• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محترم جاوید اختر کا نام آتے ہی ہمارے ذہن کی اسکرین پر انڈین فلم انڈسٹری کی ادبی چاشنی بھری کئی کہانیاں گھوم جاتی ہیں، کئی خوبصورت مکالمے اور گیت ذہنی کینوس پر ابھرنے لگتے ہیں ۔تم کو دیکھا تو یہ خیال آیا، زندگی دھوپ تم گھنا سایہ۔ ایک بلند پایہ رائٹر ،ادیب، گیت نگار ،اسکرین پلے رائٹر، فلم ڈائریکٹر ، کثیر الجہتی صلاحیتوں کے مالک جاوید اختر فلمی کے ساتھ ساتھ ادبی، سماجی اور سیاسی شخصیت کی پہچان رکھتے ہیں۔ بھارتیہ راجیہ سبھا کے رُکن رہے ہیں، ان سب سے بڑھ کر وہ اتنے پیارے انسان ہیں کہ جن کا سینہ انسانیت کی محبت سے سرشار ہے ۔

اصل مدعا پر آنے سے قبل یہ بہتر ہو گا کہ ایک طائرانہ نظر ان کی ابتدائی زندگی پر ڈال لی جائے، ان کی پیدائش 17جنوری 1945ء کو گوالیار مدھیہ پردیش کی ہے لیکن ان کے بچپن اور نو عمری کا زیادہ عرصہ اتر پردیش کے دارالحکومت معروف رومانوی شہرلکھنو میں بسر ہوا۔ تعلیم لکھنو کے علاوہ بھوپال اور علی گڑھ میں حاصل کی۔ ان کے ددھیال اور ننھیال دونوں علمی و ادبی پہچان رکھتے تھے۔ انکے و الد جان نثار اختر اردو زبان کے معروف شاعر تھے جنہوں نے انڈین فلموں کیلئے بہت سے گیت لکھے، ان کے دادا مضطر خیر آبادی بھی اپنے دور کے معروف شاعر تھے۔ علامہ فضل حق خیر آبادی کے اسم گرامی سے متحدہ ہندوستان کا کون سا پڑھا لکھا فرد ہو گا جو آگہی نہ رکھتا ہو، ان کی جدوجہد اور اس کی پاداش میں خاک بھی کہاں محو استراحت ہے سب کے سامنے ہے اور پھر غالب سے تعلق داری اور دیوان غالب کی تدوین میں ان کا کردار ادبی تاریخ کا حصہ ہے، وہ دادا کے داداتھے لیکن جاوید اختر نے کبھی بڑوں کے ناموں کو بیچا نہ ان پر اترائے۔ اپنے ماموں مجاز سے بھی اصلاح لی تفاخر نہیں لیا، والدہ صفیہ اختر بھی ادبی شغف رکھتی تھیں مگر اپنے لاڈلے کو چھوڑ کر جلد ہی راہیٔ ملک عدم ہوئیں ۔یوں جاویداختر جن کا نام والد محترم نے اپنے ایک شعر کی مناسب سے ’’جادو‘‘ رکھ دیا تھا اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے یا قسمت کا کھیل رچانے سترہ اٹھارہ برس کی عمر میں ہی ممبئی کی جادو نگری آگئے جہاں انہوں نے غربت و تنگ دستی کو اتنے قریب سے دیکھا کہ آج ہر کوئی ان کی زبان سے جدوجہد اور محنت کی وہ د استان سننا چاہتا ہے اور وہ اسے بیان کرتے ہوئے کوئی عار محسوس کرتے۔

ان کی پہلی شادی اداکارہ ہنی ایرانی سے ہوئی۔ یوں دو خوبصورت بچے فرحان اختر اور زویا اختر ان کے دل کی راحت بنے مگر بوجوہ وہ افسانہ جسے انجام تک لانا ممکن دکھائی نہ دیا، اسے ایک خوبصورت موڑ دیتے ہوئے پورے وقار اور احترام کےساتھ اختتام پذیرکر دیا۔ یوں 1984میں معروف شاعر کیفی اعظمی کے گھرانے سے ان کا تعلق استوار ہوا اور شبانہ اعظمی زندگی کا اٹوٹ حصہ بن گئیں جن کے حوالے سے لاہور میں ان سے سوال ہوا تو کیا خوب جواب دیا، وہ محبت کیا ہے جس میں دوستی نہ ہو اور وہ دوستی کیا ہے جس میں عزت نہ ہو اور وہ عزت کیا ہے جس میں دوسرے کیلئے اختیار نہ ہو اور یہ تو ایسی دوستی و محبت ہے ،شادی بھی جس کا کچھ نہیں بگاڑ سکی ۔کہا جاتا ہے کہ فلمی کامیابی میں ان کی سلیم خان (سلمان خان کے والد) سے جوڑی باعث برکت رہی اور شاید وہ پہلا موقع تھا جب درویش کو فلم ’’شعلے‘‘ کے مکالموں سے جاوید اختر سے اپنائیت محسوس ہوئی ۔ زنجیر، یادوں کی بارات، ہاتھ کی صفائی، دیوار، مسٹر انڈیا بھی شاید اسی جوڑی کے کمالات تھے۔ بہرحال آج انڈین فلم انڈسٹری میں کون ہے جو ان کا احترام نہیں کرتا ،اپنے فلمی گیتوں پر وہ پانچ ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں ،پدما شری، پدما بھوشن اور پھر رچرڈ ڈاکنزایوارڈ…. اگر انہی باتوں پر رہے تو اصل مدعا بیان کرنے کیلئے گنجائش نہیں رہے گی۔

جاوید اختر محض تین روزہ یاترا پر فیض میلے میں شرکت کیلئے لاہور تشریف لائے تو الحمرا کا وسیع ہال ان کے چاہنے والوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تنگ محسوس ہو رہا تھا ۔سیڑھیوں پر بھی تل دھرنے کو جگہ نہ تھی اور درویش نے ایسا والہانہ استقبال اس ہال میں شاید ہی کبھی کسی کا دیکھا ہو ۔ان کے ایک ایک بول پر پورا ہال تالیوں اور لاہوریوں کی محبتوں سے گونج رہا تھا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ زندہ دلان لاہور شاید محض جاوید اختر کیلئے ہی نہیں پورے ہندوستان سے محبت کے لئے اپنا سینہ کشادہ کئے ہوئے ہیں۔انہوں نے البتہ ان محبتوں کے ساتھ اہل لاہور سے یہ شکوہ ضرور کیا کہ ہم ہندوستانیوں نے مہدی حسن اور نصرت فتح علی خان کیلئے اتنے بڑے بڑے فنکشن کئے ہیں۔ لیکن آپ لوگوں نے لتا منگیشکر کا یہاں کبھی کوئی فنکشن نہیں کیا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین