تحریر: نرجس ملک
ماڈل: زینہ
ملبوسات: منوش برائیڈل
آرائش: ماہ روز بیوٹی پارلر
عکّاسی: ایم۔ کاشف
کوآرڈی نیشن: محمّد کامران
لےآؤٹ: نوید رشید
ایک عورت اور ہزار ہا رنگ و رُوپ…تب ہی تو اِک ہستی پر کیا کیا نہ سُخن سازیاں، قلم طرازیاں، حاشیہ آرائیاں ہوئیں۔ اِک ہستی کی خاطر کیسی کیسی نہ بستیاں بسائی گئیں۔ اقبال کے تین اشعار تو گویا امر ہی ہوگئے ؎ وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ…اِسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں…شرف میں بڑھ کے ثریّا سے مُشتِ خاک اس کی…کہ ہر شرف ہے اسی دُرج کا دُرِمکنوں…مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن…اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرارِ افلاطوں۔ پھر ساغر صدیقی کی غزل کہ ؎ اگر بزمِ ہستی میں عورت نہ ہوتی…خیالوں کی رنگین جنّت نہ ہوتی…ستاروں کے دل کش فسانے نہ ہوتے…بہاروں کی نازک حقیقت نہ ہوتی…جبینوں پہ نورِ مسرّت نہ کِھلتا…نگاہوں میں شانِ مروّت نہ ہوتی…گھٹاؤں کی آمد کو ساون ترستے…فضاؤں میں بہکی بغاوت نہ ہوتی…فقیروں کو عرفانِ ہستی نہ ملتا… عطا زاہدوں کو عبادت نہ ہوتی…مسافر سدا منزلوں پر بھٹکتے…سفینوں کو ساحل کی قربت نہ ہوتی…ہر اِک پھول کا رنگ پھیکا سا رہتا…نسیم بہاراں میں نکہت نہ ہوتی…خدائی کا انصاف خاموش رہتا…سُنا ہے کسی کی شفاعت نہ ہوتی۔ اِسی طرح بشیر بدر کی ’’عورتیں‘‘ میں بھی عورت کے کس کس رُوپ رنگ کا ذکر نہیں۔ ؎ صُبح کا جھرنا، ہمیشہ ہنسنے والی عورتیں…جھٹپٹے کی ندیاں، خاموش گہری عورتیں…معتدل کر دیتی ہیں یہ سرد موسم کا مزاج…برف کے ٹیلوں پہ چڑھتی دھوپ جیسی عورتیں… سڑکوں، بازاروں، مکانوں، دفتروں میں رات دن…لال پیلی، سبز نیلی، جلتی بُجھتی عورتیں…سیکڑوں ایسی دُکانیں ہیں، جہاں مِل جائیں گی…دھات کی، پتّھر کی، شیشے کی، ربڑ کی عورتیں…منجمد ہیں برف میں کچھ آگ کے پیکر ابھی…مقبروں کی چادریں ہیں پھول جیسی عورتیں…اُن کے اندر پک رہا ہے، وقت کا آتش فشاں…جن پہاڑوں کو ڈھکے ہیں برف جیسی عورتیں…سبز سونے کے پہاڑوں پر قطار اندر قطار…سَر سے سَر جوڑے کھڑی ہیں لمبی سیدھی عورتیں…واقعی دونوں بہت مظلوم ہیں نقاد اور…ماں کہے جانے کی حسرت میں سُلگتی عورتیں۔ اور پھر فاضل جمیلی کی ایک غزل کے بھی کیا ہی خوب صورت اشعار ہیں ؎ صُورتوں میں، سَروں میں عورت ہے…سب کے سب منظروں میں عورت ہے…دِل نشیں ہیں جو میر کے نشتر…میر کے نشتروں میں عورت ہے…باغ ہیں وہ بہشت کے سارے…جتنے سارے گھروں میں عورت ہے…میرے دشمن، شکست ہے میری…جا تیرے لشکروں میں عورت ہے…ہم نے بھی اِن بُتوں کی پوجا کی…جب سُنا پتھروں میں عورت ہے…یہ جو آثار ہیں تمدّن کے…دفن ان کھنڈروں میں عورت ہے…جل رہا ہے دیا دُعائوں کا…مقبروں، مندروں میں عورت ہے…رُوح تک جو دوا چلی آئی ہے…کوئی چارہ گروں میں عورت ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے، یہ آج عورت، عورت کی اس قدر تکرار، گردان کیوں…تو بھئی، محض دو روز بعد دنیا بھر میں ’’عالمی یومِ خواتین‘‘ جو منایا جا رہا ہے۔ تو ہم نے سوچا، کچھ اُن بَھلی مانسوں کے لیے، جو سڑکوں، چوکوں، چوراہوں پہ نکل کے آزادیٔ نسواں کے نعرے لگا سکتی ہیں، نہ عورت مارچ، آزادی مارچ کے پرچم بلند کرتی ہیں، مگر اپنی گھر گرہستی بڑی عُمدگی سے چلا رہی ہیں، ایک پوری نسل کو بناسنوار رہی ہیں یا کچھ ضرورتوں، مجبوریوں کے تحت گھروں سے بھی نکل رہی ہیں، تو گھر، ملازمت میں توازن برقرار رکھتے رکھتے خود کو کہیں رکھ کے بھول سی جاتی ہیں۔ آج اُن کے لیے بطورِ خاص کچھ اہتمام کیا جائے۔ وہ کسی نےکہاتھا ناں کہ ’’ایک عورت جب تک اپنے آپ سے پیارنہیں کرتی، اپناخیال نہیں رکھتی،اُس کا بہترین ورژن سامنے نہیں آتا۔‘‘ تو کم از کم آپ کے اپنے دن پر تو آپ کا بیسٹ ورژن، آپ کے اہلِ خانہ یا آپ کی سَکھی سہیلیوں کو ضرور ہی نظرآنا چاہیے۔
تو ذرا دیکھیے، اپنے خاص دن کے لیے، ہمارا خاص الخاص اہتمام۔ جامنی رنگ میں شیفون جارجٹ کے ایمبرائڈرڈ اسٹائلش پیپلم کے ساتھ اسٹریٹ بنارسی ٹرائوزرکمال ہم آمیز ہے، تو فون رنگ کی خُوب صُورت کام دارشرٹ کےساتھ بنارسی ٹرائوزر اور ایپلک سے آراستہ دوپٹّا بھی انتہائی جاذبِ نظر معلوم ہورہا ہے۔ پھر کاسنی رنگ کے ساتھ بنارسی ٹرائوزر اور نیٹ کے دوپٹّے کا جلوہ ہے، تو سفید رنگ کے ایمبرائڈرڈ ٹرائوزر کے ساتھ گہرے سُرخ رنگ کی مشینی کڑھت سے مزیّن شرٹ کی دل آویزی کا بھی جواب نہیں۔ جب کہ ہر پہناوے کے ساتھ حسین جیولری بھی خُوب ہی جچ رہی ہے۔ عورت ہی کے حسیں تصوّر سے کشید کیا ہوامجید امجد کا ایک دل نشیں سا شعر ہے ؎ تُو پریم مندر کی پاک دیوی، تو حُسن کی مملکت کی رانی…حیاتِ انسان کی قسمت پر تری نگاہوں کی حُکم رانی۔ تو بس، اپنی اِس حُکم رانی کی برقراری کے لیے ہمارے انتخاب میں سے جو چاہیں منتخب کرلیں ۔