• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ذیابطیس یا شوگر کو عام طور پر’’ خاموش قاتل‘‘ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ مرض متاثرہ فرد کو اندر ہی اندر کھوکھلا کرتا رہتا ہے۔ یہ زندگی بَھر ساتھ رہنے والی ایک ایسی بیماری ہے، جو ہر سال لاکھوں افراد کو نگل لیتی ہے۔ یہ کسی کو بھی لاحق ہو سکتی ہے اور اِس کی وجہ سے دل کے دورے، فالج، نابینا پن، گُردے ناکارہ ہونے اور جسم کے مختلف اعضا کٹنے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، دنیا بھر میں 42 کروڑ سے زاید افراد اس کا شکار ہیں اور یہ تعداد 40 سال پہلے کے مقابلے میں آج چار گُنا زاید ہے۔ پاکستان میں ہر سال ذیابطیس کے باعث تقریباً ڈیڑھ سے دو لاکھ افراد معذور ہو جاتے ہیں اور یہاں ہر دس میں سے ایک فرد اِس مرض میں مبتلا ہے، جب کہ یہ تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہاں تک کہ یہ پاکستان میں ہلاکتوں کی آٹھویں بڑی وجہ بھی ہے۔

ذیابطیس بنیادی طور پر دو قسم کی ہوتی ہے۔ایک پرائمری اور دوسری سیکنڈری۔ پرائمری ذیابطیس میں سے ایک ٹائپ وَن اور دوسری ٹائپ ٹو کہلاتی ہے۔ سیکنڈری ذیابطیس موروثی بھی ہو سکتی ہے اور ادویہ سے بھی لاحق ہوسکتی ہے۔نیز، اینڈو کرائن کی کوئی ایبنارملٹی بھی اس کی وجہ ہوسکتی ہے، لیکن زیادہ تر لوگوں کو پرائمری ذیابطیس ہی کا مرض لاحق ہوتا ہے۔ نوجوانوں کو ہونے والی ذیابطیس، عموماً ٹائپ وَن ہوتی ہے، جس سے جسم میں انسولین کی کمی واقع ہوجاتی ہے۔ ٹائپ ٹو ذیابطیس عموماً بڑی عُمر میں ہوتی ہے اور اس میں ایک جینیٹک فیکٹر بھی ہے، یعنی ہمارے جینز درست کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں یا انسولین تو بن رہی ہوتی ہے، لیکن خلیے(سیل) سے باہر نکلنا بند ہوجاتی ہے۔ 

بعض اوقات انسولین بنتی اور خارج بھی ہوتی ہے، لیکن گلوکوز کو خلیوں کے اندر نہیں لے جا پاتی۔ ٹائپ ٹو ذیابطیس میں خلیے تو موجود ہوتے ہیں، لیکن کم انسولین پیدا کرتے ہیں یا جو پیدا کرتے ہیں، وہ باہر نہیں نکل پاتی۔ دنیا بھر میں ذیابطیس ٹائپ ٹو عموماً چالیس سال کے بعد لاحق ہوتی ہے، لیکن ہمارے خطّے میں25 سال کی عُمر کے بعد سے لوگ اس سے متاثر ہو رہے ہیں اور اس کا سبب ماحول، ہماری جینیٹکس، کھانے پینے کے معمولات، موٹاپا اور طرزِ زندگی ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ بہت بڑھ گئی ہے۔

سبزیوں پر رات کو کیڑے مار ادویہ کا اسپرے کیا جاتا ہے اور صبح مارکیٹ میں فروخت کردی جاتی ہیں۔ پاکستان میں جو چینی استعمال ہوتی ہے، وہ بھی Acidic ہے اوراس کی پی ایچ 1.5 کے لگ بھگ ہے، جو انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے، جب کہ دنیا میں چار سے پانچ پی ایچ کی چینی استعمال ہوتی ہے، لیکن ہم باہر کی چینی پسند نہیں کرتے کہ وہ کم میٹھی ہوتی ہے۔دراصل چینی کو زیادہ میٹھا کرنے کے لیے جو کیمیکل استعمال کیا جاتا ہے، وہ اسےAcidic کردیتا ہے اور یہی تمام عوامل مل کر انسولین Resistance ڈیویلپ کر رہے ہیں، جو ساٹھ سے ستّر فی صد افراد میں ذیابطیس ٹائپ ٹو کا سبب ہے۔

شوگر کو ابتدا ہی میں کنٹرول کرنے کے لیے خاصی احتیاط کی ضرورت ہے۔ مثلاً سبزی کو کھانے سے قبل ایک گھنٹے تک صاف پانی میں دھوئیں اور اپنی سرگرمیوں ہی کے مطابق خوراک استعمال کریں۔ مثلاً آفس میں کام کرنے والے شخص کو روزانہ800 سے 1000 کیلوریز(حراروں)، جب کہ کسانوں اور مزدوروں کو3000 حراروں کی ضرورت ہوتی ہے، مطلوبہ مقدار سے زیادہ کھانے سے موٹاپا لاحق ہو جاتا ہے، جو انسولین Resistance پیدا کرتا ہے۔ پھر ہم بہت سہل پسند ہو گئے ہیں اور واک جیسی سرگرمیاں تقریباً ختم ہو کر رہ گئی ہیں، اِس لیے ہمیں صحت بخش طرزِ زندگی اپنانے کی ضرورت ہے۔چہل قدمی کرنی ہے، متوازن غذا لینی ہے اور اسموکنگ جیسی عادات سے بھی بچنا ہے۔ پاکستان میں ایئر کوالٹی انڈیکس خطرناک حد کو چُھو رہا ہے، فضا میں موجود کچھ اجزا سانس کے ذریعے جسم میں جاتے ہیں، جن سے سانس کے علاوہ اینڈوکرائن کی بیماریاں بھی لاحق ہوجاتی ہیں۔

پھر اسڑیس سے بھی ذیابطیس اور دوسری بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔ اگر والدین میں سے دونوں کو ذیابطیس ٹائپ ٹو ہے، تو شوگر ہونے کا رسک100 فی صد ہوتا ہے۔ بعض اوقات والدین میں سے دونوں کو شوگر ہوتی ہے، لیکن بچّوں میں سے کسی کو20 سال اور کسی کو 50 سال کی عُمر میں ہوتی ہے، تو وہاں خوراک، طرزِ زندگی اور ماحولیاتی فیکٹر اثر انداز ہوتا ہے۔ ذیابطیس کی مختلف علامات ہیں۔

مثلاً چھوٹے بچّوں کا قد نہیں بڑھتا، نشوونما ٹھیک نہیں ہو پاتی، جلد تھک جاتے ہیں، نظر کم زور ہونا شروع ہوجاتی ہے، بچّہ سات آٹھ سال کی عُمر میں بھی بستر پر پیشاب کر دیتا ہے، تو یہ خطرناک علامات ہیں اور ایسے بچّوں کی شوگر فوری چیک کروانی چاہیے۔25 سال یا اس سے زاید عُمر کے افراد اگر زیادہ موٹے ہوں، رات کو بار بار پیشاب کے لیے اُٹھتے ہوں، جلد تھک جاتے ہوں، ہاتھ پاؤں میں جلن ہوتی ہو، نظر کم زور ہو رہی ہو یا پیاس اور بھوک زیادہ لگتی ہو، تو اُنھیں بھی اپنی شوگر چیک کروانی چاہیے کہ اُنھیں ٹائپ ٹو ذیابطیس ہو سکتی ہے۔

یاد رہے، نارمل بلڈ شوگر ناشتے سے پہلے 100 سے نیچے اور ناشتے کے دو گھنٹے بعد 140 سے نیچے ہونی چاہیے۔HbA1c نامی ٹیسٹ کا اوسط، جو تین ماہ کی شوگر بتاتا ہے،5 سے نیچے ہونا چاہیے۔ اگر وہ 5.6 سے زیادہ اور 6.4 سے کم ہو، تو یہ پِری ڈائی بیٹک ہونے کی علامت ہے، یعنی مذکورہ فرد ذیابطیس کا شکار ہونے جارہا ہے۔اگر ایسے افراد اپنے طرزِ زندگی میں مناسب تبدیلی نہیں لاتے، تو کچھ عرصے میں اُنہیں شوگر لاحق ہوجاتی ہے۔

جب کہ اگر وہ وزن کم کرلیں، ضرورت کے مطابق حرارے لیں، 30 منٹ روزانہ اور ہفتے میں کم ازکم 150 منٹ واک کریں، خوراک متوازن ہو اور خود کو اسٹریس سے محفوظ رکھیں، تو وہ جلد ہی متعلقہ مسائل پر قابو پاسکتے ہیں۔پاکستان میں شوگر کے مریضوں کی تعداد سے متعلق دو، تین اسٹڈیز ہوئی ہیں۔ زیادہ تر اسٹڈیز اسے 9 سے 11 فی صد ظاہر کرتی ہیں، یعنی ہمارے یہاں ہر دسواں شخص شوگر کا مریض ہے اور یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔پانچ چھے سال پہلے یہ شرح5 سے 6 فی صد تھی اور اب ایک سروے رپورٹ کے مطابق یہ شرح25 فی صد تک ہے۔

لوگ پوچھتے ہیں کہ’’ کیا میٹھا کھانے ہی سے شوگر ہوتی ہے؟‘‘تو اِس کا جواب یہ ہے کہ ہم جب متوازن غذا کی بات کرتے ہیں، تو اس سے مراد Calories Intake ہوتا ہے۔ یعنی ہم جو بھی چیز کھاتے ہیں، اُس کی کیلوریز بنتی ہیں۔ جگر کے اندر ایک ایسا نظام ہے، جو ہماری خوراک کو حراروں میں تبدیل کرتا ہے، اِس لیے صرف میٹھا کھانے ہی سے نہیں، اپنی سرگرمیوں سے زیادہ حرارے لینے سے بھی فرق پڑتا ہے۔ریفائنڈ شوگر یک دَم بلڈ شوگر بہت اوپر لے جاتی ہے، تو جب بھی میٹھا کھائیں، اس میں اسٹارچ ہونا چاہیے۔ذیابطیس کے مریضوں میں انسولین کیAbsolute پروڈکشن میں بھی کمی آتی ہے۔ 

ہم جو آٹا کھاتے ہیں، اُس میں بھی شکر ہوتی ہے۔ عام سائز کی ایک روٹی میں تقریباً 18گرام شکر ہوتی ہے، لیکن یہ ریشے کی صُورت میں ہوتی ہے، اِس لیے یک دَم Spike نہیں دیتی اور جسم کی شکر کی ضرورت کو پورا کرتی ہے۔اس کے مقابلے میں چینی، گڑ اور شکر بلڈ شوگر کو فوری اوپر لے جاتی ہیں۔ انگور، کیلا اور آم بلڈ شوگر کو فوری بڑھاتے ہیں۔ پھلوں کے جوس بھی شوگر کو تیزی سے اوپر لے جاتے ہیں کہ اُن میں ریشے ختم ہو جاتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں سیب، آڑو اور امرود میں ریشے کی مقدار بہت اچھی ہوتی ہے، تو یہ شوگر کے مریض بھی کھا سکتے ہیں۔ چیکو، کیوی، خربوزے، گرمے اورسردے میں بھی ریشہ زیادہ ہوتا ہے، تو یہ بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں، لیکن کھجور میں بہت زیادہ مٹھاس ہوتی ہے، اُس سے پرہیز کرنا چاہیے۔

ایک سوال یہ بھی ہوتا ہے کہ’’انسولین لگانے کی ضرورت کب پیش آتی ہے؟‘‘ یہ شوگر کی ٹائپ پر منحصر ہے، جیسے ٹائپ وَن میں انسولین پیدا کرنے والے خلیے ہی نہیں ہیں یعنی انسولین پیدا ہی نہیں ہو رہی، تو حل انسولین لگانا ہی ہوتا ہے، اِس لیے انسولین لگانا پہلا علاج ہے، آخری نہیں کہ جب جسم میں انسولین پیدا نہیں ہوتی، تو ہم باہر سے لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ ایک اور غلط فہمی یہ بھی ہے کہ شوگر کے مریض اگر گولیاں کھائیں گے، تو اُن کے گردے خراب ہوجائیں گے، حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔ ہم ذیابطیس کے علاج کے لیے جو گولیاں استعمال کرتے ہیں، وہ صرف شوگر کے میٹابولزم پرکام کرتی ہیں۔انسولین کو Excreteکرواتی ہیں یا اس کی حسّاسیت کو بڑھاتی ہیں۔ بعدازاں، خود بخود Decomposeہوکر جگر اور گردوں کے ذریعے نکل جاتی ہیں۔

اگرشوگر کنٹرول نہ ہو، تو اُس سے پانچ بڑی پیچیدگیاں ہوسکتی ہیں۔ یہ آنکھوں کے پیچھے پردے پر اثرانداز ہوکر ریٹینو پیتھی کردیتی ہے، دل کی بیماریاں جنم لینے لگتی ہیں، گردے فیل ہوسکتے ہیں، پٹّھوں پر اثر کرکے ماپو پیتھی کی وجہ بنتی ہے، جس سے پٹّھے کم زور ہوجاتے ہیں اور متاثرہ شخص بغیر سہارے کھڑا بھی نہیں ہو پاتا۔ یہ اعصاب کو بھی متاثر کرتی ہے اور نیورو پیتھی کردیتی ہے، جس سے ہاتھ پاؤں سُن ہونا یا جلنا شروع ہو جاتے ہیں اور ایک اسٹیج پر تو پاؤں اِس قدر سُن ہو جاتے ہیں کہ کسی گرم چیز پر بھی لگیں، تو تپش کا احساس تک نہیں ہوپاتا۔

بے قابو شوگر خون کی نالیوں کو تنگ کرنا شروع کردیتی ہے، جس سے ہارٹ اٹیک اور فالج کا خطرہ بڑھتا ہے کہ جب خون کی نالیاں تنگ ہوتی ہیں، تو پیروں اور ہاتھوں میں خون کی سپلائی کم ہو جاتی ہے، جس سے پیروں پر زخم بننے لگتے ہیں، جسےDiabetic Foot کہتے ہیں،خون کی سپلائی نہ ہونے کی وجہ سے پیروں کی اُنگلیاں کالی ہوجاتی ہیں اور کچھ مریضوں کی انگلیاں اور پاؤں کاٹنے بھی پڑ جاتے ہیں، یہاں تک کہ بعض اوقات اوپر سے ٹانگ بھی کاٹنی پڑجاتی ہے، کیوں کہ اس حصّے تک نالیاں تنگ ہونے کی وجہ سے خون پہنچ نہیں پاتا۔ 

ہمارے ہاں ذیابطیس کو کچھ زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا، جس کی دو تین بڑی وجوہ ہیں۔ ایک تو تعلیم اور شعور و آگہی کی کمی اس معاملے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ پھر دُور دراز علاقوں میں رہنے والے کسی ماہر سے علاج کی بجائے نام نہاد حکیموں یا اتائیوں کے چکروں میں الجھے رہتے ہیں، نتیجتاً شوگر بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے، یہاں تک کہ یکے بعد دیگرے تمام اندرونی اعضا متاثر ہونے لگتے ہیں۔ اِس ضمن میں بنیادی معلومات عام کرنے، مرض کی روک تھام اور جلد اسکریننگ کی سہولت بہم پہنچانے کی اشد ضرورت ہے۔ (مضمون نگار، معروف انٹرنل میڈیسن اسپیشلسٹ، کنسلٹنٹ فزیشن اور گیسٹرو انٹرولوجسٹ ہیں۔ امیرالدّین میڈیکل کالج، پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ(پی جی ایم آئی) اور لاہور جنرل اسپتال میں پروفیسر آف میڈیسن اور ہیڈ آف میڈیکل یونٹ کے طور پرفرائض انجام دے رہے ہیں)

سنڈے میگزین سے مزید