اس وقت حکومت کو دو چیلنج درپیش ہیں ایک معیشت کی بہتری اور دوسرا عمران خان کی گرفتاری ۔معیشت کی بہتری کے لئے دن رات کام ہو رہا ہے جہاں تک عمران خان کی گرفتاری کی بات ہے تو جس دن ریاست نے فیصلہ کرلیا اور عدالت کا حکم ہوا اسی دن عمران خان کو گرفتار کرلیا جائے گا،ریاست کے لئےیہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔پی ڈی ایم حکومت کے ایک وزیر ریاستی طاقت پر لیکچر دے رہے تھے، وہ بتا رہے تھے کہ عمران خان کو گرفتار کرکے سب سے پہلے ان کی ذہنی ساخت کا تجزیہ کرنے کے بعدیہ اندازہ لگانے کی کوشش کی جائےگی کہ وہ کیا عوامل تھے جن کے سبب انہوں نے ایک ترقی کرتی ہوئی معیشت کو تباہی کے راستے پر ڈال دیا ، ہم عوام کو یہ بھی بتائیں گے کہ اس نام نہاد لیڈر کی بگڑتی ذہنی کیفیت کے باعث ہی اس نےقوم کو فوج سے متنفر کرنے کی خطرناک کوشش کی،لیکن خان صاحب اس وقت ملک کی سب سے مقبول جماعت کے مقبول لیڈر ہیں ان کی گرفتاری ملک میں افراتفری نہیں پیدا کردے گی ؟ میرے اس سوال پر وزیر موصوف نے جواب دیا تحریک انصاف ایک لیڈر والی جماعت ہے ، عمران خان نے کبھی کسی دوسرے شخص کو لیڈر بننے ہی نہیں دیا ، یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی سات حلقوں سے تو کبھی تیس حلقوں سے الیکشن لڑنے کی باتیں کرتا ہے، اسے معلوم ہے کہ کسی دوسرے شخص کو ٹکٹ دیا تو اس کی شکست یقینی ہے ، لہٰذا قوم یقین رکھےکہ عمران خان کی گرفتاری کی صورت میں ملک میں کوئی افراتفری نہیں پیدا ہوگی ، ہم انھیں قانون کے مطابق گرفتار کریں گے ، عدالت میں پیش کریں گے ، جو ان پر مقدمات ہیں ان کی تفتیش کریں گے اور قانون کی عملداری کو یقینی بنائیں گے ، وزیر موصوف کی بات چیت سے اندازہ ہوگیا کہ حکومت عمران خان کو گرفتار کرکے ماضی میں عمران خان کی جانب سے کی جانیوالی گرفتاریوں کا بدلہ لینا چاہتی ہے ، دراصل عمران خان نے یونہی نہیں کہا کہ حکومت انھیں گرفتار کرنا چاہتی ہے اور گرفتاری کے بعد بلوچستان کی کسی جیل میں منتقل کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے ، خان صاحب کو معلوم ہے آج نہیں تو کل یہ گرفتاری ہونی ہی ہے۔مجھے وہ دن یاد آرہے ہیں جب خان صاحب اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں کہا کرتے تھے کہ میں ان کو رلائوں گا ، یعنی تمام اپوزیشن جماعتوں کو رلائوں گا، بلاشبہ خان صاحب نے اس مقصد کے لئے پوری دلجمعی سے کوشش کی ،ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو جیلوں میں ڈالا ، فضل الرحمٰن صاحب تو اپنے مدرسوں کی طاقت کی وجہ سے بچ گئے ورنہ خان صاحب نے رُلایا تو ان کو بھی بہت ہے ،لہٰذا ان سب کو رُلانے کے بعد جب خان صاحب حکومت سے فارغ ہوچکے ، اپوزیشن میں جاچکے ہیں اور جن جن لیڈروں کو وہ رُلا چکے ہیں ان لیڈروں کی پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ملک میں حکومت قائم ہوچکی ہے تو قوم خود اندازہ لگالے کہ حکومت میں بیٹھے یہ تمام طاقتور لوگ بھی کس شدت سے چاہ رہے ہوں گے کہ اب خان صاحب کو رُلایا جائے ؟ مریم نواز صاحبہ آج کل عمران خان کے دور میں خود پر ہونے والے مظالم کی روداد جس طرح جلسوں میں عوام کو سنا رہی ہیں اس سے ان کی تکلیف کا اندازہ ہوتا ہے ، اتنا ہی نہیں عمران خان کے دورِ وزارت عظمیٰ میں ملک کی تیسری سب سے بڑی جماعت کے کوچیئرمین آصف زرداری کو جیل میں ڈالا گیا ، ان کی بہن فریال تالپور کو جیل میں ڈالا گیا ، بلاول بھٹو کو بھی کئی کیسوں میں پھنسانے کی کوشش کی گئی، تو پھر پاکستانی عوام کیا سمجھتے ہیں ؟ ان تمام طاقتور سیاسی لوگوں کے دلوں میں بدلے کی آگ نہیں جل رہی ہوگی ؟ ضرور جل رہی ہے اور اس آگ کی تپش ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے کیونکہ پی ڈی ایم کی حکومت کے قیام کو اب آٹھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور عمران خان کے خلاف کئی خطرناک کیسز بھی بن چکے ہیں ، خان صاحب جانتے ہیں کہ بہت طویل عرصے تک عوامی ڈھال، عدالتوں کے اسٹے آرڈرز اور ضمانتوں کے ذریعے وہ گرفتاری سے نہیں بچ سکیں گے ،لیکن تمام سیاسی جماعتوں سے یہ درخواست ہے کہ خدارا ملک کے غریب عوام پر ترس کھائیں، مہنگائی کا جن عوام کو نگلتا جارہا ہے ، کیا ایسا ممکن نہیں کہ اگلے پانچ سال پوری سیاسی اور فوجی قیادت مل کر پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکالنے پر کام کرے اور معیشت ٹھیک کرنے کو ہی اپنی سیاست کا مقصد بنا لیں؟ اور آپس میں یہ طے کرلیں کہ پہلے معیشت بعد میں سیاست۔