جاگیرداروں، سرداروں، ٹھیکیداروں کا راج نصف النہار پر ہے۔ سرمایہ دار منہ چھپائے پھر رہے ہیں۔ صنّاع، ہنرمند، دانشورسب خوار ہیں۔ عیاشی ہورہی ہے مگر اپنی دولت سے نہیں، ریاست کے خزانے سے۔ مملکت فریاد کررہی ہے۔ ریگ زار منتیں مان رہے ہیں۔ دریائوں کے ہونٹ خشک ہورہے ہیں۔ سمندر اپنی خاموشی سے تنگ آگیا ہے۔ حکمران بظاہر اپنے آپ کو مطمئن ظاہر کررہے ہیں لیکن اندر سے ان کی چولیں ہلی ہوئی ہیں۔ ’’خدا کی بستی‘‘ میں گٹر ابل رہے ہیں، ’جانگلوس‘ سینیٹ سے خطاب کررہے ہیں۔ ’ چار دیواری‘ میں جگہ جگہ نقب لگ چکی ہے۔ لالی جیل سے بھاگتاپھر رہا ہے۔واہگہ سے گوادر تک سب کے چہروں پر ایک ہی سوال لکھا ہے،یہ ’’تیسرا آدمی‘‘ کون ہے؟
ہمارے چارلس ڈکنز اور تھامس ہارڈی شوکت صدیقی تھے۔ انہوں نے تہذیب و تمدن کی ڈھلتی شام اور آتے بحرانوں کی گھٹا اپنے وجدان سے مشاہدہ کی۔ اور ’خدا کی بستی‘ جیسا لازوال ناول اُردو ادب کو دیا۔ اب استحصالی طبقے کھل کر کھیل رہے ہیں۔ وسائل پیداوار پر ان کا قانونی قبضہ ہے۔ آئین سے، صدر مملکت، وزیر اعظم، الیکشن کمشنر، نگراں وزرائے اعلیٰ، گورنر فٹ بال کی طرح کھیل رہے ہیں لیکن گول کسی کو نظر نہیں آرہا۔
طبقاتی تضاد جانی دشمنی میں تبدیل ہورہا ہے۔ ضرورت پھر ہے ایک ترقی پسند تحریک کی۔ پھر شوکت صدیقی کی تلاش ہے۔ پھر حبیب جالب کوزمانہ ڈھونڈ رہا ہے۔ پھر استاد دامن، شیخ ایاز، حیدر بخش جتوئی ، فارغ بخاری،گل خان نصیر کی کمی محسوس ہورہی ہے۔20مارچ 2023آرہی ہے۔ 20مارچ 1923کو ایک صدی ہونے والی ہے۔ شوکت صدیقی کے عشاق، انکے اہل خانہ، ترقی پسند قبیلے کے قلمکار شوکت صدیقی کی سو سالہ سالگرہ منانے کیلئے پُر جوش ہیں، لندن میں مشتاق لاشاری تو پہل کرچکے۔
شوکت صدیقی کیا نہیں تھے۔ ایک حق گو صحافی، بے خوف ایڈیٹر، عالمی معیار کے ناول نگار، پوری انسانیت کا درد رکھنے والے، ہر نسل کے انقلابیوں، ترقی پسندوں کی سرپرستی کرنے والے۔ صرف الفاظ نہیں، واقعات، داستانیں ان کے آگے ہاتھ جوڑے ان کے ناول کا بہائو بننے کے لئے بے تاب رہتی تھیں۔ مجبور، مقہور جو اکثریت میں ہیں، وہ ان کرداروں کی تشکیل اور تعمیر کرتے تھے۔کبھی تقدیر کے ہاتھوں انہیں خود ان موالیوں کے ساتھ رہنا پڑا ۔ لکھنؤ سے پاکستان دیکھنے آئے۔ پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ پاکستان کو انہوں نے اینٹ در اینٹ تعمیر ہوتے دیکھا۔ پھر جاگیرداروں، سیٹھوں اور نودولتیوں کے ہاتھوں مسمار ہوتے بھی۔شوکت صدیقی کبھی بنے بنائے نہیں اترتے۔ تہذیبی انحطاط سے ان کی صورت گری ہوتی ہے۔ تمدن کی پامالی انہیں شوکت عطا کرتی ہے۔ آس پاس جھوٹ کے بازار انہیں صدیقی بننے کا حوصلہ دیتے ہیں۔مجھے سندھی مسلم ہائوسنگ سوسائٹی میں رائٹرز گلڈ کی اداس شامیں یاد آرہی ہیں۔ سیاسی کشمکش آج کی طرح ہی تھی۔ پاکستانی ایک دوسرے سے اسی طرح دور ہورہے تھے۔ بنگالی بھائی بہن رفتہ رفتہ مشرقی پاکستان واپس جارہے تھے۔ رائٹرز گلڈ کوشش کے باوجود مشرقی پاکستان کے ناول نگاروں، مصوروں کے لئے کچھ نہیں کر پارہا تھا۔ جمیل الدین عالی ہوتے تھے۔ ارشاد رائو ،قتیل شفائی کبھی کبھی ابن انشا، انقلاب فرانس کی باتیں، پرولتاری راج کی امیدیں،ایفروایشیائی یکجہتی کی تحریک زوروں پر تھی۔ سوڈان کے مقبول شاعر احمد ابوالخیر سے بھی یہیں ملاقات ہوئی۔حالات بہت دگرگوں تھے لیکن شوکت صدیقی کی گفتگو۔ مختلف ملکوں کی تاریخ پر ان کا عبور بھی ہمیں آج کی طرح بند گلی کا احساس نہیں ہونے دیتا تھا۔ہفت روزہ ’الفتح‘ نوجوان ترقی پسندوں کا مرکز بن رہا تھا۔ اس کے نگراں احمد ندیم قاسمی تھے اور شوکت صدیقی۔ ایک روز قاسمی صاحب کا ٹیلی فون آتا ہے۔ ان کی آواز رِندھی ہوئی ہے۔ مغربی پاکستان کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خان نے ان کو طلب کیا اور پوچھا کہ ’الفتح‘ میں کیا کرتے ہو؟ وہ کہتے ہیں کہ ’نگران‘ ہوں۔ جنرل صاحب کمال بے نیازی سے فرماتے ہیں،’ وہ جوان نگراں تو کوئی پڑھا لکھا ہوتا ہے۔‘تاریخ شرمسار ہے۔ دل نشیں شاعری، رم جھم کے قطعات، دیہاتی زندگی کے افسانے لکھنے والا اپنی زندگی وطن اور حرف و دانش کی نذر کرنے والے کو ایک جنرل ’پڑھا لکھا‘ نہیں سمجھتا۔نسل در نسل جنرل یہی سمجھتے آرہے ہیں۔
احمد ندیم قاسمی کی درد مندانہ التجا ہے کہ ان کا نام نگرانوں کی فہرست سے نکال دیا جائے۔
شوکت صدیقی نگران رہتے ہیں۔ جنرل ضیا الحق کے دَور میں ملک بدر کئے جانے والے وہاب صدیقی اپنی علالت کے باوجود شوکت صدیقی کی صدی کے لئےان کے اداریے اور مضامین یکجا کرچکے ہیں۔ آرٹس کونسل کراچی کے صدر محمد احمد شاہ شایان شان تقریبات اور شوکت صدیقی کے حوالے سے کتابوں کی اشاعت کا اہتمام کررہے ہیں۔ اصغر ندیم سید لاہور کا ذمہ لے چکے ہیں۔ ’جانگلوس‘ نے سرائیکی تمدن کو پوری دنیا میں متعارف کروایا ہے۔ اسلئے ملتان والے ڈاکٹر انوار کی قیادت میں تقریبات منعقد کریں گے۔
کراچی پریس کلب والے انہیں ایک ایڈیٹر اور صحافی کی حیثیت سے یاد کریں گے۔ ڈاکٹر توصیف احمد خان اس حوالے سے سرگرم ہیں۔ مجھے غلام عباس ، شیخ ایاز، عطا شاد، کموڈور انور، حمید کاشمیری، ابراہیم جلیس، خدیجہ مستور،ہاجرہ مسرور، حسن عابدی اور منہاج برنا یاد آرہے ہیں۔ ان سب کی قید و بند کی صعوبتوں، رتجگوں کے نتیجے میں ہی معاشرے کو اعتماد ملا۔
18دسمبر 2006کی غم انگیز یادیں بھی آنکھیں نم کررہی ہیں۔ ہم شوکت صدیقی کے 83سال دانش، تدبر، بصیرت سپرد خاک کرکے گورنر ہائوس پہنچتے ہیں۔ وہاں اہل قلم کے لئے گورنر سندھ اور شوکت ترین ٹرسٹ کا آغاز کررہے ہیں کہ اس کے ذریعے شاعروں، مصنفوں کی کتابیں شائع کی جائیں گی۔ ان کی مالی مدد بھی کی جائے گی۔ میں ان کے اس اقدام کو خوش آئند کہتے ہوئے یہ تلخ حقیقت بھی زبان پر لارہا ہوں کہ آج ہم ایک بین الاقوامی شہرت کے حامل ناول نگار کو لحد میں اتار کر آرہے ہیں، جو اپنی زندگی میں ہی لیجنڈ کا رتبہ حاصل کرچکے تھے۔ لیکن ان کے جنازے کو نہ کسی گورنر نے کاندھا دیا نہ ہی وزیر اعلیٰ نے، یہ بے حسی کیوں؟ مگر آج میں مطمئن ہوں کہ اس عظیم ناول نگار کی سوویں سالگرہ کے لئے ان کی اولاد ظفر عالم صدیقی، نگار قریشی، شہاب کامران صدیقی اور شوکت صاحب سے ولولۂ تازہ پانے والے سب سرگرم ہیں۔
حکومت وفاقی یا صوبائی کو تو حرف ودانش سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اچھا ہی ہے۔ ان کی سرپرستی سے مرحوم کے رت جگے اور قربانیاں داغ داغ ہوسکتی ہیں۔