السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
مختصر ترین تبصرہ
دل کو چُھو لینے والے جادوئی قلم کار، عرفان جاوید کی ایک وضاحت نظر گزری، ذاتی طور پر بہت ندامت محسوس ہوئی، ایسا لگا، جیسے ہم سے کوئی جرم سرزد ہوگیا ہو۔ اِس ان مول رائٹر پر اعتراضات باعثِ صد افسوس ہیں۔ عجائب خانہ، دروازے، سُرخاب اور آدمی جیسے لازوال سلسلوں کے خالق پر بے جا اعتراضات نے اُنہیں ہی نے ہمیں بھی دُکھی کیا۔ اگر کوئی قلم کار پُوری نیک نیّتی اور اُجلی ذہنیت کے ساتھ اصلاحی پہلو کو مدّنظر رکھتے ہوئے معاشرے کے جیتے جاگتے کرداروں کو پیش کرتا ہے، تو بھلا اِس میں کیا قباحت ہے۔ کوئی اور مُلک ہوتا تو اِن بےمثال کرداروں پر فلمیں، ڈرامے بنتے، جب کہ ہمارے یہاں کے نام نہاد ناقدین، اپنے قد سے بڑی بات کرنے ہی کو دانش مندی سمجھتے ہیں۔ بات یہ ہے نرجس بٹیا!جس کو ادب سے عقیدت و محبّت ہو تو پھر اُسے اُس سے وابستہ لوگوں سے بھی عقیدت و چاہت ہوجاتی ہے، تو عرفان کی ہتک پر میرا دل بھی لامحالہ دُکھا۔
چلتے چلتے مختصر ترین تبصرہ بحوالہ شمارہ11ستمبر کہ ’’سقوطِ ڈھاکا‘‘ کے تناظر میں اسلام آباد کے محبوب حیدر سحاب کی نظم ’’ڈھاکا کے سفینوں کو…‘‘ نے بےحد متاثر کیا۔ کیا خُوب صُورت انداز اختیار کرتے ہوئے اپنی ’’جانِ جاناں‘‘ کی جدائی کو سقوط ڈھاکا کے الم ناک و کرب ناک سانچے میں ڈھالا۔ اگر یہ نظم ’’سال نامے‘‘ میں شامل کردیتیں، تو کیاہی اچھا ہوتا۔ ’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کے تینوں واقعات بہت ہی زبردست اور متاثرکُن تھے۔ طالب علموں کے حوالے سے کراچی کے حالیہ دو افسوس ناک واقعات نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
یہ نوعمر، ہونہار، مستقبل کے معمار، ماں، باپ کے جگر پارے، اُن کی امنگوں کے گلزار، درندہ صفتوں نے جیسے خاک و خُون میں نہلائے، دل سے اشعار کی صُورت ایک نوحہ نکلا۔ ’’عوام مزاحمت نہ کریں…‘‘ آپ کہیں تو بھیج دوں، نوک پلک آپ خُود سنوار لیجیے گا اور ہاں، آپ آج کل ’’اسٹائل‘‘ کی تحریروں میں نظر آرہی ہیں، تب ہی تو بزم اس قدر حسین و دل کش معلوم ہوتی ہے۔ حیرت ہے، اتنی مصروفیت کے باوجود اپنے کام میں کیوں اضافہ کررہی ہیں، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آپ کی تحریر ان صفحات میں جان ڈال دیتی ہے۔ (ہومیو ڈاکٹر ایم شمیم نوید، گلشنِ اقبال، کراچی)
ج: ہماری تو مجبوری ٹھہری۔ اسٹاف میں کوئی ایسی خاتون رُکن نہیں، جو ’’اسٹائل‘‘ پر قلم آرائی کر سکے، لیکن آپ کے پاس لگتا ہے، اِن دِنوں ہمیں خط لکھنے کےسواکوئی مصروفیت نہیں۔ آپ صرف عرفان جاوید کے اوپر اگر پانچ صفحات کا خط لکھ سکتے ہیں، تو پورے جریدے پر تبصرہ100صفحات پر مشتمل ہونا ہی چاہیے۔ زیر نظر خط آپ کے چار خطوط کا ملغوبہ ہے اور لگ بھگ80 فی صد ایڈٹ کیا گیا ہے۔ تب بھی آپ کا یہ ’’مختصر ترین‘‘ ہمارے کئی ’’طویل ترین‘‘ کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔
ایک دو مضامین مزید…
نرجس، کیسی ہو؟ مانا کہ تم سے ہم کلامی زیادہ پُرانی نہیں، مگر چند دِنوں کی یاد اللہ میں یوں لگا، جیسے جنم جنم کی قربت ہے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر تمہاری خُوب صُورت تحریریں، ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے پیارے جوابات نہ جانے کتنے حالات کے ماروں کے چہروں پر مُسکراہٹیں بکھیر دیتےہیں۔ شہر کراچی میں آئے دن کی لوٹ مار نے سب کو ذہنی مریض بناکے رکھ دیا ہے، ایسے میں گورنر سندھ کا انٹرویو ہوا کہ تازہ جھونکا ثابت ہوا۔ موصوف کے تعلق سے کئی غلط فہمیاں دُور ہوئیں۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں حضرت عُمرؓ اور صحابہؓ کے ہجرت کے واقعات جس خُوب صُورت انداز سے قلم بند کیے گئے، اپنی مثال آپ ہیں۔ مکّہ مکرمہ کے تفصیلی تعارف کے بعد مدینہ منوّرہ سے متعلق جس عرق ریزی کے ساتھ تاریخ کے اوراق کو کھنگالا جارہا ہے، ایک بار پھردل زیارت کی تمنّا کو بےقرار ہوگیا ہے۔
خُوب صُورت جملوں کے سمندر سے اُبھرتی ہوئی بے قابو موجوں نے مَن اندر جوار بھاٹا سا کردیا ہے۔ نہ جانے کتنے عاشقانِ رسول ﷺ ہوں گے جو مضامین کے اس حسین سلسلے کو پڑھ کر بیت اللہ اور دیار نبیﷺ کی زیارت کے لیے بےتاب ہوگئے ہوں گے۔ ابھی تو مدینہ کا سفر شروع ہوا ہے، تم سے التجا ہے کہ اس سفر کو مختصر نہ کرنا۔ اس مرتبہ25 دسمبر اتوار کو پڑا، لیکن اس حوالے سے میگزین میں تشنگی سی محسوس ہوئی۔ رائو محمّد شاہد اقبال کی تحریر کے علاوہ بھی بابائے قوم پر ایک دو مضامین مزید ہونے چاہیے تھے۔ دعا ہے کہ ہماری آنکھوں کا تارا، پیارا میگزین اپنی مدیرہ کی آغوش میں بس ہنستا مُسکراتا رہے۔ (شاہدہ تبسم، کراچی)
ج: براہ مہربانی آئندہ خط حاشیہ، سطر چھوڑ کے لکھیں۔ یہ جو کاغذ کے نام پر ایک چیتھڑا سا آپ نے بھیجا، اِس پر کوما، فُل اسٹاپ تک لگانا محال ہے، کُجا کہ ایڈیٹنگ کی جاتی۔ قائدِاعظمؒ کے یومِ ولادت سے متعلق آپ کی شکایت اس لیے درست نہیں کی کہ ہم بارہا وضاحت کرچُکے ہیں کہ سنڈے میگزین ‘‘جنگ اخبار‘‘ سے علیحدہ کوئی شے ہرگز نہیں، تو جب25 دسمبر کی اشاعت میں براڈ شیٹ پر قائد سے متعلق کئی مضامین شامل تھے، تو سنڈے میگزین میں اُن ہی باتوں کی تکرار قطعاً درست معلوم نہ ہوتی۔
کارواں چلتا رہے
’’سنڈے میگزین‘‘ ایک منفرد اور قابلِ اعتماد رسالہ ہے، جس نے پُورے ملک میں اپنی علمی، ادبی دھاک بٹھا رکھی ہے۔ پچھلے کئی برسوں سے اس کا باقاعدہ قاری ہونے پر مجھے بےحد فخر ہے۔ دُعا ہے کہ یہ کارواں یوں ہی چلتا، آگے بڑھتا رہے۔ (شری مُرلی چند جی، گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور)
ڈاکٹر عافیہ کا تذکرہ؟
اُمید ہے، آپ اور آپ کی ٹیم بخیریت ہوگی۔ سال نامے میں آپ کا تحریر کردہ ’’حرفِ آغاز‘‘ پڑھا۔ آپ نے بہت ہی اچھا تحریر کیا، لیکن جہاں آپ نے سالِ گزشتہ کے واقعات کا تذکرہ کیا، اگر ڈاکٹر عافیہ کے حوالے سے بھی کچھ لکھ دیتیں، تو خُوشی ہوتی۔ نعیم کھوکھر نے ’’اُمّتِ مسلمہ‘‘ کا بہترین تجزیہ کیا۔ ’’پاک افواج‘‘ پر منصور اصغر راجا کا تبصرہ بھی عُمدہ تھا۔ ’’بساطِ عالم‘‘ میں منور مرزا موجود تھے اور ہمیشہ کی طرح لاجواب تجزیہ پیش کیا۔ ’’عدالتِ عظمٰی‘‘ پر محمّد اویس یوسف زئی کی رپورٹ ہر سال ہی باکمال ہوتی ہے اور ’’خار زارِ سیاست‘‘ میں محمّد بلال غوری کی تحریر تو اَن مول تھی۔ ’’کلکس‘‘ دیکھ کر ایک نظر میں پورا سال2022 ء ذہن میں گھوم گیا۔ ’’ایوانِ نمائندگان‘‘ کی بھی خُوب منظرکشی کی گئی۔ پھر چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر کا احوال بھی ایک ایک صفحے میں سمونا کوئی آسان کام نہ تھا۔ ’’درس و تدریس‘‘ کا احاطہ شفق رفیع نے کیا اور ’’جو ہم میں نہ رہے‘‘ میں محمّد ہمایوں ظفر نے اُن لوگوں کا ذکر کیا، جو 2022ء میں دنیا سے گزر گئے۔ مجموعی طور پر سال نامے کا پارٹ وَن لاجواب تھا۔ (سید زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)
ج: سال نامے میں تو سالِ رفتہ ہی کے حالات و واقعات پر فوکس رکھا گیا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر ہم الگ سے ایک رپورٹ مرتّب کرواتے ہیں، ان شاء اللہ۔
رواں دواں تبصرہ
2022ء کے آخری جریدے کے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی کی مدینہ منوّرہ سے متعلق تحریر پڑھی، جتنی بھی تعریف کی جائے، کم ہے۔ پڑھ کر ذہن و قلب سرشار ہوجاتے ہیں۔ سرِورق سے متعلق آپ کی تحریر نے ’’اسٹائل‘‘ کو چار چاند لگا دیئے۔ منور مرزا کی ’’حالات و واقعات‘‘ میں موجودگی دل خُوش کردیتی ہےکہ بہت ہی رواں دواں تبصرہ ہوتا ہے۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ڈاکٹر احمد حسن رانجھاکا’’دہلی نامہ‘‘ پڑھ کر ایسا محسوس ہورہا ہےکہ جیسے ہم بھی رانجھا صاحب کے ساتھ سفر میں ہیں، علمی و ادبی لوگوں کے سفر ناموں کا یہی کمال ہوتا ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں افسانہ ’’تیاری‘‘ کے علاوہ بھی اچھی تحریریں پڑھنے کو ملیں۔ ’’گوشۂ برقی خطوط‘‘ میں سیّد افتخار حسن نے املا کی غلطیوں کی نشان دہی کی اور سو فی صد درست کی۔ (رونق افرو ز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
شان دار جریدہ
کیا ہی شان دار تجزیہ کیا گیا کہ ؎ جھیلا ہے میں نے365 دِنوں کا سال… چاہو تو پچھلے12 مہینوں سے پوچھ لو۔ لاجواب، بےمثال۔ ’’اُمتِ مسلمہ‘‘ پر بہت معلوماتی رپورٹ تیار کی، نعیم کھوکھر نے۔ ’’پاک افواج‘‘ سے متعلق منصور اصغر راجا کا تجزیہ کمال تھا۔ پھر محمّد اویس یوسف زئی، محمّد بلال غوری، فاروق اقدس، منور مرزا، منور راجپوت، رئوف ظفر، امین اللہ فطرت، ارشد عزیز ملک، راجا حبیب اللہ اور شفق رفیع سب ہی نے ایک ایک صفحے کے مضمون میں سال بھر کے اہم حالات و واقعات کو سمونے کی بہترین سعی کی۔ ایسا شان دار جریدہ تیار کرنے پر تہہ دل سے مبارک باد قبول کیجیے۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، ضلع کوٹ ادّو)
نقاب اُتار پھینکے
ڈیئر نرجس، کیسی ہو، اُمید ہے خیریت سے ہوگی۔ سالِ نو ایڈیشن کے ’’حرفِ آغاز‘‘ میں تمہاری تحریر کیا تھی، گویا سمندر کو کُوزے میں بند کردیا۔ اتنی جامع، مدلّل اور حقائق سے بھرپور تحریر پڑھ کر چند لمحوں میں پورا سال نگاہوں میں گھوم کے رہ گیا۔ دنیا نے سال گزشتہ میں کیا کیا تماشے دیکھے، کیسے کیسے رنگ بدلے گئے۔ مُلکِ عزیز پر ہر ایک نے کیا کیا ستم ڈھائے، تم نے تو سب کے چہروں کےنقاب ہی اُتار پھینکے۔ اللہ کرے کہ سالِ رواں خوشیوں کا پیام بَر ثابت ہو۔ اتنے گمبھیر حالات اور معاشی ظلم و استبداد کے باوجود تم لوگوں نے جس قدر محنت اور محبّت سے سنڈے میگزین کی آرائش کی، بخدا قابلِ صد تحسین ہے۔ میری طرف سے تم کو اور تمہاری پوری ٹیم کو دلی مبارک باد۔ محمّد ہمایوں ظفر نے بچھڑے ہوئے لوگوں سے متعلق اچھا رائٹ اَپ تیار کیا۔ شفق رفیع نے ’’ایک پیغام، اپنے پیاروں کے نام‘‘ بھی بہت اچھے انداز سےترتیب دیا اور مستند حوالہ جات کے ساتھ مدینہ منوّرہ کا سفر بھی بڑی خُوبی سے رواں دواں ہے۔ اللہ پاک انجام بخیر کرے۔ (ریحانہ ممتاز، کراچی)
ج:ہم کیا کسی کے نقاب اُتاریں گے۔ وہ پاک پروردگار جب چاہے، جس کی چاہے، دراز رسّی کھینچ لے۔ نقاب تو ایک ایک کرکے سب کے چہروں سے خُود بخود اُترتے جارہے ہیں۔ اِن75برسوں میں مُلک کے ساتھ جس نے جو جو کھلواڑ کیا ہے، سب کے کچّے چٹھے سامنے آکر رہیں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ عوام سمیت کسی نے بھی اس مُلک کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں کیا، حالاں کہ یہ پاک دھرتی ہرگز بھی ایسے سلوک کی مستحق نہ تھی۔
فی امان اللہ
اس ہفتے کی چٹھی
شمارہ موصول ہوا۔ خلافِ معمول آخری صفحے سے پڑھنا شروع کیا۔ سرِورق کی ماڈل کو دیکھنے سے گریز ہی کیا کہ مبادا پھر ہماری کھنچائی نہ شروع ہوجائے۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ کی سلمیٰ اعوان کی خاصی مشابہت آپ کی ایک دوسری رائٹر کنول بہزاد سے ہے، تو ہم دونوں کی صُورتوں میں کچھ کنفیوژ سے ہوجاتے ہیں اور ہاں، بلاشبہ، یہ بہت صبر آزما دَور ہے، خصوصاً پرنٹ میڈیا سخت بحران کا شکار ہے، مگر آپ لوگوں کی ہمّت کو داد ہے، جو شجر سے پیوستہ رہ کر اُمیدِ بہار لگائے بیٹھے ہیں۔ ’’کھیل، کھلاڑی‘‘ میں کلیم الدین ابو ارحم، فیفا ورلڈکپ اور پاکستانی کرکٹ ٹیم کی سالانہ کارکردگی کی تفصیلات بتارہے تھے۔ ’’سوشل میڈیا‘‘ میں رائومحمّدشاہداقبال ڈیجیٹل دنیا کی بے اختیاری و بے اعتباری پر نوحہ کناں تھے۔ ’’ٹی وی اسکرین‘‘ کی خُوب صُورت ہیڈنگ ؎ جب عیب نکل جائے، ہنر بچتا ہے… دل کو بہت بھائی۔ سال بھر کے کام یاب ترین اور کم پسند کیے جانے والے ڈراموں اور ان کی کاسٹ کی تفصیل اچھے پیراے میں بیان کی گئی۔ ’’سلور اسکرین‘‘ کی رُوداد حمّاد احمد نے سُنائی۔ ’’ادب/ نگارشات‘‘ میں ڈاکٹر عنبریں حسیب عنبر مُلک بھر کی ادبی سرگرمیوں اور کارہائے نمایاں پر روشنی ڈال رہی تھیں۔ ادب کی ہر صنف ہی کا احاطہ بہت اچھے طریقے سے کیا گیا۔ نیز، آرٹس کائونسل نے سیلاب زدگان کی دل کھول کر مدد کی، یہ پڑھ کر بےحد خُوشی ہوئی۔ واقعی، شاعر، ادیب بڑے حسّاس ہوتے ہیں۔ اپنے غم زدہ ہم وطنوں کا دُکھ اُن سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے۔ ’’آفات‘‘ میں فرّخ شہزاد کورونا، سیلاب اور خشک سالی سے پوری دنیا میں ہونے والی تباہی کا تذکرہ کررہے تھے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ایڈیٹر صاحبہ کی خُوب صُورت تحریر سے بےحد محظوظ ہوئے۔ کلر آف دی ایئر2023ء سُرخ ہے۔ اللہ خیر کرے، لال رنگ تو خطرے کی نشان دہی کرتا ہے۔
’’جمع، تفریق‘‘ میں ماہر تجزیہ نگار، منور مرزا یوکرین جنگ اور قیامت خیز منہگائی پر فکرمندنظر آئے اور’’علاج معالجہ‘‘میں بابر علی اعوان کی پولیو کیسز میں اضافے پر تشویش بھی بجا تھی۔ یہ المیہ ہی ہے کہ پوری دنیا سے پولیو ختم ہوچُکا، جب کہ ہمارے یہاں کیسز میں اضافہ ہورہا ہے۔ پھر ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی تعداد بھی خوف ناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ ذیابطیس کی شرح دن بہ دن بڑھ رہی ہے اور یہ سب بڑھتے ہوئے امراض ہمارے نظامِ صحت پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہیں، جب کہ حُکم رانوں کو اقتدار کے میوزیکل چیئر ہی سے فرصت نہیں۔ ’’نسلِ نو‘‘ میں شفق رفیع روح فرسا خبر دے رہی تھیں کہ سات لاکھ سے زیادہ تعلیم یافتہ اور ہنرمند مُلک چھوڑ گئے۔ تو پھر پیچھے کیا بچا، نقل سے پاس ہونےوالے نااہل نوجوان۔ ’’وجودِ زن‘‘ میں پڑھا کہ نامساعد حالات میں بھی خواتین نے کھیلوں کے میدان میں بڑے کارنامے انجام دیے، پڑھ کر خوشی ہوئی۔ ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ میں ڈاکٹر ناظر محمود نے منظرنامے پر اُبھرنے اور پس منظر میں چلی جانے والی شخصیات کا بڑی خُوب صُورتی سے تذکرہ کیا۔ کون آیا، کون گیا، بھئی، ہمیں تو صرف یہی یاد رہ گیا کہ منہگائی آئی، ارزانی گئی۔ آٹے کی قطار میں دھکم پیل سے جو ایک شخص موت کے منہ میں چلا گیا، اُس کا خون ِ ناحق آخر کس کے سر ہے۔ ’’امور خارجہ‘‘ میں فاروق اقدس، عمران خان کے حسّاس خارجی معاملات جلسوں میں اُٹھانے کے نقصانات کا ذکر کر رہے تھے۔ یہ ایسا ہی ہے، جیسے کوئی شخص اپنے جسم کے چُھپے ہوئے نقائص سرِعام بیان کرکے تضحیک کا نشانہ بنے۔ اس بدنصیب قوم کا بھی کیسے کیسے حُکم رانوں سے پالا پڑا ہے۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپور خاص)
ج: جیسی روحیں، ویسے فرشتے۔ عوام بھی کوئی دودھ کے دُھلے نہیں ہیں۔ کہنے کویہ غربت و افلاس کی ماری قوم ہے، لاہور میں کینیڈین کافی شاپ کی اوپننگ ہوتی ہے اور پہلے روز اس پر خلقت ایسے ٹوٹتی ہے کہ کیا سستا آٹا لینے والوں کی قطار اور کیا منہگی ترین کافی لینے والوں کی قطار، صرف حلیوں کا فرق تھا، انداز دونوں کے یک ساں ہی تھے۔ کون مانے گا کہ یہ مُلک غربت کی چکّی میں پِس رہا ہے، یہاں لوگوں کو دو وقت کی روٹی ملنا محال ہے۔ کوئی مُلک بچا ہے، جس کے آگے ہم نے کشکول نہیں پھیلایا اور ایک کافی ریسٹورنٹ کی برانچ کیا کُھلی، پورا لاہور ایسے اُمڈ آیا، جیسے پہلے ہی دن یہ ثواب نہ کمایا، تو روزِ حشر بخشش نہیں ہوگی۔
گوشہ برقی خطوط
* آپ کے صفحے ’’ناقابلِ فراموش‘‘ پر ڈاکٹر لیاقت علی نیازی کی ایک طویل ترین تحریر ’’بنجر قدیم‘‘ نظر سے گزری۔ مَیں نے تحریر کو ایک بار نہیں، بار بار، کئی بار پڑھا۔ بہت باریک بینی سے بہ نظرِ غائر پڑھا، مگر مجھے اِس میں کوئی ایک بھی بات ’’ناقابلِ فراموش‘‘ نظر نہیں آئی۔ تو پوچھنا یہ ہے کہ ایسی بےمقصد، بےمزہ، بےرنگ تحریر شائع کرتے ہوئے آپ کا وہ نام نہاد پیمانہ، معیار (میرٹ) کہاں چلا جاتا ہے، جس کا آپ اکثر و بیش تر ڈھنڈورا پیٹتی رہتی ہیں۔ لکھاری نے تحریر میں محض اپنے قیامِ انگلستان اور افسری کے کچھ پہلو نمایاں کیے۔ اور غالباً اُن کی افسری ہی سے متاثر ہو کر یہ تحریر شائع کی گئی۔ (محمّد اشفاق بیگ، ننکانہ صاحب)
ج: محترم ! فی زمانہ چند سیکنڈز کے ویڈیو کلپس دیکھ لینا بھی بڑی کام یابی گردانی جاتی ہے۔ مغرب میں مسلسل ریسرچز کے ذریعے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ لوگ شوق و دل چسپی سے کسی بھی چیز کو کتنی دیر تک دیکھنا پسند کرتے ہیں، کُجا کہ ایک طویل ترین تحریر کو آپ نے بار بار، کئی بار، بہ نظرِ غائر پڑھا اور پھر بھی فرما رہے ہیں کہ وہ بےمقصد، بےمزہ، بےرنگ تھی۔ ہمارے خیال میں تو آپ کے اِس مخاصمانہ، ناقدانہ مزاج اور رویّے کو سخت اصلاح کی ضرورت ہے۔ بہرحال، ہمیں الحمدللہ، آپ کی پوری تقریر کے باوجود اپنے نام نہاد میرٹ پر بےحد فخر و اعتماد ہے۔
* آپ نے میرے دو سفر نامے کیلاش اور گولن گول ویلی سے متعلق شائع کیے، آپ کا بےحد شکریہ۔ پوچھنا یہ تھا کہ اِن سے قبل مَیں نے اپنی دو تحریریں بھی صفحہ ’’ڈائجسٹ‘‘ کے لیے بھیجی تھیں۔ آج تک نہ تو نام ناقابلِ اشاعت کی فہرست میں شامل ہوا ہے اور نہ ہی وہ شائع کی گئی ہیں۔ براہِ مہربانی اُن سے متعلق اگر کچھ اَپ ڈیٹ کر سکتی ہیں، تو کردیں۔ (سیّد محسن علی)
ج: آپ کی تحریریں قابلِ اشاعت ہیں، بس صرف تحریروں کی طویل ترین قطار کے سبب باری آنے کی منتظر ہیں۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk