• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ 2002کی بات ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور سیکرٹری جنرل معراج محمد خان کو ایوان صدر سے دعوت ملی کہ الیکشن کے حوالے سے ملاقات کرنی ہے۔

 پارٹی کے سینئر رہنما حامد خان اس ملاقات کے خلاف تھے خود معراج صاحب کو بھی تحفظات تھے مگر کپتان کا اصرار تھا کہ اس میں کوئی حرج نہیں دیکھتےہیں کیا موڈ ہے مشرف صاحب کا۔ وہ دونوں وہاں پہنچے توصدر کے دائیں اور بائیں چوہدری برادران، کو دیکھ کر وہ حیران رہ گئے اور صدر کے راضی کرنےکے باوجود وہاں سے اٹھ کر آگئے کہ میں ’’چور اور ڈاکو کے ساتھ کیسے بیٹھ سکتا ہوں‘‘۔

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

21 سال بعد ان برادران میں سے زیادہ محترک برادر چوہدری پرویز الٰہی اسی پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی صدر بننے جا رہے ہیں یا یوں کہیں تو زیادہ بہتر ہو گا کہ شاید ایک اور وسیم اکرم پلس تیار ہو گیا ہے گو کہ پارٹی کے اندر اس حوالے سے اختلاف پایا جاتا ہے کہ الیکشن جیتنے کی صورت میں پنجاب کے آئندہ وزیراعلیٰ پرویز الٰہی ہونگے یا کوئی پرانا پارٹی رہنما؟ 2018 میں بھی پارٹی کے اندرگروپنگ کے نتیجہ میں عثمان بزدار، جنہوں نے اس وقت نئی نئی پی ٹی آئی جوائن کی تھی کی لاٹری کھل گئی۔

اب چوہدری صاحب کے پاس تو اس اعلیٰ منصب یا تحت لاہور کا تجربہ بھی ہے۔ مگر 2023 میں خان صاحب بہت مضبوط پوزیشن میں ہیں اور پر اعتماد بھی کہ وہ مرکز، پنجاب اور کے پی میں دو تہائی اکثریت سے کامیاب ہو جائیں گے۔ راجن پور کا نتیجہ ہو یا 10 ماہ میں ہونے والے ضمنی الیکشن ان کے اس دعویٰ میں وزن بھی نظر آتا ہے گو کہ الیکشن کا اپنا مزاج ہوتا ہے اور پنجاب میں برادری سسٹم آج بھی مضبوط ہے۔

عمران خان اور چوہدری پرویز الٰہی کی بہت دلچسپ کہانی جو زرداری ہائوس سے نکل کر ایک فون کال پر بنی گالہ پہنچ گئی اور پھر ایسا مضبوط رشتہ قائم ہوا کہ پرویز الٰہی اور ان کے بیٹے مونس الٰہی نے خاندان کے بڑے چوہدری شجاعت حسین پر عمران خان کو ترجیح دی۔

 اب اس میں کس کا کتنا فیض تھا یہ تو نہیں پتا مگر پہلی بار پرویز الٰہی نے کم ازکم ایک ایسا رسک لیا جس میں انہیں آگے چل کر شاید تھوڑی بہت اینٹی اسٹیبلشمنٹ بات کرنی پڑجائے۔

 2018میں پی ٹی آئی اس پوزیشن میں نہیں تھی کہ کے پی کی طرح مرکز اور پنجاب میں حکومت بنا پائے، یہ مدد بہر حال جنرل باجوہ اور ان کی ٹیم نے مبینہ طور پر انہیں مہیا کی جس کا سلسلہ الیکشن سے پہلے بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی تقسیم سے شروع ہو چکا تھا۔ پنجاب میں یہ کام مسلم لیگ (ق) کے ذریعہ سر انجام پایا اس کے علاوہ ایک جنوبی پنجاب محاذ بھی خسرو بختیار صاحب نے بنایا۔

 وزیراعلیٰ کو نامزد کرنے کی بات آئی تو شاہ محمود قریشی گروپ اور جہانگیر ترین گروپ آمنے سامنے تھے اور لڑائی اس حد تک بڑھ گئی کہ شاہ محمود نے صوبائی اسمبلی میں اپنی شکست کا ذمہ دار ترین کو ٹھہرایا۔

 ان دنوں راقم نے کئی بار چوہدری پرویز الٰہی سے بات کی اور انہوں نے انکشاف کیا کہ ایک دن عمران خان ان کے پاس آئے اور پہلی بار عثمان بزدار کیلئے حمایت مانگی تو میں نے ان سے کہا آپ اکثریتی پارٹی کے ہیں جس کو بھی وزیراعلیٰ بنائیں گے ہماری تائید حاصل ہوگی، بزدار ہمارا برخوردار ہے۔ پھر ان ساڑھے تین سال میں وسیم اکرم پلس وزیراعلیٰ تو تھے مگر پنجاب کے چھ ڈسٹرکٹ چوہدری پرویزالٰہی کے پاس تھے۔

راقم کی معلومات کے مطابق تحریک انصاف کے اندر اب بھی اس حوالے سے شکوک و شہبات پائے جاتے ہیں اور شاید اسی وجہ سے اب تک چوہدری پرویز الٰہی اور عمران خان کے درمیان معاہدہ منظر عام پر نہیں آیا۔ اگر پنجاب میں ضمنی الیکشن 90روز میں ہونے کا اعلان ہوجاتا ہے تو چوہدری پرویزالٰہی کے حصے میں کتنی سیٹیں آئیں گی ان 10 ایم پی ایز کے علاوہ جو پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ہیں۔ ویسے تو خان صاحب نے چند ماہ پہلے پرانے پارٹی رہنمائوں حامد خان اور نجیب ہارون سمیت 10ارکین کی ایک مشاورتی کونسل تشکیل دی تھی جس کا کام یہ تھا کہ وہ آئندہ انتخابات کے حوالے سے امیدواروں کے انتخاب کا طریقہ کاربنائیں۔ اس کونسل نے اپنی رپورٹ بھی بھیج دی ہے۔ دوسری طرف یہ بھی اطلاع ہے کہ پارٹی کے پرانے لوگوں کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے مگر اب لگتا ہے گجرات سمیت چنداضلاع کے پارٹی کے لوگوں کو قربانی دینی پڑے گی۔

ویسے جیل بھرو تحریک سے کپتان کو کچھ حاصل ہوا ہو یا نہیں یہ تو پتا چل ہی جانا چاہئے کہ جیل جانے والے کون ہیں اور سیلفی بنانے والے کون ؟۔ خیبر پختونخوا میں جو کچھ ہوا اس کے بعد تو اگر پھر بھی ٹکٹ سیلفی والوں کو ہی ملتا ہے تو یہ قربانی دینے والوں کی بدقسمتی ہوگی۔

بات لانگ مارچ کی ہو، دھرنے کی یا جیل بھرنے کی اس کے ممکنہ نتائج حاصل ہوئے ہوں یا نہیں مگر اس کا فائدہ عمران اور پی ٹی آئی کو مسلسل ضمنی الیکشن میں ہورہا ہے اور پی ڈی ایم کی حکومت ہویا مسلم لیگ (ن) ، پی پی پی ، اے این پی، جے یو آئی اور ایم کیو ایم کی، سیاست کو ان 10 ماہ کی قیمت تو بہر حال ادا کرنی پڑے گی۔ پی پی پی اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ سندھ میں اب بھی اس کی پوزیشن مستحکم ہے۔ اب خود گجرات کے چوہدریوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ چوہدری شجاعت نے اب بھی آصف زرداری کا دامن مضبوطی سے تھاما ہوا ہے۔ چھوٹے بھائی نے بہرحال اپنا راستہ جدا کرلیا ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کی تقسیم ان چند ماہ میں کچھ اس طرح ہوئی ہے کہ کون کس طرف کھڑا ہے سمجھ نہیں آ رہا۔ اعلیٰ عدلیہ بھی، بادی النظر میں، تقسیم نظر آتی ہے آئین پاکستان تو ویسے بھی ناجانے کب اسے دستک دے رہا ہے۔ ہر مارشل لاء کے بعد وہ دستک دیتا مگر اندر سے کوئی جواب نہ آتا۔ اب تو یہ لگتا ہے یہاں سب کا اپنا سچ ہے اور اپنا اپنا آئین۔

پہلے دن سے یہ بات کی ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک ایک غلط فیصلہ تھانہ ریاست کیلئے درست تھانہ سیاست کیلئے۔ اس کے بعد دوسرا غلط فیصلہ پی ڈی ایم کا حکومت بنانا اور شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانا۔

تیسرا غلط فیصلہ پنجاب میں حمزہ شہباز کا تجربہ، پھر چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف پہلے عدم اعتماد پھر اعتماد کا ووٹ۔ اس تمام عرصہ میں عمران خان اپنےووٹر اور سپوٹر کے ساتھ منسلک نظر آتا ہے۔ بقول ہمارے دوست مشاہد حسین ،غلطی کرنی ہے تو نئی غلطیاں کریں پرانی غلطیاں کیوں دہراتے ہیں۔ زرداری چوہدری ملاپ کے بعد عمران چوہدری ملاپ مبارک ہو۔ سب کو۔

تازہ ترین