جو عوام میں امریکا سے نفرت کی وجہ سے فوراً مقبول ہوا۔ اُن کا کہنا تھا کہ امریکا نے اندرونِ مُلک میر جعفروں اور میر صادقوں سے مل کراُنھیں اقتدارسےہٹانے کی سازش کی۔ سازش کا یہ بیانیہ بھی عوام میں مقبول ہوا۔ بعدازاں، وہ اس بیانیے میں بھی تبدیلی لاتے رہے اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہ سوشل میڈیا کا دَور ہے اور بلاشبہ عمران خان اور اُن کی جماعت نے اسے بھرپور طور پر استعمال کیا، جسے وہ اپنی سیاسی کام یابی کہتے ہیں، حالاں کہ سوشل میڈیا لوگوں کو اکھٹا تو کر سکتا ہے، مگر وہ جو کنفیوزن پیدا کرتا ہے، اس کے بعد کوئی منظّم سیاسی تحریک چلانا ممکن نہیں ہوتا۔ عرب اسپرنگ کی ناکامی اس کی ایک واضح مثال ہے، جس کا اب کوئی والی وارث نہیں۔ یہ بیانیے اپنی جگہ اور قوم نے ان کے پیچھے وقت بھی بہت ضایع کرلیا، لیکن ایک بیانیہ نہیں اپنایا، جس کی ضرورت بھی تھی اور وہ ہے، تعمیر و ترقّی کے لیےجدوجہد۔ حالاں کہ یہی وہ بیانیہ ہے، جسے تمام ترقّی کرنے والی اقوام کا مشترکہ بیانیہ کہا جاسکتا ہے۔