موجودہ حکومت کے وزیروں اور مشیروں کی بڑی تعدادکو اکثر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا اور یہ معاملہ میڈیا پر زیر بحث رہتا تھا۔ ناقدین کا موقف تھا کہ پاکستان کی تباہ حال معیشت ایک بڑی کابینہ اور مشیروں کا بوجھ اٹھانے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ ایسی صورتحال میں گزشتہ دنوں وزیراعظم شہباز شریف کی حکومتی سطح پر سادگی اور کفایت شعاری مہم کے اعلان نے حکومت پر تنقید کے دروازے بند کردیئے ،جس کے تحت تمام وفاقی وزراء، مشیروں، وزرائے مملکت اور معاون خصوصی نے اپنی تنخواہیں، مراعات نہ لینے اور یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگی اپنی جیب سے کرنے کا اعلان کیا ہے۔ حکومتی مہم کے تحت وزراء اور سرکاری افسران کے زیر استعمال لگژری گاڑیوں اور پروٹوکول میں نمایاں کمی کی جائے گی جبکہ ان کے غیر ضروری غیر ملکی دوروں پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے اور وہ اندرون و بیرون ملک اکانومی کلاس میں سفر کریں گے جبکہ بیرون ملک دوروں میں وہ فائیو اسٹار ہوٹلوں میں ٹھہرنے کے مجاز نہیں ہوں گے۔ اسی طرح کابینہ اور اعلیٰ عہدیداروں کو ملنے والے تحائف توشہ خانہ میں جمع کرائے جائیں گے اور توشہ خانہ سے 300 ڈالر مالیت تک کا تحفہ خریدنے کی اجازت ہوگی۔
وزیراعظم کفایت شعاری مہم کے تحت تمام وفاقی وزارتوں، ماتحت دفاتر، ڈویژنز اور متعلقہ محکموں کے اخراجات میں 15فیصد کٹوتی کی جائے گی جبکہ سرکاری ملازمین اور حکومتی اہلکار ایک سے زائد پلاٹ کے مستحق نہیں ہوں گے۔ اسی طرح سرکاری دفاتر کے اوقات کار صبح ساڑھے سات بجے شروع ہوں گے اور وہاں مہمانوں کو صرف چائے پیش کی جاسکے گی جبکہ سرکاری تقریبات میں ون ڈش کی پابندی ہوگی۔ واضح رہے کہ شہباز شریف جب پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے، تب بھی انہوں نے سرکاری تقریبات میں ون ڈش کی پابندی عائد کر رکھی تھی جو آج بھی جاری ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ فوری طور پر نافذ العمل کفایت شعاری اقدامات سے صرف وفاقی اداروں میں 200ارب روپے سالانہ کی بچت ہوگی جبکہ صوبائی حکومتوں کی بچت علیحدہ ہے۔ اس کے علاوہ وزیراعظم کفایت شعاری کمیٹی نے یہ سفارش بھی پیش کی ہے کہ بیرون ملک پاکستانی سفارتکاروں کی تعداد اور سفارتخانوں کے اخراجات میں 15فیصد کمی کی جائے۔
کفایت شعاری مہم کا اعلان ایک اچھا فیصلہ ہے بشرطیکہ اس پرعملدرآمد کیا جائے۔ ماضی میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ اس طرح کے اقدامات کا اعلان تو ہوجاتا ہے مگر ان پر عملدرآمد میں مشکلات پیش آتی ہیں جس کی واضح مثال دو ماہ قبل وفاقی حکومت کا توانائی بچت پلان تھا جس کے تحت ملک بھر میں مارکیٹیں ساڑھے آٹھ بجے اور شادی ہال ساڑھے دس بجے بند کرنے کا اعلان کیا گیا تھا جس سےبجلی کی 30 فیصد بچت متوقع تھی مگر افسوس کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں اب تک اس پر عملدرآمد دیکھنے میں نہیں آیا اور مارکیٹیں، ریسٹورنٹس اور شادی ہال رات گئےتک کھلے رہتے ہیں۔ گوکہ کمشنر کراچی اقبال میمن حکومتی اعلان پر عملدرآمد کیلئے کافی سرگرم عمل نظر آتے ہیں مگر کاروباری افراد حکومت سے تعاون پر آمادہ نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ توانائی بچت پلان پر سختی سے عملدرآمد کروایا جائے اور فیصلے پر عمل نہ کرنے والوں کی بجلی منقطع کردی جائے۔ملک میں معاشی بحران کے مدنظر وزیراعظم شہباز شریف کے کفایت شعاری اقدامات قابل ستائش اور اچھی پیشرفت ہے جسے عوامی سطح پر بھی سراہا گیا ہے۔ عوام ہمیشہ ان اقدامات کو سراہتے ہیں جبکہ ان کے منتخب نمائندے بھی ان پر عمل کریں جس کی عملی مثال وزیراعظم شہباز شریف کا اپنے عہدے کی تنخواہ نہ لینا، وزیراعظم ہائوس کے کچن اور بیرونی دوروں کے اخراجات خود برداشت کرنا ہے۔ شہباز شریف جب پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے، تب بھی وہ کفایت شعاری پر عمل کرتے تھے اور اپنے اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتے تھے مگر پی ٹی آئی والے اسکے باوجود ان پر تنقید کرتے رہے۔
وزیراعظم کفایت شعاری مہم ایک مثبت اور قابل تحسین قدم ہے جس پر وزیراعظم مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعظم کفایت شعاری مہم محض اعلان تک ہی محدود نہ ہو۔ساتھ ہی کفایت شعاری کے حوالے سے کئے گئے اقدامات کا دائرہ کار مزید بڑھایا جائے جس پر صدر مملکت، عدلیہ اور دیگر اداروں کو بھی عملدرآمد کرنا چاہئے جس سے نہ صرف اربوں روپے کی بچت ہوگی بلکہ وی آئی پی کلچر کی بھی حوصلہ شکنی ہوگی جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔