• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس کا حسین چہرہ یوں بجھا ہوا تھا جیسے کسی نے اس کی خوشیوں پر ڈاکہ ڈال دیا ہو،خوبصورت آنکھوں میں مایوسی کے سائے یوں براجمان تھے جیسے صدیوں سے مقیم ہوں ، بدن بولی صفر بٹا صفر تھی، میں نے اسے حوصلہ دیا کہ کیا ہوا بتائو تو سہی، رِندھے ہوئےلہجے میں وہ یوں گویا ہوئی ،میں اپنے والدین کی مرضی کے خلاف ہینڈسم کے سحر میں مبتلا ہوئی،اس کی باتیں ، اس کا لباس ، اس کے دعوے، اس کے نعرے، اس کا لہجہ غرض ہر چیز نے مجھ پر سحر طاری کردیا تھا اور سحر بھی ایسا جیسے کالا جادو، میری آنکھوں پر ایسا پردہ چڑھا کہ میرے لئے اس کا کہا ہوا ہر حرف حرفِ آخر تھا، میں اس کو دیکھنے دھرنے میں بھی جایا کرتی تھی،وہ جب پکارتا میرے نوجوانو، تو ایسا لگتا تھا مجھے ہی مخاطب کیا جارہا ہے،وہ جب ہنستا تو میرے دل کے تار بج اٹھتے تھے،میں نے اس کے ریاستِ مدینہ کے خواب کو سچ مان کر دل و جان سے قبول کیا، اس کی ہر کال پر لبیک کہنا مجھ پر فرض تھا، لیکن جیسے ہی اسے اقتدار ملا ایک ایک کرکے اس کے خوبصورت نقاب اترتے چلے گئے، بلنگ بانگ دعوئوں کی قلعی ایسے کھلتی چلی گئی جیسے پیاز کے چھلکے، سونامی سونامی پکارنے والے کی کالی زبان سچی ثابت ہوگئی ، ڈالر آزاد کرنے کی سازش کیا مکمل ہوئی تو ایک طرف روپیہ اوندھے منہ گرا تو دوسری طرف مہنگائی کے سونامی نے مشترکہ خاندانی نظام کے چیتھڑے تک اڑا دیئے،اکٹھے رہنے والے بھائیوں کو بجلی کے بلوں نے الگ الگ رہنے پر مجبور کردیا،جس گھر میں کبھی ایک کچن ہوا کرتا تھا وہاں سب کو اپنی اپنی ہانڈی کی پڑ گئی، پانچ سال پہلے والد اکیلے کماتے تھے اور چھ لوگ کھاتے تھے،ہم پورے ماہ کی گروسری ایک ساتھ خریدا کرتے تھے، خدا کی پناہ آج ہم چار لوگ کماتے ہیں لیکن یک مشت گروسری نہیں خرید پاتے،بلوںنے تو جیسےجان ہی نکال لی ہے،اخراجات کوہ ہمالیہ پر جاپہنچے ہیں،اسے مسیحا بنا کر پیش کرنے والوں سے سوال کرتی ہوں کہ اس ظلم عظیم پر روز قیامت خدا کو کیا جواب دو گے؟2 روپے کی روٹی کو 20 روپے پر پہنچانے کا کیوں کر حساب دو گے؟لوگوں کی زندگی سے مٹھاس کو نکال کڑواہٹ گھول کر تمہیں جو ملا کیا وہ تمہیں عذاب الٰہی سے بچا پائے گا؟ آج مجھے یہ معلوم ہو چکا ہے کہ کیسے اچھے بھلے چلتے ہوئے ملک کو تباہی کے راستے پر ڈالا جاتا ہے، پچھلے چار برسوں میں ملک کی معاشی تباہی کے ساتھ ساتھ جو تہذیبی ، سماجی اوراخلاقی تباہی پھیلائی گئی وہ بہت ہی خوفناک ہے،بات بے بات سیاسی اور نجی محفلوں میں حزب اختلاف کی خواتین کے کردار پر انگلی اٹھانا اور سوشل میڈیا پر غلیظ پروپیگنڈہ کرنا معمول بنا دیا گیا، جیسے ہی اس نے پلے بوائے ہونے کا اعتراف کیا تو جیسے روح میرے جسم کی قید سے آزاد ہوگئی، اس کے اعتراف نے تو اس کے چہرے پر سجا خوبصورتی بھرا نقاب اکھاڑ پھینکا ،آج میرے ملک کی بیٹیاں اس قدر غیر محفوظ ہوگئی ہیں کہ بتانا چنداں مشکل نہیں،ان کی محفوظ زندگی خواب ہو گئی ہے، بیٹیوں کا گھروں سے نکلنا خطرے سے خالی نہیں رہا، اکیلی باہر نکلتی ہیں تو اندیشہ لاحق ہوتا ہے کہ بھیڑ بکریاں ہیں اور بھیڑیے بھبنوڑنے کیلئے موقع کی تلاش میں ہیں، بیٹیاں پیدل ہوں تو موٹر سائیکل سے گاڑی والے تک لفٹ کی آفر موجود ہوتی ہے،آج ہمارامعاشرہ بیٹیوں کو تحفظ دینے کے لئے تیار نہیں ، کلمے کے نام پر قائم ہونے والے ملک پاکستان میں پچھلے چند برسوں میں مجھ اور مجھ ایسی عورتوں کے نصیب پر غیر محفوظ ہونیکا لیبل لگ چکا ہے، افسوس کا مقام تو یہ بھی ہے کہ میرے ملک کی بیٹیاں اور مائیں قبر تک میں بھی محفوظ نہیں رہی ہیں، آج مجھے شکایت ہے اللہ میاں سے کہ مجھے بیٹی کیوں بنایا ؟ اگر بنایا تو پاکستان میں کیوں پیدا کیا؟اگر پیدا کیا تو یہاں ہمیں بچانے کا پائیدار حل کیوں نہیں پیدا کیا؟میں تو صرف یہی کہہ سکتی ہوں کہ ہے کوئی اس صدی کا محمد بن قاسم، جو ایک بیٹی کی پکار پرعزت سے کھلواڑ کرنے والوں کے سر قلم کردے، ہے کوئی ٹیپو سلطان جو ہماری اجتماعی بزدلی کے عکس کو بہادری میں بدل ڈالے، ہے کوئی سلطان صلاح الدین ایوبی جو تہذیب ، معاشرت اور دیوالیہ معیشت کو بچا کراسے بحال کرنے کا فرض عظیم ادا کرے؟

تازہ ترین