• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نظامِ شمسی سیاروں، سیارچوں اور دومکیتوں کا مجموعہ ہے جو سورج کے گرد گھومتے ہیں۔ ہر ایک ستارے کے ذریعہ لگائی جانے والی شدید کشش ثقل کی وجہ سے اپنے اپنے مدار میں رہتا ہے، جس کا کمیت کسی بھی دوسرے سیارے سے کہیں زیادہ ہے۔ کائنات کی ابتدا ء سے اب تک ماہرین نظام ِشمسی میں نت نئے سیارے ،دم دار ستارے اور دیگر فلکی اجزام دریافت کرچکے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ کبھی کوئی خلائی دوربین بھیج کر نئے سیارہ کو تلاش کیا ،کبھی خود تحقیق کرکے دریافت کیا گیا۔

اس ضمن میں ماہرین نے ایک سبز رنگ کا نایاب کومیٹ (دم دار ستارہ ) دیکھا ہے۔ ایک نایاب سبز رنگ کا دم دار ستارہ ہزاروں برس بعد ہمارے نظامِ شمسی کے دورے پر ہے اور نصف کُرّہ شمالی میں گزشتہ ماہ اس کو انسانی آنکھ کے ذریعے دیکھا گیا ۔یہ کومیٹ 50ہزار برس میں پہلی بار زمین کے قریب سے گزرے گا اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے یہ شاید ایک مہینے تک اسی کے آس پاس رہے۔

ناسا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ برفیلا کومیٹ پہلی مرتبہ مارچ 2022 میں دیکھا گیا تھا جب یہ سیارہ مشتری کے مدار کے قریب تھا۔ایک دستی دوربین سے یہ سبز رنگ کی ایک چھوٹی سی چمکتی ہوئی چیز کی طرح نظر آئے گا۔ناسا کی سائنسدان ڈاکٹر سیٹفنی میلم کے مطابق ہم اس میں کچھ مالیکیولز کی موجودگی یا عدم موجودگی کا پتہ لگانا چاہتے ہیں، مثلاً پانی، کاربن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ، میتھین وغیرہ۔ اس کومیٹ کی زمرد جیسی سبز چمک اس میں موجود کیمیائی مادّوں کا پتہ دیتی ہے، یہ اس میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ سے سورج کی روشنی کے ٹکرانے کا نتیجہ ہے۔

امریکی خلائی ادارہ ناسا کے سائنس دانوں نے کہا تھا کہ کومیٹس کی پیشگوئی کرنا بے حد مشکل ہے پر اگر یہ اپنی روشنی میں اضافے کا یہی رجحان برقرار رکھتا ہے تو اسے دیکھنا آسان ہو گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ تاریک آسمان تلے برہنہ آنکھ سے بھی دیکھا جا سکے۔ اس کومیٹ کا نام سی 2022 ای تھری (زیڈ ٹی ایف) ہے۔ دی پلینٹری سوسائٹی کے مطابق اس وقت یہ زمین سے صرف چار کروڑ 20 لاکھ کلومیٹر دور ہو گا۔ کومیٹس برف، مٹی اور پتھر کی بنی ہوئی بڑی گیندوں کی طرح ہوتے ہیں اور یہ ہمارے نظامِ شمسی کے بیرونی کنارے سے باہر موجود برفانی مواد کے ایک چھلّے سے آتے ہیں جسے ’’اوورٹ کلاؤڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔

کومیٹس کا مرکز پتھر، برف اور پانی پر مبنی ہوتا ہے اور ان کے گرد برف اور مٹی پر مبنی ایک بیرونی فضا ہوتی ہے جسے ’’کوما‘‘ کہا جاتا ہے۔ جب یہ سورج کے قریب پہنچتے ہیں تو سورج کی شعاعوں کی وجہ سے ان سے گیس اور مٹی کی ایک لہر نکلتی ہے جو اسے ایک دھوئیں جیسی دم فراہم کرتی ہے۔ اسی لیے انھیں اردو میں دم دار ستارہ بھی کہا جاتا ہے۔ حالاں کہ یہ ستارے نہیں ہوتے۔ نظامِ شمسی میں موجود کئی اجسام کی کششِ ثقل انھیں اوورٹ کلاؤڈ سے کھینچ کر یہاں لے آتی ہے اور جیسے جیسے یہ سورج کے قریب پہنچتے ہیں ان کی چمک میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ 

ہر سال دنیا بھر میں موجود رصد گاہیں ایک درجن کے قریب کومیٹس دریافت کرتی ہیں۔ امریکا کی ریاست کیلی فورنیا میں قائم زوئیکی ٹرانزیئنٹ فیسلٹی نے یہ کومیٹ دریافت کیا تھا، اس لیے اس کا نام سی 2022 ای تھری (زیڈ ٹی ایف) رکھا گیاہے۔ یہ کومیٹ سورج کا ایک چکر لگانے میں تقریباً 50 ہزار سال لیتا ہے۔ چناں چہ دی پلینٹری سوسائٹی کے مطابق ’یہ وہ موقع ہے جو ہماری زندگیوں میں صرف ایک مرتبہ آئے گا۔ نصف کُرّہ شمالی میں موجود افراد اگر ٹیلی ا سکوپ کے بغیر یہ دیکھیں گے تو انھیں یہ آسمان میں ایک مدھم اور سبز دھبے کی طرح نظر آئے گا، جب کہ ٹیلی ا سکوپ رکھنے والے افراد اس کی خوبصورت دم دیکھ سکیں گے۔

ناسا کے محققین کا کہنا ہے کہ اب چوں کہ کومیٹ شمال مغرب کی جانب جارہا ہے تو نصف کُرّہ شمالی میں رہنے والے لوگوں کو یہ صبح کے آسمان میں دکھائی دے گا۔ اگر تو آپ بھی اس کومیٹ کا نظارہ کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ کو آبادی اور مصنوعی روشنیوں سے دور کسی جگہ پر جانا پڑے گا۔ ناسا کا منصوبہ ہے کہ وہ جیمز ویب خلائی دوربین کے ذریعے اس کومیٹ کا مشاہدہ کریں گے اور اس سے ممکنہ طور پر نظامِ شمسی کی ابتدا کے متعلق اہم معلومات حاصل کی جاسکتی ہے۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
سائنس و ٹیکنالوجی سے مزید