• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک زمانہ تھا جب میں ملک سے ہجرت کرجانے والوں کو نا شکرا بلکہ احمق سمجھا کرتا تھا، میرا خیال تھا کہ جو لوگ پاکستان میں ذرہ برابر بھی خوشحال ہیں اور باہر جا کر ’کھجل‘ ہوتے ہیں وہ حماقت کے مرتکب ہوتے ہیں کیونکہ جو عیاشیاں ہمارے ملک میں میسر ہیں اُس کا عشر عشیر بھی باہر نہیں ملتا۔یہ اُس زمانے کی سوچ ہے جب پاکستان میں دہشت گردی کا عفریت نہیں آیا تھا، ملک میں امن و امان تھا، ابھی ہمارے اسکولوں اور کالجوں کے گرد خاردار تاریں نہیں لگائی گئی تھیں ، روپیہ اتنا ذلیل نہیں ہوا تھا،ہم اپنے ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں قدرے بہتر تھے، ہندوستان سے آنے والے ہمارے عیش و عشرت کو رشک بھری نگاہ سے دیکھتے تھے، بمبئی میں ہماری فلموں اور گانوں کی نقالی کی جاتی تھی، ہماری موسیقی کا ڈنکا چار دانگ عالم میں بجتا تھا،ہماری سڑکوں پر کوئی غریب یا بے گھر شخص نظر نہیں آتا تھا، سرکاری درسگاہوں سے فارغ التحصیل ہونے والے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتے تھے،کراچی کی شان و شوکت دبئی سے کہیں زیادہ تھی،پی ٹی وی اور پی آئی اے جیسے ادارے اپنے جوبن پر تھے،معاشرے میں بد عنوانی سرایت نہیں کی تھی، لوگوں کا رویہ عمومی طور پر سیکولر تھا، غیر ملکی سیاح بغیر کسی ڈر خوف کے سندھ سے بلوچستان تک گھوما پھرا کرتے تھے ،ہمارے پاسپورٹ پر امریکہ اور یورپ کا ویزہ با آسانی لگ جاتا تھا، بس یوں سمجھیں کہ باقی دنیا کی طرح ہم بھی ایک نارمل ملک تھے۔اِن حالات میں ملک چھوڑ کر جانے والوں کو احمق ہی سمجھناچاہئے تھا ۔

پھرآہستہ آہستہ حالات تبدیل ہوئے، معاشرے پر زوال آنا شروع ہوا اور ہم بتدریج پستی کا شکار ہوتے چلے گئے۔جس دن 12 اکتوبر 1999 ہوااُس روز میرے خیالات میں ایک جوہری تبدیلی آئی ،میں نے سوچا کہ جو لوگ ملک چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں انہیں طعنے دینا مناسب نہیں ، جو چلاجائے اُس کا بھی بھلا اور جو نہ جائے اُس کی بھی خیر۔میں نے تارکین وطن کو احمق اور نا شکرا کہنا چھوڑ دیا ۔اِس کے بعد بھی ملک کے حالات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ، اِس دوران کچھ عرصے کے لئے ایسا لگاکہ ملک درست سمت میں چل پڑا ہے مگریہ غلط فہمی بھی جلد ہی دور ہوگئی کیونکہ بنیادی مسئلہ حل کئےبغیر بہتری کی امید رکھنا حماقت ہی تھی۔آج یہ حال ہے کہ اگر کوئی نوجوان مجھ سے اپنے مستقبل کے بارے میں مشورہ مانگتا ہے تو میں اسے صرف ایک مشورہ دیتا ہوں اور وہ یہ کہ کسی مغربی ملک کی شہریت حاصل کرکے وہاں سیٹل ہو جاؤ۔گویا جس بات کو میں پینتیس چالیس سال پہلےمکروہ سمجھتا تھا ،12اکتوبر کے بعدوہ میرے نزدیک مباح ہوئی اور اب مباح سے فرض بن چکی ہے۔ اصولاً مجھے کسی شخص کو ایسا مشورہ نہیں دینا چاہئے ،مایوس کُن باتیں مزید ناامیدی کا باعث بنتی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ جو شخص اپنے مستقبل کے بارے میں مشورہ مانگتا ہے ،کیا اسے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق بہترین مشورہ نہیں دینا چاہئے ،اور باہر سیٹل ہونے سے بہتر مشورہ بھلا کیا ہوسکتا ہے !

ایک عام آدمی کے لئے اِس ملک میں رہنا کس قدر اذیت ناک ہوگیا ہے اِس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر سال سینکڑوں پاکستانی اپنی جان پر کھیل کر یورپ میں نقل مکانی کی کوشش کرتے ہیں ۔ ابھی دو روز قبل اٹلی کے قریب سرحد پار کرنے کی کوشش میں سو افراد کشتی میں ڈوب کر ہلاک ہوگئے۔بی بی سی نےاِس سفر کی جو رپورٹ شائع کی ہے وہ دل دہلا دینے والی ہے، یہ سفر کرنے والے ایک شخص کے الفاظ تھے کہ’ ’پاکستان میں بے شک کوڑے سے کھانا تلاش کرلیں مگر یہ سفر نہ کریں۔‘ ‘لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوگا،لوگ نقل مکانی کی کوشش جاری رکھیں گے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں اِس ملک میں عزت سے جینے کی امید نہیں ۔ایک عجیب بات البتہ یہ ہے کہ پاکستان سے غیر قانونی طور پر یورپ کا سفر کرنے والے ایران اور ترکی جیسے مسلمان ممالک سے گزر کر جاتے ہیں مگر کوئی بھی اِن مسلم ممالک میں رہنا پسند نہیں کرتا۔ کیوں ؟ اِس کیوں کا جواب ایک دودھ پیتا بچہ بھی جانتا ہے ۔ہم لاکھ کافروں کو گالیاں دیں ،اُن کے نظام کو برا بھلا کہیں ، انہیں بے حیائی اور عریانی کے طعنے دیں یا اُن کی اخلاقی اقدار کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے نفرت سے ناک سکیڑ لیں، اپنے دل میں ہم جانتے ہیں کہ جان ،مال اور عزت کا تحفظ اگر کہیں مل سکتا ہے تو کفار کے اِن ممالک میں ہی مل سکتا ہے ۔اب ایک لطیفہ بھی سُن لیں۔ کافی عرصہ پہلے برطانیہ میں بسنے والے ایک پاکستانی مسلمان نے کالم نگاروں کو ایک خط لکھا جس میں موصوف نے اِس بات پر ماتم کیا کہ یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا مگر افسوس کہ یہاں اسلامی نظام نافذ نہ ہوسکالہٰذا بہت سال انتظار کرنے کے بعد میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوگیا اور اب برطانیہ میں سیٹل ہوں۔ بندہ پوچھے کہ پاکستان میں تو اسلامی نظام نافذ نہیں ہوسکا، ٹھیک ہے ،مگربرطانیہ میں کون سی شریعت نافذ تھی جو تم نے وہاں کی شہریت حاصل کی، اگر ہجرت ہی کرنی تھی تو سعودی عرب ، افغانستان یا ایران جا کر سیٹل کیوں نہیں ہوئے، لندن جیسے ننگے پُنگے شہر میں آپ کے بچے کیسے پرورش پائیں گے! حاشا و کلا میرا مقصدطعنہ زنی نہیں ، یہ وہ مسئلہ ہے جس کا دیارِ غیر میں مقیم پاکستانیوں کوسامنا ہے اور اِس سے مفر ممکن نہیں ،بہت سے لوگ کئی دہائیاں باہر گزارنے اورکینیڈا کی مستقل شہریت حاصل کرنے کے بعد بوریا بستر سمیٹ کر پاکستان واپس اِس لئے آجاتے ہیں کہ وہ اپنی تیرہ سال کی بچی کو اُس مغربی طرز زندگی کا عادی نہیں بنانا چاہتے جہاں اسکول میں پوچھا جاتا ہے کہ آج کل تمہارا بوائے فرینڈ کون ہے ۔بہر کیف، باہر سیٹل ہونے کی یہ قیمت ہے جو چکانی پڑتی ہے ، لہٰذا جو لوگ اپنا ملک چھوڑ کر وہاں جا کر بسنا چاہتے ہیں ،وہ اِن حالات میں درست فیصلہ ہی کرتے ہیں ۔اور رہی اپنی بات تو ہم ملک چھوڑنا بھی چاہیں تو نہیں چھوڑ سکتے،ہم یہیں پیدا ہوئے اور ایک دن اسی مٹی میں سو جائیں گے ، لاہور نے اتنے لوگ اپنے دامن میں سمیٹے ہیں ،ہمیں بھی اِس شہر کے دامن میں جگہ مل ہی جائے گی۔

تازہ ترین