• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج 23فروری ہے، ہر سال دن کا آغاز کرتے ہی میں پاکستان کے سابق اور پہلے ہندوچیف جسٹس رانا بھگوان داس کی یادوں میں کھوجاتا ہوں جو آج سے آٹھ سال قبل2015ء میں آج کے دن ہم سے ہمیشہ کیلئے بچھڑ گئے۔ایک طویل عرصے تک ہمارا یہ معمول تھا کہ شام کو ہم اکھٹے واک کیا کرتے تھے اور مختلف امور پر تبادلہ خیال کرتے تھے،میں نے رانا صاحب سےبہت کچھ سیکھا، مجھے یہ اعتراف کرنے میں فخر ہے کہ اگر ایک طرف میرے والدین نے مجھے اچھا شہری بننے کیلئے قانون کی پاسداری کا درس دیا تو رانا صاحب نے مجھے انگلی پکڑ کرعدلیہ کی راہ دکھائی اور مختلف مسائل کی شکار اقلیتی کمیونٹی کے حقوق کی حفاظت کیلئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا سکھایا۔ رانا بھگوان داس قیامِ پاکستان سے قبل 20دسمبر 1942ء کو سندھ کے علاقے لاڑکانہ کے ایک راجپوت گھرانے میں پیدا ہوئے، ان کا خاندان ملک کے ان غیرمسلم ہندو گھرانوں میں سے ایک تھا جنہوں نے قیامِ پاکستان کے موقع پر گیارہ اگست کو قائداعظم کی تقریر پر لبیک کہا اور نقل مکانی کا ارادہ ترک کرکے اپنی جنم بھومی پاکستان کو اپنی دھرتی ماتا بنایا۔رانا صاحب نے ابتدائی تعلیم سندھ کے مختلف تعلیمی اداروں سے حاصل کرنے کے بعد نہ صرف قانون کی تعلیم میں پوسٹ گریجویٹ کی ڈگری حاصل کی بلکہ اسلامک اسٹڈیزمیں بھی ماسٹر کیا، وہ اللہ کے آخری نبی ﷺ کے اسوہ حسنہ سے بہت زیادہ متاثر تھے اور ہمیشہ اعلیٰ سماجی اقدار،مساوات ، بھائی چارہ ، مذہبی آزادی ، صبر وتحمل اورقانون کی پاسداری کی اہمیت اجاگر کرتے تھے،ان کا اسلام اور ریاست مدینہ کے بارے میں مطالعہ بہت گہرا اور وسیع تھا،وہ مذہبی ہم آہنگی اور تمام مذاہب کا احترام کرنے تھے، مجھے یاد ہے کہ ایک تقریب میں رانا صاحب سے ذاتی نوعیت کے سوال کئے گئے تو رانا صاحب نے یہ جواب دیکر شرکاء کو حیران کردیا کہ میرا دھرم انسانیت ہے اور میں لوگوں کی فلاح اور بہبود پر یقین رکھتا ہوں۔انہوں نے اپنی زندگی میں آخری پیغمبر اسلامﷺ کی شان میں نذرانہ عقیدت پیش کرنے کیلئے بہت عمدہ نعتیں لکھیں۔رانا بھگوان داس کو 1994ء میں سندھ ہائی کورٹ میں جج متعین کیا گیاتو ان کی تقرری کوکچھ حلقوں نے مذہبی بنیادوں پر متنازع بنادیا،تاہم ایسے ناپسندیدہ رویے کے خلاف ملک بھر کی وکلاء برداری ، سول سوسائٹی اور میڈیا کی جانب سے بھر پور مذمت کی گئی اور آخرکارسندھ ہائی کورٹ میں دائر پٹیشن مسترد ہو گئی۔رانا صاحب نے جب بطور جج ذمہ داریاں سنبھالیں تو ہمیشہ حق اور سچ کا ساتھ دیا،وہ مذہب، فرقہ، ذات اور سماجی حیثیت سے بالاتر ہو کر ہمیشہ ڈنکے کی چوٹ پر قانون کے مطابق فیصلے کرتے ۔جنرل مشرف کے دورِ اقتدارکے عروج کے دنوں میں2007 ء میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی معزولی سے آئینی بحران پیدا ہوا تورانا بھگوان داس کوسینیئر ترین جج ہونے کی بناء پر قائم مقام چیف جسٹس مقرر کیا گیا، وہ اس وقت مذہبی یاترا کیلئے پڑوسی ملک کے دورے پر تھے پاک سرزمین پر جب ان کا جہاز لینڈ ہوا تو میں سب سے پہلا شخص میں تھا جس نے ان کا وطن واپسی پر خیرمقدم کیا، تاہم جب میں نے انہیں خصوصی پیغام دیا کہ آپ سے کچھ لوگ اہم ملاقاتوں کیلئے آج منتظر ہیں تو رانا صاحب نے متانت سے جواب دیا کہ میں اتوار تک چھٹی پر ہوں، سوموار کو سپریم کورٹ آؤں گا تو دیکھتے ہیں، ابھی فی الحال شام کو اکھٹے واک کرتے ہیں۔ رانا صاحب چاہتے تو اس وقت وہ خود چیف جسٹس بن سکتے تھے لیکن انہوں نے افتخار چوہدری کا عہدہ بحال کردیا، اس موقع پر سوشل میڈیا پر یہ پوسٹ بہت وائرل ہوئی تھی کہ پاکستان کے بیس کروڑ عوام انصاف کیلئے بھگوان(داس) کی طرف دیکھ رہے ہیں، رانا صاحب کے جرات مندانہ فیصلے کی گونج پوری دنیا میں سنی گئی اور عالمی برادری کی نظروں میں پاکستان کا کھویا ہوا وقاربحال ہوا۔ عدالتی کیریئر میں ریٹائرڈمنٹ کے بعد2009ء میں انہیں فیڈرل پبلک سروس کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین کا عہدے پر فائز کیا گیا تو انہوں نے وطن عزیز کی ترقی و خوشحالی کیلئے میرٹ کے فروغ کو یقینی بنایا،میں اس وقت پارلیمنٹ کا حصہ تھا جب تمام سیاسی جماعتوں کا رانا بھگوان داس کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کا سربراہ لگانے پر اتفاق ہوا تھا،اپنی ایمانداری اور اصول پرستی کی وجہ سے وہ تمام سیاسی جماعتوں کیلئے قابل قبول تھے۔گزشتہ دنوں اخبارات میں موجودہ نیب کے سربراہ کے مستعفی ہونے کے بعد ان کا بیان شہ سرخیوں میں شائع ہوا تو مجھے رانا بھگوان داس ایک مرتبہ پھر شدت سے یاد آئے ، جب انہیں نیب کی سربراہی آفر کی گئی تو انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی تھی کہ میں کسی بھی متنازع سیٹ پر بیٹھ کر انصاف پرمبنی فیصلے نہیں کرسکوں گا۔آج میں ان کی آٹھویں برسی کے موقع پرمیرے پاس کچھ بھی نہیں سوائے ان یادوں کے جو مجھے زندگی کے کٹھن سفر میں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہیں، میری نظر میں وہ ہمیشہ سے رول ماڈل انسان تھے اور ہمیشہ رہیں گے،وہ فخر پاکستان تھے،ان کے ذکرِخیر کے بغیر پاکستان کی تاریخ ادھوری رہے گی۔مِس یو، رانا صاحب ۔۔۔!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین