• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

بے شک موت کا ایک دن معیّن ہے، مگر ہم اس دن سے ناواقف ہیں۔ ہاں، اس زندگی کی کچھ قدر تب ضرور ہوتی ہے، جب ہم کسی بہت اپنے کو آہستہ آہستہ موت کی آغوش میں جاتے دیکھتے ہیں۔ جیسے میں نے اپنی نانی امّی کو آہستہ آہستہ موت کو گلے لگاتے دیکھا۔ اب بھی وہ لمحات یاد آتے ہیں، تو دل دکھ سے بھر جاتا ہے، کیوں کہ مَیں نے اپنی نانی امّی جیسے باہمّت، برداشت کرنے والی خواتین بہت کم دیکھی ہیں۔ یہ نومبر2022ء کی بات ہے، میں گھر کی بالائی منزل میں اپنے کمرے میں بیٹھی پڑھ رہی تھی اور چھوٹی بہن منیبہ نانی امّی کے پاس تھی کہ اچانک اس نے چیختے ہوئے مجھے آواز دی کہ ’’رحما باجی! نیچے آئو، دیکھو نانی امّی کو کیا ہورہا ہے۔‘‘ مَیں فوراً نیچے بھاگی، تو دیکھا نانی امّی غنودگی میں جارہی تھیں۔ 

منیبہ نانی امّی کی حالت دیکھ کر بہت ڈرگئی تھی، وہ بدحواسی میں کبھی پانی لاتی، تو کبھی کوئی دوا۔ میں نے ہمّت کرکے نانی امّی کو سنبھال لیا، حالاں کہ نانی امّی ٹھیک نہیں تھیں۔ انھیں متلی محسوس ہورہی تھی۔ اور پھر چند منٹوں بعد انھوں نے قے کردی تو مَیں نے سکھ کا سانس لیا کہ شاید اب وہ ٹھیک ہوجائیں گی، لیکن مجھے علم نہیں تھا کہ ان کی طبیعت تو مزید بگڑ رہی ہے۔ ان کی سانس اوپر، نیچے ہورہی تھی۔ 

گھر میں سب سو رہے تھے۔ رات کے تین بجے کا وقت تھا۔ ہم دونوں کچھ دیر نانی امّی کے پاس بیٹھی رہیں اور پھر جب وہ سوگئیں تو ہم بھی اپنے کمرے میں جاکے سوگئیں۔ صبح 4 بجے بڑی بہن ماہ رخ حسبِ معمول نانی امّی کے لیے دودھ لے کرگئیں، لیکن انہیں سانس لینے میں دشواری ہورہی تھی اور وہ بری طرح ہانپ رہی تھیں۔ آکسیجن سلنڈر بھی ختم ہورہا تھا، یہ دیکھ کر ماہ رخ باجی نے گھبرا کر سب کو جگادیا۔ مگر رات سے لے کر اس سارے عرصے میں، مَیں نے نانی امّی کو صرف یہی کہتے سنا کہ ’’مَیں ٹھیک ہوں، مَیں ٹھیک ہوں۔‘‘

بہرحال، بھائی نے انھیں فوراً اسپتال لے جانے کا فیصلہ کیا۔ بھائی اور خالہ نانی امّی کولے کر اسپتال پہنچے، تو انھیں فوراً آئی سی یو میں داخل کرکے وینٹی لیٹر پر شفٹ کردیا گیا۔ ماما اور ہم سب بہنیں گھر ہی پر تھیں۔ ڈاکٹرز ، نانی امّی کی حالت دیکھ کر مایوسی اور ناامیدی کا اظہار کررہے تھے۔ جیسے ہی گھر فون آیا کہ نانی امّی کو وینٹی لیٹر پر منتقل کردیا گیا ہے، تو ہمارے پائوں تلے زمین نکل گئی۔ دوسرے روز میں دوپہر12بجے اسپتال پہنچی، تو دیکھا ان کے اردگرد بہت سی مشینیں لگی ہوئی تھیں، لیکن مجھے اللہ سے امید تھی کہ وہ ضرور انھیں شفا عطا فرمائے گا۔ مَیں نے ان کے سرہانے بیٹھ کے سورئہ یٰسین کا ورد شروع کردیا۔

کئی روز گزرگئے، لیکن نانی امّی کی حالت سنبھلنے میں نہیں آرہی تھی، پھر ڈاکٹرز نے یہ کہہ کر مزید پریشان کردیا کہ ’’اگردو تین روز میں کوئی بہتری نظر نہ ائی، تو مجبوراً وینٹی لیٹر ہٹانا پڑے گا۔‘‘ سب ہی کے لبوں پر بس یہی دعا تھی کہ ’’یااللہ! اگر نانی امّی کی زندگی ہے، تو کرم کردے، ورنہ تیرے نزدیک جو بہتر ہے، وہی کر۔‘‘ نانی امّی کی کیفیت دیکھ کر ہم روز مرتے اور روز جیتے تھے۔ آئی سی یو میں ملاقات کا وقت مقرر ہوتا تھا۔ اس روز بھی مَیں وقتِ مقررہ پر نانی امّی کے پاس پہنچی، تو حیرت انگیز طور پر ان کے جسم میں جنبش ہوئی۔ ڈاکٹرز یہ غیر معمولی صورت حال دیکھ کر اسے ہم سب کی دعائوں کا نتیجہ قرار دے رہے تھے اور پھر رفتہ رفتہ بہتری آتی چلی گئی، یہاں تک کہ وینٹی لیٹر ہٹالیا گیا اور نانی امّی زندگی کی طرف لوٹنے لگیں۔

سب ڈاکٹرز بہت خوش تھے کہ ان کی مریضہ وینٹی لیٹر سے (موت کے منہ میں جاتے جاتے) واپس آگئیں۔ سب ہی ڈاکٹرز نانی امّی کی ہمّت و برداشت کو سراہ رہے تھے اور ہم سوچ رہے تھے کہ اللہ کا شکر ہے، ہم نے ڈاکٹرز کے وینٹی لیٹر ہٹانے کے فیصلے کو تسلیم نہیں کیا تھا، حالاں کہ اس سے قبل ہم سب کے ذہنوں میں یہی بات تھی کہ کم ہی مریض وینٹی لیٹر سے دوبارہ زندگی کی طرف لوٹتے ہیں۔ 

چند روز بعد ہم نانی امّی کو گھر لے آئے اور ان کی طبیعت میں خاصی بہتری آنے لگی۔ اس دوران انھوں نے ہم سے اپنے دل کی بہت سی باتیں کیں۔ گرچہ اس کے بعد وہ دوبارہ اپنے قدموں پر چل پھر نہیں سکیں اور ٹھیک دس روز بعد خالقِ حقیقی سے جا ملیں، مگر ہمیں تاعمر یہ خوشی ضرور رہے گی کہ نانی امّی اپنی اولاد اور اولاد کی اولاد سے جو جو باتیں کہنا چاہتی تھیں، وہ کہہ پائیں۔ اللہ پاک انھیں غریقِ رحمت کرے۔ میری باہمّت نانی امّی کی بہترین مہمان نوازی ہو۔ (رحما اشفاق، لاہور)