• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جرائم کے پھیلاؤ کی اصل ذمہ دار پولیس کی اعلیٰ کمانڈ

اس وقت ملک مہنگائی، کرپشن اور جرائم کے بدترین طوفانوں میں گھرا ہوا ہے۔ گلی کوچوں پر مجرموں کا قبضہ ہے۔ عوام گھروں کے اندر بھی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ پیدل یا گاڑیوں پر سفر کرنے والے کسی انجانے خوف میں مبتلا ہیں۔ کچھ پتہ نہیں کون کب کنپٹی پر پستول رکھ کر موبائیل فون چھین لے جائے۔

یہ کوئی افسانوی یا مفروضوں پر مبنی باتیں نہیں اور نہ ہی اس تحریر کا مقصد کسی ادارے کو عوام کی نظروں سے گرانے کے لئے اس کی توہین کرنا ہے لیکن یہ بات سچ ہے اور ادارے کی رسوائی کا باعث بھی ہے کے پولیس انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں بے آواز عوام کے ساتھ اپنے سلوک، شدت پسندانہ رویہ اور غیر مناسب انداز گفتگو کی وجہ سے عوام میں انتہائی نا پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔

پولیس اپنے اس بنیادی ذمہ داری کی نفی اپنے کردار اور کارکردگی کے ذریعے خود کر رہی ہے کہ "پولیس عوام کی جان و مال کی محافظ ہے۔" یہ پولیس کے سربراہوں کا وہ دعویٰ یا اصول ہے جس کی بنیاد پر پولیس کا ادارہ قائم ہوا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ صرف ملک کی اشرافیہ، سیاستدانوں، باحیثیت طبقے اور ملک کے چند خاندانوں کی جان و مال کی حفاظت پر معمور ہے۔باقی جرائم پیشہ گروہوں کے رحم و کرم پر ہیں۔کیا پولیس کے حاکموں پر یہ حقیقت عیاں نہیں کہ عوام جرائم مافیا کے سامنے کس قدر بے بس ہیں؟ کیا وہ اس بات سے بھی غافل ہیں جرائم کے آقاؤں نے پولیس کی ملی بھگت یا غفلت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے معاشرے میں ہر سطح پر کس قدر پنجے گاڑھ لئے ہیں۔ہر شہر، ہر قصبے، ہر گلی، ہر کوچے، حتیٰ کہ ہر بڑے چھوٹے شہر میں جرائم کے منظم گروہ قائم ہو چکے ہیں۔ جرائم کی دنیا پر حکمرانی کرنے والوں کو عموماً پولیس کے علاوہ پیشہ ور سیاستدانوں کی پشت پناہی بلکہ سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔انہی بنیادوں پر منظم گروہ تشکیل پاتے ہیں جو اپنے اپنے علاقوں میں جرائم کی ریاستیں اور گورننگ سسٹم قائم کرتے ہیں۔ان کے اس نظام حکومت میں بڑے شہروں کو مختلف حصوں یا علاقوں میں تقسیم کر کے کسی ایک ڈان کے زیر سرپرستی علیحدہ علیحدہ جرائم کے لئے بڑا نیٹ ورک تشکیل دیا جاتا ہے۔جبکہ محلوں اور بستیوں کی سطح پر اوباش، آوارہ اور نشے کے عادی نوجوانوں کے لئے اپنی ناجائز خواہشات پوری کرنے کا آسان ذریعہ موبائل سنیچنگ بن گیا جس کا نیٹ ورک کسی رکاوٹ کے بغیر پورے ملک میں پھیل گیا۔

ملک میں دہشت گردی، لوٹ مار، اغوا برائے تاوان اور قبضہ گروپوں کی جانب سے قتل و غارتگری جیسے سنگین وارداتوں کو سنجیدگی سے لینا تو پولیس اور محکمے کے آقاؤں کی ظاہری ذمہ داریوں میں شامل ہے کیونکہ ان جرائم کی جوابدہی حکومتی، عوامی اور ذرائع ابلاغ کی سطح پر لازم ہے لیکن نچلی سطح پر گلی کوچوں اور سڑکوں پر ہونے والے جرائم کی روک تھام پولیس کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل نہیں؟ کیا پولیس کے محکمے پر حکمرانی کرنے والوں کو اس بات کا علم نہیں کہ ایک نچلی سطح کے شہری کس تکلیف سے گزرتا ہے جب اس کی گاڑی، موٹر سائیکل یا موبائیل فون پستول کی نوک پر چھن جاتا ہے اور وہ جب بادل نخواستہ تھانے جاکر رپورٹ درج کرانے کی کوشش کرتا ہے تو تھانے میں اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ ابتدائی مرحلے پر تو تھانے کا محرر درخواست دینے والے کو منہ ہی نہیں لگاتا، اخلاق سے بات کرنا یا کوئی ہمدردی کرنا تو دور کی بات ہے۔ طویل وقت تک کھڑے رکھنے کے بعد انتہائی بد اخلاقی کے ساتھ وہ یہ کہہ کے درخواست گزار کو چلے جانے کا حکم دیتا ہے کہ یہ واقعہ اس کے تھانے کی حدود میں نہیں ہوا، اس لئے نہ تو اس کی ایف-آئی-آر کاٹی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس کی درخواست وصول کی جائے گی حالانکہ محرر کو پتہ ہوتا ہے کہ واقعہ اسی تھانے کی حدود میں ہوا ہے۔ اور اگر کوئی سائل درخواست دینے یا ایف۔آئی۔آر درج کرانے کی ضد کرے یا نذرانہ ادا کر دے تو اسے ای-رسید تھما دی جاتی ہے جو ایف-آئی-آر ہر گز نہیں ہوتی۔یہ سب پولیس کے اس حاکم کے حکم پر ہوتا ہے جس کی ذمہ داری جرائم پر قابو پانا ہوتا اور وہ جرائم کو پیشہ ورانہ بددیانتی کرتے ہوئے ریکار ڈ پر نہ لا کر کاغذوں پر جرائم کا خاتمہ کرتا ہے۔

پولیس کے اس رویےّ، کارکردگی اور افادیت پر پسے ہوئے طبقے کے ذہنوں میں کئی ایسے سوالات گونجتے ہیں جن کے ردعمل یہی لیا جاسکتا ہے اس ادارے کا موجود نہ ہونا ہی عوام کے بے معنی تحفظ سے کہیں بہتر ہو گا۔پولیس کے ان حاکموں کے لئے جو پالیسی سازی کا اختیار رکھتے ہیں ایک سنجیدہ مشورہ ہے کہ اگر وہ عوام کی نظر میں ادارے کی عزت و وقار بنانا چاہتے ہیں تو صرف حکومتوں کے حکم کی بجا آوری کی بجائے ریاست کے احکامات کی پیروی کریں اور ایک عام شہری کی توقعات اور امیدوں پر پورا اترنے کی کوشش کریں، اسی میں آپ کی اور قوم کی بھلائی ہے۔

تازہ ترین