• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تپِ دق: سو فیصد کامیاب علاج کے باوجود پھیلاؤ تشویش ناک ہے

پروفیسر ڈاکٹر سہیل اختر/ ڈاکٹر مدیحہ بلال صدیقی

عالمی ادارۂ صحت (WHO) کی جانب سے ہر سال 24 مارچ کو تپ دق یا ٹی بی کا عالمی دن منایا جاتا ہے تا کہ عوام کو اِس مرض سے متعلق آگہی فراہم کی جاسکے۔ اِس مقصد کے لیے مختلف عنوانات یا تھیمز کا انتخاب کیا جاتا ہے اور 2023ء کے لیے جو تھیم مقرّر کیا گیا ہے، وہ ہے’’YES! WE CAN END TB‘‘یعنی ’’ہاں ! ہم ٹی بی کو ختم کر سکتے ہیں۔‘‘ یہ عنوان ایک طرف تو اِس مرض سے نجات کی اُمید دلاتا ہے، تو دوسری طرف، سال ہا سال کی اُن کوششوں کی طرف بھی توجّہ مبذول کرواتا ہے، جو پوری دنیا میں اِس مرض کے سدِباب کے لیے کی جا رہی ہیں۔

پاکستان میں ٹی بی کے مریضوں کی تعداد دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے، اس کے باوجود کہ یہاں ٹی بی کنٹرول پروگرام شروع ہوئے کئی سال ہوچُکے ہیں۔یہ ایک تشویش ناک صُورتِ حال ہے کہ مُلک بَھر میں حکومت اور مختلف اداروں کے زیرِ اہتمام ٹی بی سینٹرز میں تشخیص اور مفت ادویہ کی فراہمی کے باوجود یہ مرض کیوں پھیلے جا رہا ہے؟

ٹی بی کیا ہے اور کیوں اہم ہے؟

ٹی بی دراصل ایک انفیکشن ہے، یعنی یہ اُن امراض میں شامل ہے، جو جراثیم سے پیدا ہوتے ہیں۔ وہ جراثیم جو انسانوں تک پھیل کر اور پَھل پُھول کر اُنہیں بیمار کرتے ہیں۔حقیقتاً جرثوما انتہائی چھوٹا ہوتا ہے، جو خُرد بین کے بغیر نہیں دیکھا جا سکتا اور 24 مارچ 1982 ء کو جرمن ڈاکٹر، رابرٹ کاک نے ٹی بی کا جرثوما پہلی مرتبہ دریافت کیا۔ (اِسی مناسبت سے عالمی دن کے لیے یہ تاریخ منتخب کی گئی)۔ یہ مرض صدیوں پرانا ہے، جیسا کہ مِصری حنوط شدہ ممیوں کے معاینے سے پتا چلا ہے۔ اس کے پہلے کئی نام تھے، جن میں White plague یا سفید طاعون اور ’’کیپٹن آف آل مین آف ڈیتھ‘‘ شامل ہیں۔

ٹی بی کا مرض تو صدیوں پرانا ہے، لیکن اس کا پہلے کوئی باقاعدہ علاج موجود نہیں تھا۔ چناں چہ متاثرہ مریضوں کو عموماً سینی ٹوریم میں رکھا جاتا، جو آبادی سے باہر کوئی الگ جگہ یا اسپتال ہوتے تھے، جہاں کُھلی فضا اور اچھی خوراک کے ذریعے مریض کی شفا یابی کی توقّع کی جاتی، حالاں کہ اِس طرح صرف چند ہی مریض بچ پاتے تھے۔ 1945 ء میں ٹی بی کی پہلی دوا،streptomycin injection دریافت ہوئی اور پھر اس کے بعد بہت سی دیگر مفید ادویہ بھی سامنے آئیں۔ یہاں تک کہ 1960ء تک یہ نظر آنے لگا کہ کچھ ماہ کے علاج سے اِس مرض سے نجات ممکن ہے۔

ٹی بی کا پھیلاؤ

یہ مرض ایک سے دوسرے شخص تک تھوک کی اُن باریک بوندوں(droplets) کے ذریعے پھیلتا ہے، جو کھانسنے، چھینکنے سے منہ یا بلغم سے نکلتے ہیں۔ یہ بوندیں (جراثیم ) ہوا میں کچھ دیر معلّق رہتی ہیں اور اِسی دَوران قریب موجود افراد کے سانس کے ذریعے اپن کے پھیپھڑوں تک منتقل ہو جاتی ہیں۔ جس شخص میں یہ جراثیم داخل ہوں، اُس میں عام طور پر بیماری جلد ظاہر نہیں ہوتی کہ جسم کا مدافعتی نظام، جو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں رکھا ہے، اُن جراثیم پر قابو پا لیتا ہے۔ یعنی اگر دس افراد میں ٹی بی کے جراثیم داخل ہوں، تو اُن میں سے9 کو کبھی بھی ٹی بی کی بیماری نہیں ہوتی، اگرچہ جراثیم اُن کے جسم میں موجود ہوتے ہیں۔

مرض کی علامات

جب شخص کا مدافعتی نظام کسی وجہ سے بہت کم زور پڑتا ہے، تو یہ جراثیم، جو برسوں سے’’سوئے ہوئے‘‘ ہوتے ہیں، متحرّک ہوکر جسم کے مختلف اعضاء کو متاثر کرنے لگتے ہیں،جب کہ اُن کی تعداد میں بھی اضافہ ہونے لگتا ہے۔ ٹی بی کے اثرات 75 فی صد پھیپھڑوں میں ہوتے ہیں، تاہم، یہ بیماری جسم کے کسی بھی حصّے میں ہو سکتی ہے، یعنی آنتیں، ہڈیاں، ریڑھ کی ہڈی، غدود، پھیپھڑے کے باہر کی جھلّی، مثانہ، بچّے دانی، دماغ، غرض کوئی بھی عضو اس سے متاثر ہو سکتا ہے۔ ٹی بی کی کچھ عمومی علامات ہیں، جن میں بھوک نہ لگنا، وزن کم ہونا، ہلکا بخار، کم زوری وغیرہ شامل ہیں۔باقی علامات کا تعلق اُن اعضاء سے ہوتا ہے، جو ٹی بی سے متاثر ہوئے ہوں،جیسے پھیپھڑوں کی ٹی بی میں کھانسی، بلغم میں خون آنا یا سینے میں درد وغیرہ جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔

ٹی بی کا شبہ کب ہونا چاہیے؟

ٹی بی کی عام علامات وہی ہیں، جو بہت سی دیگر بیماریوں میں بھی عام ہیں۔کئی مرتبہ یہ اِتنی ہلکی ہوتی ہیں کہ اُنہیں عام کھانسی، بخار سمجھ لیا جاتا ہے اور اسی کے مطابق علاج معالجہ کیا جاتا ہے۔یاد رکھیے! جب بھی کھانسی یا بخار کی مدّت دو ہفتوں سے زاید ہوجائے یا بلا وجہ وزن کم ہونے لگے، (عمومی علاج کے بغیر یا اس کے ساتھ ) تو ٹی بی کے ٹیسٹ کروا لینے چاہئیں۔ خاص طور پر اگر یہ علامات کسی ایسے شخص میں ظاہر ہوں، جو حال ہی میں کسی ٹی بی کے مریض کے بہت قریب رہا ہو، جیسے کہ ایک ہی گھر میں رہنے والے افراد۔

مرض کی تشخیص

ٹی بی یا کسی بھی انفیکشن کی حتمی تشخیص جراثیم کو جانچے بغیر ممکن نہیں۔ ٹی بی کے لیے تین ٹیسٹ اہم ترین ہیں: جراثیم کا مشاہدہ بذریعہ مائکرو اسکوپ، جراثیم کی لیبارٹری میں افزائش یا culture کروانا اور تیسرا جدید مالیکیولر ٹیسٹ۔ چناں چہ، جب علامات کی بنیاد پر شبہ ہو، تو مریض کا صبح کا بلغم چیک کیا جاتا ہے۔ 

براہِ راست مائکرو اسکوپی مشاہدے کا نتیجہ چند گھنٹوں میں مل سکتا ہے۔ البتہ، کلچر، اس مشاہدے AFB smear سے زیادہ یقینی ہوتا ہے۔ کلچر میں چار سے چھے ہفتے کا وقت لگ سکتا ہے۔ اس تاخیر کا سدّ ِباب ایک اہم مالیکیولر ٹیسٹ سے ممکن ہے، جس کا نام’’ genexpert ‘‘ہے۔ اس کے ذریعے نتائج کا حصول ایک دن میں بھی ممکن ہے۔ 

یہ ٹیسٹ بھی بلغم ہی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ، سینے کے ایکسرے میں ایسے نشان دیکھے جا سکتے ہیں، جن سے ٹی بی کا شبہ قوی ہوتا ہے۔ اگرچہ ان سے حتمی تشخیص نہیں کی جاسکتی، کیوں کہ یہ نشان دیگر بیماریوں میں بھی ہوسکتے ہیں اور مرض کے ختم ہونے کے بعد بھی دھبّے کی شکل میں رہ جاتے ہیں۔

گویا، حتمی تشخیص جراثیم کی بلغم میں معاینے کے علاوہ مشکل ہے۔ خون کے ٹیسٹ مثلاً ESR یا کچھ دوسرے ٹیسٹس بھی ٹی بی کی تشخیص میں معاون نہیں ہوتے۔ جسم کے کچھ حصّوں کے چھوٹے سے جزو کا مائکرو اسکوپ میں معائنہ کرکے بھی ٹی بی کی تشخیص کی جا سکتی ہے۔

ٹی بی کا علاج :

گزشتہ پچاس، ساٹھ سال سے ٹی بی کا مکمل علاج ممکن ہے، جس سے مرض ختم ہو جاتا ہے۔ اِس علاج کا دورانیہ کم از کم چھے ماہ ہے(جو کہ پہلے9 یا12 ماہ تک ہوتا تھا۔) شروع میں 4 ادویہ2 ماہ تک اور پھر2 ادویہ4 ماہ تک دی جاتی ہیں۔ یہ گولیاں صبح ایک ساتھ، عموماً خالی پیٹ کھائی جاتی ہیں۔ ان ادویہ کے استعمال میں باقاعدگی بہت اہم ہے کہ وقفے کی صُورت میں ان کا اثر کم ہو جاتا ہے، بلکہ جراثیم ان ادویہ پرقابو پالیتے ہیں اور وہ ختم نہیں ہوتے۔ 

ان ادویہ کے مضر اثرات بہت کم مریضوں میں ظاہر ہوتے ہیں اور وہ اکثر معمولی نوعیت کے ہوتے ہیں، مثلا متلی، الٹی، خارش یا جسم میں معمولی درد وغیرہ۔ معالج کے مشورے سے ان کا تدارک بہت آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ ان گولیوں کو مریض کے وزن کے حساب سے دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی مریض، جسے چار گولیاں لینی ہیں، چار کی بجائے دو یا تین لے، تو مرض وقتی طور پر تو ہلکا ہو سکتا ہے، لیکن ختم نہیں ہوتا، بلکہ بگڑ بھی سکتا ہے۔ اِس لیے باقاعدگی کے ساتھ تجویز کردہ خوراک کی مقدار لینا اشد ضروری ہے۔

Drug-Resistant TB

گو کہ بروقت اور مکمل علاج سے ٹی بی کے جراثیم کا خاتمہ ممکن ہے، تاہم، کچھ لوگوں میں ٹی بی کے جراثیم دوا کے خلاف مزاحمت میں کام یاب ہو جاتے ہیں، اسے’’ Drug-Resistant TB (DR-TB) کہا جاتا ہے۔ اس کا پھیلاؤ بھی عام ٹی بی جیسا ہی ہے، لیکن اس کی وجہ سے ہونے والی اموات کئی گُنا زیادہ ہیں۔ جدید دَور میں مختلف ٹیسٹس مثلاً Xpert/TB، کلچر وغیرہ کے ذریعے ٹی بی کی تشخیص ممکن ہے۔

اس خطرناک مرض کے پھیلاؤ میں چند اہم وجوہ کو سمجھنا بہت ضروری ہے، جیسے تشخیص میں تاخیر، نامکمل علاج، غیر معیاری ادویہ کا استعمال، دوا میں ناغہ کرنا یا خوراک کے لحاظ سے غلط علاج کرنا۔ڈی-آر ٹی بی اُن لوگوں میں زیادہ پائی جاتی ہے، جنہیں پہلے ٹی بی ہو چُکی ہو، قوّتِ مدافعت کم زور ہو، ایچ آئی وی کے مریض ہوں یا جنہوں نے ڈی-آر ٹی بی میں مبتلا فرد کے ساتھ وقت گزارا ہو۔ 

گزرتے وقت کے ساتھ اس کی کئی نئی اقسام بھی سامنے آئی ہیں، جن میں Multi drug resistant TB، Pre-extensively drug resistant TB اور Extensively drug resistant TB شامل ہیں۔ یہ تمام اقسام ٹی بی کی اہم ادویہ کے خلاف جراثیم کی بڑھتی مزاحمت کی نشان دہی کرتی ہیں۔ نتیجتاً علاج کے لیے مؤثر ادویہ کا انتخاب تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، دنیا بَھر میں20 فی صد ٹی بی کے مریض دورانِ علاج ہی چل بستے ہیں، کیوں کہ اس کا علاج گمبھیر، منہگا اور طویل ہونے کے ساتھ ساتھ مضر اثرات سے بھی بھرپور ہے۔ 

پاکستان میں خوش قسمتی سے حکومتی اور نجی اداروں کے اشتراک سے ڈی-آر ٹی بی کے مریضوں کا علاج ممکن ہو پایا ہے اور اُس سے بہت سے مریض صحت یاب بھی ہورہے ہیں۔ ٹی بی کی اِس خطرناک قسم سے بچنے کا واحد حل یہی ہے کہ اگر کسی کو ٹی بی ہوجائے، تو وہ کسی ماہر ڈاکٹر یا ٹی بی کے مستند ادارے سے اس کا مکمل علاج پوری مدّت کے لیے اور باقاعدہ کروائے۔

Post TB sequelae

ٹی بی کے مرض سے شفایاب ہونے کے باوجود بہت سے افراد اِس کی پیچیدگیوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔اِس حالت کو Post TB sequelae کہا جاتا ہے۔ دسمبر2021 ء میں’’ Lancet Global Health ‘‘نامی روزنامے میں ایک مضمون چَھپا، جس میں انکشاف ہوا کہ سانس کے مرض میں مبتلا افراد یا وہ لوگ، جو ورزش میں رکاوٹ محسوس کرتے ہیں،40 سے 90 فی صد Post TB sequelae کا شکار ہوتے ہیں۔ جب ٹی بی کے جراثیم پھیپھڑوں میں سوراخ، سانس کی نالیوں کی خرابی یا سکڑاؤ کے ذریعے انسانی صحت کو نقصان پہنچا جائیں، تو یہ لوگ مزید وبائی امراض اور جسمانی کم زوری میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ ان میں سے اکثر ڈی-آر ٹی بی یا ٹی بی کے وہ مریض ہیں، جنہیں دوبارہ ٹی بی ہوئی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ حالات میں نہ صرف ٹی بی کے علاج کے دوران بلکہ علاج کے مکمل ہونے کے بعد بھی مریضوں کی حالت کی جانچ پڑتال پر زور دیا جارہا ہے۔ 

جدید تحقیق کے مطابق ایسے مریض ورزش وغیرہ کے ساتھ اپنی روزمرّہ کارکردگی بہتر کر سکتے ہیں۔انڈس اسپتال، کراچی میں Pulmonary rehabilitation کی سہولت، متاثرہ پھیپھڑوں کے ایسے مریضوں کو ورزش، ذہنی نشوونما بہتر بنانے اور غذائی رہنمائی کے ذریعے معیارِ زندگی بہتر کرنے کا راستہ فراہم کرتی ہے، یہاں تک کہ مریض سانس کی بحالی اور جسمانی ورزش کی صلاحیت میں واضح فرق محسوس کرنے لگتے ہیں۔

ٹی بی سے بچاؤ:

ٹی بی پر قابو پانے اور اس کی روک تھام کے ضمن میں کئی ممالک میں خاصی پیش رفت ہوئی ہے۔پاکستان میں بھی اِس سلسلے میں National TB Control Program ، نجی اور سرکاری اداروں کے ساتھ اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اس مشترکہ کوشش کے نتیجے میں ٹی بی کی بروقت تشخیص، علاج تک رسائی، دیگر بیماریوں اور خطرات کی نگرانی ممکن ہو پائی ہے۔بچّوں میں BCG Vaccine کے استعمال سے ٹی بی کی خطرناک اقسام مثلاً دماغی جھلیوں کی ٹی بی( meningitis )اور خون کے ذریعے پھیلنے والی ٹی بی( miliary TB) سے بچا جا سکتا ہے۔ 

بڑوں میں ٹی بی سے بچاؤ کے لیے بھی ویکسین تیار کی جارہی ہے، جو نہ صرف عوام النّاس کو ٹی بی سے محفوظ رکھے گی بلکہ اس سے اموات پر قابو پانے میں بھی مدد مل سکے گی۔ علاوہ ازیں، کچھ ممالک احتیاطی علاج کے ذریعے ٹی بی کے غیر فعال جراثیم Latent TB کے خاتمے کی جانب بھی گام زن ہیں۔اِن تمام احتیاطی اقدامات کے علاوہ، ایک اہم نکتہ ہماری توجّہ کا مرکز بننا چاہیے اور وہ ہے ٹی بی کے پھیلاؤ کو روکنا۔اگر کسی کو ٹی بی ہے، تو اُسے یہ جان لینا چاہیے کہ باقاعدہ علاج کے پہلے دو ہفتے کے بعد دوسروں کو اُس سے ٹی بی لگنے کا خطرہ قدرے کم یا ختم ہو جاتا ہے۔ 

تاہم، اِس دَوران لوگوں سے میل ملاپ اور گھر سے باہر جانے سے گریز کرنا چاہیے۔ علاج مکمل اور باقاعدگی سے کروایا جائے اور مضر اثرات کی صُورت میں ٹی بی کے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے، نہ کہ علاج ہی ترک کردیا جائے۔ کھانستے یا چھینکتے ہوئے اپنے منہ کو ڈھانپنا ضروری ہے تاکہ قریب رہنے والے متاثر نہ ہوں۔ بلغم اور تھوک کو ٹشو سے صاف کر کے محفوظ طریقے سے پھینکنا ضروری ہے، جس کے بعد ہاتھوں کو اچھی طرح دھونا بھی چاہیے۔ کھڑکیاں کُھلی یا کمرا ہوا دار ہو۔ علاوہ ازیں، اچھی خوراک کے ذریعے قوّتِ مدافعت بہتر بنائی جاسکتی ہے۔ 

یاد رکھیں، ٹی بی کے مریض کو کسی غذائی پرہیز کی ضرورت نہیں ہوتی۔ایسے مریضوں کی دیکھ بھال کرنے والے اہلِ خانہ اور طبّی عملے کو بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس مرض کا علاج ہمیں بتایا ہے اور وہ مہیّا بھی ہے، تو ہم کیوں غفلت یا لاپروائی برتیں۔ (پروفیسر ڈاکٹر سہیل اختر معروف چیسٹ اسپیشلسٹ اور انڈس اسپتال، کراچی کے شعبۂ امراضِ سینہ کے سربراہ ہونے کے ساتھ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن( پیما) کے سابق مرکزی صدر ہیں، جب کہ ڈاکٹر مدیحہ بلال صدیقی چیسٹ اور ٹی بی اسپیشلسٹ ہیں اور انڈس اسپتال،کراچی سے وابستہ ہیں)۔

سنڈے میگزین سے مزید