• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

تحریر کس کی تھی؟

’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں ساجد ذوالفقار نے فیفا ورلڈ کپ کی پوری داستان بہت جامع انداز میں محض ایک صفحے پر بیان کردی، بے حد پسند آئی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں مکّہ مکرّمہ کے بعد اب محمود میاں نجمی مدینہ منوّرہ کے عہدِ قدیم سے دَورِ جدید تک کا سفر نامہ لائے ہیں۔ پڑھ کر دل کو بہت اچھا لگ رہاہے۔ منور مرزا نے عالمی افق میں امریکا، چین تعلقات سے متعلق تجزیاتی تحریر پیش کی اور ہمیشہ کی طرح بہت ہی عُمدگی سے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں عالیہ زاہد بھٹی کے افسانے ’’کمرا‘‘ کا جواب نہ تھا، خصوصاً آخری سطر۔ ’’اب اکیلے ہی دو گز کے کمرے میں رہوگی‘‘ پڑھ کر تو آنکھیں نم ہوگئیں۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں رانا توفیق احمد خان نے ’’کراچی کے چند داداگیر‘‘ بہت ہی اچھے انداز میں تحریر کی۔ شہنشاہ حسین تو ایوب خان کے دَور میں بڑے زبردست اسٹوڈنٹ لیڈر ہوا کرتے تھے۔ دادا گیر ہوں گے، تب ہی اُن کو قتل کردیا گیا۔ عرفان جاوید کا ’’آدمی‘‘ تو تمام ہوا، البتہ وضاحت پڑھنے کو ملی اور اُس میں سو فی صد درست بات ہی کی گئی۔ اگلے شمارے کے ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں فاروق اقدس نے وزیرِ مملکت، حناربانی کھر کے دورئہ افغانستان کا احوال عُمدگی سے بیان کیا۔ بھارت کے دورے کا تذکرہ بھی برمحل تھا، مگر وہ تحریر کس کی تھی، پتا نہیں چل سکا۔ ’’عالمی افق‘‘ میں منور مرزا نے پیوٹن کی موسمِ سرما کو جنگی ہتھیار کےطورپراستعمال کرنے کی اسٹریٹجی کا تذکرہ کیا۔ سرورق کی ماڈل کو دیکھ کر یقین آگیا کہ واقعی سردیاں آگئی ہیں۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ڈاکٹر احمد حسن رانجھا ابھی امرتسر ہی میں موجود ہیں۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ سلسلہ مجھے بہت پسند ہے، خصوصاً ڈاکٹر اطہر رانا کے نانا کی باتیں پڑھ کر دل کو بہت اچھا محسوس ہوا۔ محمّد ہمایوں ظفر اس بار اِک رشتہ، اِک کہانی اورناقابلِ فراموش دونوں میں موجود تھے۔ مطلب، کافی محنت کررہے ہیں۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج: کسی بھی تحریرکے ساتھ اگر کوئی باکس آئٹم لگایا جاتا ہے، تو اِس کا مطلب ہوتا ہے، وہ اُسی تحریر کا حصّّہ ہے، یعنی اُس باکس آئٹم کا رائٹر کوئی علٰیحدہ شخص نہیں ہوتا۔ حناربانی کھر کے دورئہ افغانستان سے متعلق تحریرفاروق اقدس کی تھی اور اُسی تناظر میں انہوں نے حنا ربانی کے دورئہ بھارت کابھی تذکرہ کیا۔ جسے ایک باکس آئٹم کے طور پر مضمون کے زیریں حصّے میں لگایا گیا اور یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا، اخبارات و جرائد کی برس ہا برس سے یہی پریکٹس ہے۔ کسی تحریر کو نمایاں، علٰیحدہ کرنے کے لیے باکسز، ہائی لائٹس وغیرہ ہمیشہ ہی سے لگائے جاتے ہیں۔

خالد علیگ کا انٹرویو؟

نقّارہ خدا سُن لو، خدارا مُلک کو بچالو۔ یہ دنیا رہے نہ رہے، میرے دُکھی لوگو! کہانی سیاست کی زندہ رہے گی۔ سالِ رفتہ توگویا آنکھیں نم ہی رہیں۔ اچھی خبریں کہیں سے بھی سُننے کو نہ ملیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہم سب اللہ اور روزِ آخرت کو بھول چُکے ہیں۔ اللہ ہم سب کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی ہدایت دے۔ آمین۔ بس ایک سنڈے میگزین پڑھ کر دل کچھ بہل جاتا ہے کہ اِس سے ہر قسم کی معلومات مل جاتی ہیں۔اور یہ تو آپ بہت ہی اچھا کرتی ہیں، جو ہر ہفتے کسی نہ کسی کا انٹرویو شایع کردیتی ہیں،جیسا کہ خالد علیگ کے انٹرویو سے مَیں بہت متاثرہوا۔ (سیّد شاہ عالم زمرد، راول پنڈی)

ج: ہمارے خیال میں آپ عُمر کے اُس حصّے میں پہنچ چُکے ہیں، جس میں آپ کو کچھ رعایتیں ملنی ہی چاہئیں۔ آپ بات کہاں سے شروع کرتے ہیں اور کہاں لے جاتے ہیں، غالباً آپ کو خُود بھی کچھ اندازہ نہیں ہوتا۔ آپ کی پوری تحریر کا کوئی سر، پیر کم ازکم ہمیں تو نہیں ملتا۔ یہاں تک کہ آپ شاید ’’انٹرویو‘‘ اور ’’یادداشتیں‘‘ کے فرق سے بھی ماورا ہوگئے ہیں۔ ہم نے خالد علیگ مرحوم کا انٹرویو نہیں، یادداشتیں شایع کی تھیں۔

اُس نے پائے موتی

رات ہوگئی، صبح ہوئی۔ پرندوں نے اپنے پَروں کو کھولا، درختوں پر چہچہانا شروع کیا، تو اندازہ ہوا کہ آج تو سنڈے ’’اتوار‘‘ ہے، اور بس پھر جو جگا، تو اس نے پائے موتی۔ جو نیند سے نہ ہوا بیدار اُس نے پایا کچھ بھی نہیں۔ مجھے ملا سنڈے میگزین، یعنی معلومات کا خزانہ۔ سو، سرچشمۂ ہدایت سے لے کر آپ کا صفحہ تک سب چاٹ (پڑھ)ڈالا۔ (شری مُرلی چند جی گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور)

ج:شُکر،آپ نے بھی طرزِ تحریر تبدیل کرنے کاسوچا تو، وگرنہ ہمیں تو لگا، شایدآپ اور پرنس افضل شاہین ایک ہی انداز سے خط لکھتے لکھتے بوڑھے ہو جائیں گے۔

باامرِ مجبوری دولھا

ایک عام روٹین کی طرح ہم صرف سنڈے میگزین کے عرصۂ درازسے قاری ہیں۔ محمود میاں نجمی کی زبانی عہدِ قدیم سے دورِ جدید تک کے واقعات کا تذکرہ ہر بار دل کو تازگی بخشتا ہے۔ وحید زہیر اقتدار کی رسّہ کشی میں پاکستان اور پاکستانی عوام کے مسائل سے محوِ گفتگو تھے۔ رائو محمّد شاہد فیفا فُٹ بال کے منہگا ترین کھیل ہونے سے متعلق حیران و پریشان نظرآئے۔ فاروق اقدس پاک فوج میں تعیناتی کے مختلف مراحل کی کارگزاری (جس کا عوام سے دُور کا بھی واسطہ نہیں) بیان کر رہے تھے۔ منور مرزا نےبتایا، ٹوئٹر آزاد ہوگیا۔ ڈاکٹر رانجھا ’’دہلی نامہ‘‘ لیے آئے ہیں اور بڑے ہی شان دار انداز سے۔ اور شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی اس بار ’’آپ کا  صفحہ‘‘ میں باامر مجبوری دولھا بنا دیئے گئے کہ میدان جو خالی تھا۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، ضلع مظفّرگڑھ)

ج: ہاں، تم جو نہیں تھی، میدان میں۔

چھے سے زائد کہانیاں

بیٹاجی! بندہ بڑی محنت سے اپنی کہانیاں لکھتا ہے۔ بےشک، اب ستّر سال کی عُمر میں لکھنے کا وہ معیار برقرار نہ رکھ سکااور اسی وجہ سے آپ نے میری تقریباً چھے سے زائد کہانیاں ’’ناقابلِ اشاعت‘‘ میں شامل کر دی ہیں۔ ٹھیک ہے، بھئی آپ نے جو بھی کیا ہے، اپنی سوچ کے مطابق اچھا ہی کیا ہوگا۔ اب دو اور کہانیاں لکھ کر بھیج رہا ہوں، اُمید ہے، آپ کو پسند آئیں گی۔ (سائیں تاج دین بٹ، عدیل ٹائون، بھائی والا، فیصل آباد)

ج: کسی بھی تحریر کی اشاعت کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ صفحے کے فارمیٹ کے مطابق ہو، میرٹ پر پوری اُترے، ہمیں پسند نہ بھی آئے تو کوئی مسئلہ نہیں  کہ ہم نے اُسے ویاہ کے  گھر تھوڑی لے جانا ہوتا ہے، جریدے کا حصّہ بنانا ہوتا ہے۔

بھاگ ان بردہ فروشوں سے…

11دسمبر کا شمارہ موصول ہوا۔ سرِورق پر موسمِ سرما کی مناسبت سے گرم ملبوسات پہنے ماڈل براجمان تھی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی ’’مدینہ منوّرہ: عہدِ قدیم سے عہدِ جدید تک‘‘ کی تیسری قسط لائے۔ اُم سلمہؓ کا واقعہ پڑھ کے اندازہ ہوا کہ عرب کے جاہل جنگجو بھی خواتین کے ساتھ کیسی وضع داری کا برتائو کرتے تھے۔

’’انٹرویو‘‘ میں شفق رفیع ’’فائنڈ مائی ڈاکٹر‘‘ کے سی ای او، سعد صدیقی سے اُن کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں سے متعلق بات چیت کررہی تھیں۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں توقیر کھرل نے سقوطِ ڈھاکا کا تذکرہ کرکے پرانے زخم تازہ کردیے۔ وہ کیا ہے کہ ؎ یاد ماضی عذاب ہے یا رب۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں فاروق اقدس طالبان حکومت میں حنا ربّانی کھر کے دورۂ افغانستان کا احوال بیان کر رہے تھے۔ ویسے سمجھ سے بالاتر ہے کہ شدّت پسند طالبان کے مُلک میں، جو خواتین کی آزادی اور تعلیم ہی کے خلاف ہیں، ایک فیشن ایبل خاتون وزیرِ مملکت کو بھیجنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا یہ کام کوئی مرد سفارت کار انجام نہیں دے سکتا تھا، حالاں کہ کام یاب سفارت کاری کا ایک گُر یہ بھی ہے کہ ’’جیسا دیس‘ویسا بھیس‘‘۔ ویسےہم دنیا بھر میں اُن کی وکالت کرتے پِھر رہے ہیں کہ طالبان پہلے جیسے نہیں رہے، اُن کی مدد کرو۔ مگر اب تو وہ بھی ہم پر ہنستے ہوں گے کہ لو، ہماری حمایت کا مزہ چکھو۔ ہمیں 20 لاکھ سے زائد افغانیوں کی مہمان نوازی کا یہ صلہ ملا ہے۔ وہ کیا ہے کہ ؎ بھاگ اِن بردہ فروشوں سے کہاں کے بھائی… بیچ ہی دیویں، جو یوسف سا برادر ہووے۔ ’’عالمی اُفق‘‘ میں منور مرزا کئی مہینوں سے دنیا کے سلگتے ہوئے ایشو ’’یوکرین جنگ‘‘ پر قلم آرائی فرما رہے ہیں۔ ’’کہی ان کہی‘‘ میں شوخ و چنچل زینب شبّیر کی باتیں مزے کی تھیں۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر نظر دوڑائی، تو بڑی خوش گوار حیرت ہوئی، ہائیں، ایڈیٹر صاحبہ بہ نفسِ نفیس موجود ہیں۔ ہم نے بھی نوجوانوں کے مَن پسند شاعر، علی زریون کی سادہ سی غزل بصدشوق پڑھی۔ بس، اِس کے بعد حد ادب…(آپ کے رائٹ اَپ پر اتنی تحسین کا حق تو بنتا تھا) ’’جہانِ دیگر‘‘ میں دہلی کے سفر کے دوران ڈاکٹر رانجھا ہریش صابر پٹواری کے پُرتکلف کھانوں سے بھی لُطف اندوز ہولیے۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں اقصیٰ منوّر ملک، کھتری عصمت علی پٹیل اور ڈاکٹر اطہر رانا کی کہانیاں دل چُھو گئیں اور ’’ڈائجسٹ‘‘ میں تو فاطمہ شیرانی کی جنّت، فُٹ بال، کرکٹ کھیلتے کھیلتے کعب اشرف کو بولڈ کر کے وکٹری اسٹینڈ(حجلۂ عروسی)ہی جا پہنچی۔ محبوب حیدر سحاب، ڈھاکا کے ابھرتے ڈوبتے سفینے دِکھا رہے تھے،تو ڈاکٹر قمر عباس کی نظم بھی کمال تھی۔ ’’نئی کتابیں‘‘ پر اختر سعیدی نے حسب ِ معمول اچھا تبصرہ کیا اور ہمارے اپنے صفحے پر عیشا نیاز رانا اس ہفتے کی اعزازی چٹھی کی حق دار ٹھہریں۔ آپ نے ہماری طرح اُن پر بھی ہتھ ہولا رکھ کر مسند نشین کر ہی دیا۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)

ج: افغانستان سے متعلق آپ نے سو فی صد درست کہا۔ اِس وقت کے پی کے، کے سیکڑوں گھروں میں جو کہرام مچا ہے، یہ کچھ احسان فراموشوں کی طویل میزبانی اور بار بار اُن پر بھروسا کرنے ہی کا نتیجہ ہے، حالاں کہ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا، لیکن ہمیں تو شوق ہے، آستین میں سانپ پالنے کا اور ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ دیکھ کر آپ کو جو خوش گوار حیرت ہوئی، اب یہ حیرت جاتی رہے گی کہ ہم پر تو وہ مثال صادق آئی ہے، ’’مجبوری کا نام شکریہ‘‘۔

واقعہ بھیجوں گا

اپنی دُعائیہ تحریر شائع کرنے پر میں تہہ دل سے آپ کا ممنون، متشکّر ہوں۔ اُمید ہے کہ آپ مجھ ناچیز کی تحریریں آئندہ بھی شائع کرکے شکریے کا موقع دیتی رہیں گی۔ ایک درخواست ہے، میری تحریر کے ساتھ یہ ضرور لکھیں ’’شاعرِ شمال، ایم اے ہاشمی آف گلگت، سولجر بازار‘‘ کیوں کہ میں شمالی علاقہ جات سے تعلق رکھتا ہوں۔ آپ کی اِس مہربانی پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے آپ کی صحت و سلامتی کے لیے دُعا کروں گا اور ہاں، مَیں ناقابلِ فراموش کے لیے بھی ایک واقعہ بھیجوں گا، مناسب لگے تو شامل کرلیجیے گا۔ (ایم اے ہاشمی آف گلگت، ایم ایل پارک ویو، سولجر بازار2 ، کراچی)

ج: واقعے کی اطلاع دینے، بکنگ کروانے کی بجائے بھیج دیتے تو زیادہ بہتر ہوتا کہ پھر تحریر کی باری آتے آتے بھی کافی وقت لگ جاتا ہے۔

                      فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

سالِ نو ایڈیشن (پارٹ وَن) خُوب صُورت تحریروں کے ساتھ شائع کرنے کا بےحد شکریہ۔ میری جانب سے دلی مبارک باد قبول فرمائیں۔ ایڈیٹر صاحبہ کا ’’حرفِ آغاز‘‘ سیرحاصل اور مبنی برحقیقت معلوم ہوا۔ میرے خیال میں تو مُلکی حالات و واقعات، سیاسی افراتفری و ابتری اور اخلاقی و معاشی بگاڑ پر اِس سے بہتر تبصرہ ہو نہیں سکتا تھا۔ اتنی موثر اور دل کی اتھاہ گہرائیوں کی آواز بننے پر آپ کو سلامِ عقیدت پیش کرتا ہوں۔ وہ کیا ہے کہ ؎ دیکھنا تقریر کی لذّت کو جو اُس نے کہا… مَیں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ نعیم کھوکھر کا ’’اُمّتِ مسلمہ‘‘ کُل اُمّتِ مسلمہ اور خاص طور پر پاکستانی سیاسی دھما چوکڑی کا عُمدہ عکّاس تھا کہ ؎ جانے کب ہوں گے کم… اِس دنیا کے غم۔ ’’عدالتِ عظمی‘‘ میں اویس یوسف زئی نے سیاسی تنازعات کی گونج کے عنوان کے تحت عدلیہ کا کردار و احوال خُوب یبان کیا۔ ہمیں تو بس اتنی ہی بات سمجھ آئی کہ ؎ مِٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے… مُنصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے۔ ’’بساطِ عالم‘‘ میں منور مرزا کی گفتگو کا خلاصہ تھا کہ روس، یوکرین جنگ نے معاشی طور پر ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ ہے ناں کہ ؎ دل کے پھپھولے جل اُٹھے، سینے کے داغ سے… اِس گھر کو آگ لگ گئی، گھر کے چراغ سے۔ ترقی پذیر ممالک، خصوصاً پاکستان پر تو اس جنگ کے بہت ہی منفی اثرات مرتّب ہوئے ہیں۔ منہگائی نے صحیح معنوں میں آسمان چُھو لیا ہے۔ جب کہ ہماری چال تو پہلے ہی خاصی بے ڈھنگی تھی۔ مَرے پہ سو درّے اِس جنگ کے طفیل پڑے۔ منصور اصغر راجا ’’پاک افواج‘‘ کو خراجِ تحسین پیش کر رے تھے۔ امن ہو یا جنگ، سیلاب ہوں یا قدرتی آفات، افواجِ پاکستان کا کردار قابلِ صد ستائش ہے۔ ’’درس و تدریس‘‘ میں شفق رفیع مُلک میں تعلیمی انحطاط اور شرحِ خواندگی کی کمی پر نوحہ کُناں نظر آئیں۔ میرے خیال میں ہمیں اِس وقت روایتی تعلیم کےبجائے فنی و عملی تعلیم کی زیادہ ضرورت ہے، جو جدید ترین تقاضوں سے بھی ہم آہنگ ہو۔ ’’خار زارِ سیاست‘‘ میں محمّد بلال غوری سیاسی اتار چڑھائو کے بیان کے ساتھ پرانے پاکستان کی واپسی کا مژدہ لائے، لیکن؎ وائے ناکامی!متاعِ کارواں جاتا رہا… کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا۔ افسوس، کسی بھی قسم کی تبدیلی کام یابیوں سے ہم کنار ہوتی نظر نہیں آرہی۔ ’’ایوانِ نمائندگان‘‘میں فاروق اقدس سیاسی نمائندوں کی سال بھر کی کار گزاری بیان کررہے تھے۔پوراسال کیا دھینگا مشتی ہوتی رہی، آنکھوں کےسامنے سب مناظر گھوم گئے۔ ’’کلکس‘‘ میں منور راجپوت نے تصویری شکل میں ساری دنیا کے حالات و واقعات سے متعلق سیرحاصل معلومات فراہم کردیں، ازحد شکریہ۔ ہمایوں ظفر نے2022ء میں بچھڑ جانے والوں کی تفصیل کچھ یوں بیان کی کہ ؎ خاک میں کیا صُورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں۔ پھر منوّر راجپوت سندھ، رئوف ظفر پنجاب، امین اللہ فطرت بلوچستان، ارشد عزیز ملک خیبرپختون خوا اور راجا حبیب اللہ آزاد کشمیر کے سیاسی، معاشی و معاشرتی احوال کے ساتھ آئے۔ سال کے آخر میں اس طرح سب صوبوں کے منظرنامے کا بیان ایک عُمدہ کاوش ہے اور میرے خیال میں تو یہ صرف جنگ، سنڈے میگزین ہی کا طرّہِ امتیاز ہے۔ شفق رفیع نے’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘بھی عُمدگی سے مرتب کیا اور اخر میں بات ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی، جو ہمارا پسندیدہ ترین صفحہ ہے۔ سال بھر کی چِٹھیوں کا شان دار انداز میں لیا گیا جائزہ تمام ہی خطوط نگاروں کے دل جیت لیتا ہے۔ بہرحال، شائستہ اظہر اور سلیم راجا کو اعزازِ خاص کرنے پر دلی مبارک باد۔ (جاوید اقبال، بلدیہ کالونی، چشتیاں، بھاول نگر)

ج: اور ہمارے سال نامے کا اس انداز میں مختصر و مدلّل جائزہ لینےپر آپ کا بھی بے حد شکریہ۔  

گوشہ برقی خطوط

*  اگرچہ میں اِن پیج پر لکھنا نہیں جانتی، لیکن آپ کو ای میل کرنا اِس لیے بھی بہت ضروری سمجھا کہ آپ کے 11دسمبر 2022 کے ایڈیشن میں ایک فاش غلطی تھی، جس کی وضاحت بحیثیت مسلمان میری ذمّے داری ہے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ایک قاریہ، نازلی فیصل کا خط شائع ہوا ، جس میں انہوں نے نبی کریم ﷺ کی ایک معروف حدیث کو کہاوت لکھا، حالاں کہ بچّے بچّے کو پتا ہے کہ ’’علم حاصل کرو، خواہ تمہیں چین جانا پڑے‘‘ حدیث ہے، کہاوت نہیں۔ (تبسم خورشید)

ج: اگر آپ ای میل کرنے سے پہلے بذریعہ انٹرنیٹ ہی تھوڑی سی تحقیق کر لیتیں، تو آپ کو باآسانی علم ہو جاتا کہ علمائے کرام، خصوصاً دارالافتاء، جامعۃ العلوم الاسلامیہ نے اِس قول کی سند کو انتہائی ضعیف قرار دیتے ہوئے اِسے نبی کریمﷺ کی طرف نسبت کرنے اور بطور حدیث بیان کرنے کی ممانعت کی ہے۔ حتیٰ کہ کسی بھی فقہ کے تحت اس قول کا حدیث ہونا ثابت نہیں۔

* کیا آپ کسی بزرگ کی کوئی آٹوبائیو گرافی قسط وار شایع نہیں کر سکتیں۔  (امبر کیانی، میاں چُنوں)

ج: بالکل کر سکتے ہیں۔ اگر واقعی قابلِ اشاعت ہو تو۔

* مَیں، جنگ ’’سنڈے میگزین‘‘ میں اپنی شاعری اور مضامین شائع کروانا چاہتا ہوں۔ کیا آپ طریقۂ کار سے متعلق میری رہنمائی کر سکتی ہیں۔ (عمار)

ج: آپ اپنی تحریر اردو اِن پیج میں کمپوز کر کے اِسی ای میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں اور اگر ہاتھ سے لکھ کر بھیجنا چاہیں، تو اِسی صفحے پر موجود ہمارے پوسٹل ایڈریس پر پوسٹ کر دیں، مگر خیال رہے، تحریر ہمارے مندرجات کی مناسبت سے مختصر، جامع ہو۔ ہاتھ سے لکھ کے بھیجیں تو حاشیہ، سطر چھوڑ کر لکھیں اور صفحے کی صرف ایک سائیڈ پر لکھیں۔ بیک سائیڈ خالی چھوڑدیں۔

* میگزین میں کچھ شائع کروانا چاہتی ہوں۔ (ملائکہ نفیس)

ج: تو مہربانی فرما کے بھیج بھی دیں، کیوں کہ ہمارے یہاں گھروں سے جا کے تحریریں اکٹھی کرنے کا تو کوئی نظام وضع نہیں۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk