• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں

انسان جب استحقاق و استثنا کے بھنور میں پھنس جاتا ہے تو اپنی پرستش میں اس طرح محو ہو جاتا ہے کہ خود کو پتھر کا صنم بنا کر عضو معطل بن جاتا ہے، نہ اپنے کام کا نہ دوسروں کے کام کا، لگتا ہے کہ تعلیم و تربیت ناقص ہو تو ہمارے ارد گرد کتنے ہی بت خانے کھڑے ہو جاتے ہیں اور بتوں کی سنگت میں ہم بھی ایک بت ہی بن جاتے ہیں، ایسے میں حقوق و حدود پامال ہوتے ہیں، انسان خود پرست، خود غرض، خود نگر بن کر خود اپنے لئے ہی زندگی کو عذاب بنا دیتا ہے، دور کیا جانا اپنے ہی ملک کی سیاست و ریاست کو دیکھ لیں کہ اس میں حب الوطنی اور جوہرِ ہم وطنی کہاں ہے، منطقی نتیجہ یہ ہے کہ بے لاگ محبت ہے نہ تعلق، خدا پرستی کی جگہ اشیاء پرستی و افراد پرستی نے لے لی، جب بھی کوئی خود شناسی چھوڑ دیتا ہے وہ دوسروں کی تکریم بھلا کر ان پر اپنے نفس کی نجاست پھینکتا ہے اور اگر عزت کرے تو بھی کسی غرض کو پانے کے لئے، ہماری آنکھ کا تو خدا کو بھی اعتبار نہیں ، اس لئے ایمان کو غیب سے جوڑ دیا۔ حرام حلال میں تمیز سے مساوات پیدا ہوتی ہے ورنہ چند لوگوں کے گھر سارے شہر کے دانے اور اکثر دانے دانے کو محتاج۔ دراصل ہمارے پاس کتاب موجود اور عمل مفقود، جب سے دنیا اجلی ہوئی ہے ہم نے بدکرداروں کو پوجنا شروع کردیا ہے، ہم دوسروں سے شروع کرتے ہیں اس لئے خود تک نہیں پہنچ پاتے، بھاگتے گھوڑے کو چابک رسید کرتے ہیں اور کھڑے کا خرخرہ کرتے ہیں، انسان منصف ہے اگر انصاف کرے، اور ظالم ہے اگر انصاف کی کرسی کا حق ادا نہ کرے، اب تو یہی ممکن ہے کہ خود کو بدلیں یا اپنے ملک کا نام بدلیں۔

٭٭٭٭

امتحان نہ لیں

جیل بھرو تحریک کا سنتے ہی یوں لگا کہ گردشِ ایام الٹی ہوگئی اور ہم 1857ء میں پہنچ گئے، کیاپاکستان پر ایسٹ انڈیا کمپنی نے قبضہ کرلیا ہے کہ جیل بھرو تحریک چلانے کی ضرورت پیش آگئی، اس تحریک کے پیچھے اگر عقل کار فرما ہوتی تو یوں اپنی سیاسی ساکھ کو برباد نہ کرتی، جیل میں جانا کوئی لگژری نہیں یہ اپنے کارکنوں کو امتحان میں ڈالنا ہے، بہتر ہوتا کہ دانشمندی سے کام لیا جاتا اور پر امن احتجاج کو اپنے ہی لوگوں کے لئے اذیت ناک نہ بنایا جاتا، پوراملک ہنگامے پر سوار غلط سمت میں روانہ کرنا کون سی حب الوطنی یا ملک سے وفاداری ہے، ملک چلانے کے لئے دھیلا نہیں اور ملک برباد کرنے کی مہم زوروں پر ہے، صورتحال مزید خراب ہوگی اگر نام نہاد تحریک چلتی رہی تو کوئی بڑا عذاب آسکتا ہے، فرد واحد کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وطن عزیز کو دائو پر لگا دے، یہ ملک سے وفاداری نہیں جفا شعاری ہے، اگر ملک ہی کو ملک کے خلاف کھڑا کردیاجائے تو ہمیں دشمنوں کی کیا ضرورت ہے۔ تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز ہوش میں آئیں۔ مملکت خدا داد کو یوں اپنے ہاتھوں انتشار اور تباہی کے حوالے نہ کریں، ایک سیاسی پارٹی پھنسا کر اپنے پیروکاروں کو ان کے خاندانوں سے الگ نہ کرے، یہ سیاست نہیں پاکستانی کو پاکستان کے مقابل لانے کی فرسودہ اور فسطائی کوشش ہے، دشمن ہمارے کمزور لمحوں کو کیش کرانے کی کوشش کر رہا ہے اس لئے ہم ہاتھ جوڑ کر اہل وطن سے درخواست کرتے ہیں کہ مشتری ہوشیار باش!

٭٭٭٭

اپنا گھر بچاؤ

ذرا مڑ کر دیکھیں کہ اللّٰہ نے کتنی قربانیوں کے بعد ہمیں رہنے کو یہ گھر پاکستان عطا فرمایا اور آج ہم کس بیدردی سے اسے توڑنے میں مصروف ہیں، نظام ہستی کو کس قدر بگاڑ دیا گیا ہے کہ؎

کیا یہ ابلیس کی خدائی ہے

نیکیوں سے بھی کچھ بھلا نہ ہوا

آخر کیوں ہم اپنے ہی گھر کی بنیادیں خواہشِ ابلیس پر اکھاڑ رہے ہیں، انسان کو شیطان بنانے کی مہم زوروں پر ہے اور ہمارا گھر خطرے میں، پاکستان کے تمام لیڈرز مہربانی کریں اور دعوت عام دیں کہ ’’ٹالی دےتھلے بہہ کے آکریئے پیار دیاں گلاں۔‘‘ یہ وقت ایک تھالی کے گرد بیٹھ کر کھانے پینے کا ہے، ایک دوسرے سے بوٹی چھیننے کا نہیں، کہیں یہ نہ ہو کہ جن کے پاس کچھ نہیں وہ چھیننے پر اتر آئیں اور پھر یہ ہو کہ سب کچھ ہو خدانخواستہ ہم نہ ہوں، گھر نہ ہو، جس راہ پر قوم چل نکلی ہے یہ تباہی کا راستہ ہے، غصہ، انتقام اور گھر سر پر اٹھا لینے سے سب کچھ ملیامیٹ ہو جائے گا، اتفاق و اتحاد سے ہی مذاکرات کی میز پر مسئلے حل ہو تے ہیں، اس لئے ایسی تباہی کے بعد مل بیٹھنے سے کیا حاصل جب میز کے گرد کوئی بیٹھنے والا ہی نہ ہو۔کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم من حیث القوم گھر بچائو مہم چلائیں، اور مل جل کر وطن عزیز میں اطمینان سے اپنے حصے کا لقمہ کھائیں ورنہ زر، زن، زمین اور اقتدار کی ہوس ہمیں نابود کردے گی۔

٭٭٭٭

پیارا سا اک وطن ہے اور ہم ہیں دوستو

...oپاکستان تحفہ خدا وندی، اب اسے ٹھنڈا کرکے اطمینان و سکون سے کھائیں اور ترقی وخوشحالی سے ہمکنار کریں۔

...oدنیا کے نقشے پر پاکستان پوری دنیا کا امام بنانے کے لئے بنایاگیا تھا ہم نے پوری تندہی سے اسے کشکول بنا دیا۔

...oالحمد للّٰہ کوئی پاکستانی وطن دشمن نہیں، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ’’شد پریشاں خوابِ من از کثرتِ تعبیر ہا‘‘ (میرا خواب کثرت تعبیر سے بکھر گیا)

...oمہنگائی کا علاج یہ ہے کہ اس کے اسباب معلوم کرکے ان کا خاتمہ کیا جائے۔

٭٭٭٭

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین