• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دہشتگردی کی شدید لہر --- بیرونی ہاتھ یا اندرونی سازش؟؟

دہشتگردی کی سنگین لہر نے پوری قوم کو عدم تحفظ اور اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے کیونکہ عوام کی حفاظت کرنے والے جب خود دہشت گردی کا شکار ہوں تو معاشرے میں تحفظ کا احساس کیونکر اجاگر کیا جاسکتا ہے؟

اس ملک کے خارجی اور داخلی دشمنوں نے چاروں جانب اسے گھیر لیا ہے- دونوں کا اولین ایجنڈا اس ملک کے اداروں کو نشانہ بنانا اور ایسا وار کرنا ہے جس سے عوام میں بے چیبنی اور ریاست کے خلاف نفرت پیدا کرنا ہے - جب سے یہ مخصوص دہشت گرد گروہ اس "مشن"میں شامل ہوئے ہیں، امن و امان کی صورتحال اس لئے بھی پریشان کن ہو رہی ہے کیونکہ اس بار دہشتگردوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت صرف پولیس فورس کو ہی اپنے نشانے پر رکھا ہے- حالانکہ انسداد دہشت گردی کا تجربہ رکھنے والوں کا تجزیہ ہے کہ دہشت گرد گروہ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے تشدد کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور معاشرے میں خوف د ہراس پیدا کرنے کے لئے نہتے عوام اور مزاحمت نہ کرنے والے غیر مسلح طبقہ کو تشدد اور دہشت گردی کا نشانہ بناتے ہیں لیکن اس بار ان کا معاشرے میں صرف خوف و ہراس پھیلانے کے مقصد نہیں بلکہ اس سے بڑھ کوئی اور مقاصد حاصل کرنے کے لئے طرز تشدد اور انداز دہشت گردی میں یہ واضع تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے کہ دہشت گرد تنظیموں یا گروہوں نہتے عوام یا بچوں کو نشانہ بنانے کی بجائے صرف پولیس کو بحیثیت ادارہ ہدف بنانا شروع کیا ہے اور گزشتہ دنوں رونما ہونے والے دہشت گردی کے دونوں واقعات میں پولیس کے انتہائی حساس مراکز یا دفاتر پر حملے ہوئے ان میں پولیس کی غفلت اور غیر ذمہ دارانہ رویہ نمایاں دکھائی دیا-

پشاور میں پولیس لائین کی مسجد میں نمازیوں پر خودکش حملہ کے بعد کراچی میں دہشتگردوں کے ایک خودکش دستے نے راکٹوں، دستی بموں اور خودکار اسلحہ سے لیس ہو کرانسپکٹر جنرل آف پولیس سندھ کے دفتر پر حملہ کردیا- گھنٹوں جاری رہنے والے اس سنگین واقعہ سے دہشت گردوں کی جانب سے یہ پیغام ملتا ہے کہ کوئی ادارہ، کوئی مقام اور کوئی فورس ان کی دسترس سے باہر نہیں-اس پیغام نے بلا شبہ عوام کا سکون غارت کر دیا-- یہی دہشت گردوں کا مقصد تھا-

حکومت وقت نے ماضی قریب میں اس ملک کے خلاف کی جانے والی گھناؤنی سازشوں کو نظر انداز کرتے ہوئے دہشتگردی کے واقعات اور اس پس پردہ عوامل کو تلاش کرنے کے لئے تحقیقات کا عندیہ دیا تھا جبکہ وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ نے دہشتگردی کے ان سنگین واقعات میں اندرونی سازش تلاش کرنے کی بجائے بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا ہے-

اس سے قبل وزیر داخلہ نے ملک میں دہشت گردی کی موجودہ لہر شروع ہونے کے ساتھ ہی نومبر 2021 میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور طالبان کی اعلیٰ قیادت کے درمیان طے پانے والے مشکوک معاہدے کے حوالے سے تحقیقات کرانے کا بھی عندیہ دیا تھا -- عمران خان کے اس معاہدے کے تحت دہشت گردی کے جرم میں سزائیں پانے والے طالبان کو جیلوں سے رہا کرنے اور پاکستان میں دہشتگردی کی وارداتیں کر کے افغانستان فرار ہونے والے پاکستانی دہشتگردوں کو پاکستان میں واپس لا کر آباد کرنے کا فیصلہ نمایاں طور پر تحر یر ہے جو ملک میں امن کی امید کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو سکتی ہے ۔ طالبان کی اعلیٰ قیادت اور عمران خان کے درمیان طے پانے والا یہ پراسرار معاہدہ دہشتگرد تنظیموں کی جانب سے کی جانے والی تمام پاکستان دشمن کارروائیوں کو درست قرار دینے کے مترادف تھا جس میں فوج اور پولیس کے جوانوں کے علاوہ ہزاروں شہریوں سمیت آرمی پبلک سکول کے طالب علموں اور نوجوانوں کی شہادتیں ہوئیں اور ملک میں امن و امان کا نظام درہم برہم ہو گیا- ان حالات میں ایسے کون سے عوامل اور مجبوری تھی جس کی بنیاد پر یہ معاہدہ کرنا پڑا- یہی پر اسراریت عمران خان کے کردار کو مشکوک کرتی ہے کہ عمران خان نے کن مقاصد کے حصول کے لئے یہ متنازعہ معاہدہ کیا جس کے اثرات عمران خان کو فائدہ پہنچانے کے لئے سامنے آ رہے ہیں۔

منفی سیاست، لا قانونیت، سول نافرمانی، انارکی، بلیک میلنگ اور ملکی معیشت کے راستے میں سرنگیں بجھانے والوں کو ملک و قوم کا بدترین دشمن تصور کرنے والے ناقدین کا موقف ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی کی موجودہ لہر کے ذمہ دار عمران خان ہیں کیونکہ اس معاہدے کے پس پردہ "مخصوص مقاصد" دیکھے جا سکتے ہیں کیونکہ عمران خان حصول اقتدار کے لئے کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر کسی کی بھی "خدمات" حاصل کر سکتے ہیں اور انہیں اس وقت شدید ضرورت ہے-

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین