• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک انصاف کو ایک بار پھر اپنے قائد عمران خان کی غلط حکمت عملی اور جھوٹے دعووں کی وجہ سے دنیا بھر میں شرمندگی اور ہزیمت کا سامنا ہے- اب تک عمران خان کی جانب سے چلائی جانے والی تحریکوں یا احتجاجی مظاہروں میں "جیل بھرو تحریک" ناکام ترین کال ثابت ہوئی -- رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے نکال دی کہ پارٹی کارکنوں اور راہنماؤں کی صفوں میں پھیلی بے چینی اور اضطراب کو پوشیدہ نہ رہنے دیا --

"جیل بھرو تحریک" جو سیاسی پتے بازی میں عمران خان کے ہاتھ میں آخری "یکہ" قرار دیا جا رہا تھا، کھلنے سے پہلے ہی بازی پلٹ گئی اور پارٹی راہنماؤں کی غیرسیاسی راہنمائی کے نتیجے میں کمزور تحریک کا شیرازہ بکھر گیا اورکارکنوں نے اپنے قائد کے "وژن" کو آگے بڑھانے کی بجائے گرفتاریوں سے بچنے کے لئے فرار کا رستہ اختیار کرنے میں ہی عافیت جانی۔ ادھر پنجاب اور خیبرپختون خوا حکومتوں کی انتظامیہ نے تحریک انصاف کی سیاسی کمزوریوں اور بکھرے ہوئے شیرازے کا فائدہ اٹھایا اور گرفتاریوں کے لئے جمع ہونے والے چند سو راہنماؤں اور مظاہرین کو نقص امن کے تحت گرفتار کرنے کا فیصلہ کر لیا اور انہیں پنجاب کی مختلف جیلوں میں منتقل کر دیا - اب تک کی اطلاعات کے مطابق شاہ محمود قریشی اٹک جیل دیا گیا جبکہ اعجاز چوہدری،اسد عمر اور اعظم سواتی کو نقص امن کے تحت گرفتار کر کے پہلے لاہور جیل اور پھر اعظم سواتی کو رحیم یار خان، ولید اقبال کو لیہ، عمر سرفراز چیمہ کو بھکر اور مراد راس کو ڈیرا غازی خان منتقل کر دیا گیا۔ یہ تمام راہنما لاہور سے گرفتار ہوئے جبکہ خیبر پختون خوا جو تحریک انصاف کا مرکز تصور کیا جاتا تھا، کسی قابل ذکر شخصیت کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی اور نہ ہی کسی راہنما نے خود کو گرفتاری کے لئے پیش کیا۔ البتہ راولپنڈی سےعلامتی طور پر فیض الحسن چوہان نے اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ گرفتاری دی لیکن انہیں مندرا کے قریب پولیس وین سے اتار دیا گیا۔ شیخ رشید بھی گرفتاریاں دینے والوں کو "الوداع" کہنے کے لئے موقع پر پہنچے لیکن گرفتاری پیش کئے بغیر لوٹ گئے۔

برسراقتدار حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت ہوا کا رخ دیکھ کر عمران خان کی گرفتاری کا فیصلہ کرے گی ۔ کہتے ہیں مچ جیل میں تیاریاں ہو رہی ہیں۔ ادھر سیاسی ہیرو بننے کی خواہش لے کر گرفتار ہونے والے "راہنما" گرفتاری کے پہلے روز ہی سنگین بیماریوں میں مبتلا ہونے کے بہانے رہائی کی درخواستیں دیتے دکھائی دئیے، بعض کے خاندان کے افراد ان کی گمشدگی اور بازیابی کی درخواستیں لے کر تھانے پہنچ گئے اور مؤقف اختیار کیا کہ انہوں نے علامتی گرفتاریاں دی تھیں، انہیں رہائی دیں اور بعض نے عدالتوں کے دروازوں پر دستک دینے کا فیصلہ کر لیا۔

ادھر "کاونٹر حکمت عملی" اپناتے ہوئے پولیس نے لاو ڈسپیکرز کے ذریعے گرفتاریاں دینے کے خواہشمند راہنماؤں اور کارکنوں کے لئے اعلانات کئے کہ جو لوگ گرفتار ہونا چاہتے ہیں ان کے لئے پولیس کی گاڑیاں موجود ہیں وہ ان میں بیٹھ جائیں لیکن ان گاڑیوں کو بغیر کسی "سواری" کے واپس لوٹنا پڑا ۔کہاں گئے عمران خان کےلئے جان دینے والے۔کیا ہوئے وہ لوگ جو یہ دعوے کرتے تھے کہ عمران خان تک پہنچنے کے لئے ان کی لاشوں سے گزرنا ہوگا۔بلکہ اس قسم کے کھوکھلے دعوے کرنے والوں نے اس بار عمران خان کے لئے جیل تک کے تمام راستے ہموار کر دئیے ہیں۔

ناقدین "جیل بھرو تحریک "کی ناکامی کو صرف پارٹی کی ہی نہیں بلکہ عمران خان کی سیاست، سیاسی وژن اورمستقبل کو ہی تاریک قرار دے رہے ہیں ۔ان حالات میں عمران خان کے اتحادیوں کا کیا کردار ہو گا، اس کا اندازہ خود تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کو بھی ہو چکا ہو گا کیونکہ صرف اقتدار کے حصول کے بنیادی مقصد کے لئے ساتھ کھڑے ہونے والے عمران کو بچانے کے لئے اپنا سیاسی مستقبل داوٴ پر لگانے کے لئے تیار نہیں ہیں اور تحریک انصاف کے لئے یہی وقت تھا جب پارٹی قیادت کو یہ ثابت کرنا تھا کہ یہی وہ پارٹی ہے جو ملک کو تاریکیوں سے نکال کر روشن مستقبل دینے کی اہلیت رکھتی ہے۔۔ لیکن عوام ایک بار پھر مایوس ہوئے۔

تازہ ترین