• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی تمام مخلوقات پر ترجیح دیتے ہوئے اسے’’ اشرف المخلوقات‘‘ قرار دیا اور انسان کو ملنے والی اِس فضیلت کی بنیاد دراصل اُس کی عقل اور اختیار ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں اور اختیار کو استعمال کرتے ہوئے اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزار سکتا ہے۔ المیہ اُس وقت جنم لیتا ہے، جب کسی شخص کا شعور و ادراک متاثر ہوتا ہے اور اُس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں کمی واقع ہوتی ہے۔ اگر کسی پیمانے پر پرکھا جائے، تو ایسے شخص کی ذہانت کا درجہ دوسرے لوگوں کے مقابلے میں کم ہو جاتا ہے۔ اِس کیفیت کو’’ Mental Disorder‘‘ یا ذہنی کم زوری کہا جاتا ہے۔ 

یہ پیدائشی بھی ہوسکتی ہے اور کسی حادثے یا بیماری کا نتیجہ بھی۔ ذہنی کم زوری ہی کی ایک عام شکل کا نام ڈاؤن سینڈروم (Down Syndrom )بھی ہے۔یہ ڈس آرڈر قطعاً نیا نہیں،بلکہ آثارِ قدیمہ کی تلاش میں کچھ ایسے انسانی ڈھانچے بھی دریافت ہوئے، جنھیں دیکھ کر اندازہ لگایا گیا کہ یہ ہزاروں سال قبل بھی موجود تھا۔ڈاؤن سنڈروم( ڈی ایس)سے متاثرہ افراد کی خصوصی نگہہ داشت اور معاشرتی رویّوں میں بہتری کی غرض سے دسمبر2011 ء میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ایک اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ہر سال 21مارچ کو دنیا بَھر میں ڈاؤن سینڈروم کا دن منایا جائے گا۔

یوں 21مارچ 2012ء کو پہلی مرتبہ ڈاؤن سینڈروم کے عالمی دن کا انعقاد کیا گیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اِس دن کو منانے کا اصل مقصد بڑے پیمانے پر لوگوں کو اِس ڈس آرڈر سے متعلق درست آگاہی فراہم کرنا ہے۔ نیز، متاثرہ افراد کی فیملیز کے ساتھ اظہارِ یک جہتی اور عمومی معاشرتی رویّوں میں بہتری کی ترغیب دینا ہے۔ ڈاؤن سینڈروم سے متعلق مزید تفصیلات جاننے سے پیش تر ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ دراصل کِن لوگوں کو ذہنی پس ماندہ کہا جاتا ہے اور اُن کا درجۂ ذہانت یا آئی کیو لیول کتنا ہوتا ہے؟ یہ امر بھی دل چسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ برطانیہ میں عمومی طور پر ذہنی پس ماندگی کی بجائے ’’سیکھنے کی عدم صلاحیت‘‘ یا’’ Learning Disability‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ متاثرہ افراد کا وقار، احترام اور عزّتِ نفس مجروح نہ ہو۔ جب کہ دیگر ممالک میں، بشمول امریکا، اب تک ذہنی پس ماندگی ہی کی اصطلاح مستعمل ہے۔

ایک عام آدمی کا درجۂ ذہانت (آئی کیو لیول) 85یا اس سے زیادہ ہوتا ہے۔ اگر کسی شخص کا درجۂ ذہانت 70یا اس سے کم ہو، تو وہ ذہنی پس ماندگی کا شکار قرار دیا جاتا ہے۔ 71سے 84 تک درجۂ ذہانت کو حدِ فاصل کہا جاتا ہے، جسے طبّی اصطلاح میں’’ Borderline IQ‘‘کہہ سکتے ہیں۔ آئی کیو لیول کے لحاظ سے ذہنی کم زوری کے شکار افراد کو چار درجوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ 

اگر درجۂ ذہانت 50سے 70تک ہو، تو ذہنی کم زوری خفیف یا معمولی ہوتی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ 85فی صد افراد اسی درجے میں آتے ہیں۔ 35سے 49تک درجۂ ذہانت کو درمیانہ قرار دیا جاتا ہے اور دس فی صد افراد کا تعلق اِس درجے سے ہوتا ہے۔ 20سے 34 تک درجۂ ذہانت ہونے کی صُورت میں ذہنی کم زوری شدید کہلاتی ہے اور 4فی صد افراد اس درجے سے تعلق رکھتے ہیں۔ 20سے کم درجۂ ذہانت والے افراد انتہائی درجے کی ذہنی کم زوری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اُنہیں کچھ سِکھانا یا تعلیم دینا ممکن نہیں ہوتا اور یہ مستقل نگہہ داشت کے محتاج ہوتے ہیں۔ 

ان کی مجموعی تعداد ایک فی صد سے بھی کم ہوتی ہے۔ شدید درجے کی ذہنی پس ماندگی کے شکار افراد کو کسی درس گاہ میں باقاعدہ تعلیم تو نہیں دی جا سکتی، مگر اُنہیں گفتگو کے ساتھ کوئی معمولی نوعیت کا کام سِکھایا جا سکتا ہے۔ بقیہ تمام افراد کو مناسب تعلیم دی جا سکتی ہے اور کوئی نہ کوئی ہنر بھی سِکھایا جا سکتا ہے۔ ڈاؤن سینڈروم سے متاثرہ افراد کا آئی کیو لیول زیادہ تر 50کے ارد گرد ہوتا ہے۔ بحیثیت مجموعی دیکھا جائے، تو ان افراد کا درجۂ ذہانت 30اور 70کے درمیان ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ ڈی ایس چلڈرن کی ذہانت میں اضافہ ہوا ہے اور اس کی وجہ بہتر طبّی سہولتوں کی فراہمی، متعلقہ تعلیم و تربیت اور مناسب نگہہ داشت ہے۔

ڈاؤن سینڈروم ایک ایسا ڈس آرڈر ہے، جو پیدائشی طور پر لاحق ہوتا ہے اور انسانی کروموسوم میں خرابی سے یہ جنم لیتا ہے۔یہ کروموسومز دراصل ہمارے جسم کے خلیات میں پائے جاتے ہیں۔ یعنی ہر خلیے کے مرکز میں کروموسومز ایک بڑے مالیکیول کی شکل میں موجود ہوتے ہیں، جو ڈی این اے اور پروٹین کا مجموعہ ہوتے ہیں اور ایک باریک دھاگے کی طرح دِکھائی دیتے ہیں۔ہمارے ہر خلیے میں کروموسومز کے 23جوڑے پائے جاتے ہیں۔ گویا 23 کروموسومز باپ کی طرف سے اور 23ماں کی طرف سے ملتے ہیں اور ان کا انسانی شخصیت، کردار اور خط وخال کی تشکیل میں اہم حصّہ ہوتا ہے۔ 

ایک نسل سے دوسری نسل تک موروثی خصوصیات، جین (نسبہ یا مورثہ) کے ذریعے منتقل ہوتی ہیں اور جینز، کروموسومز پر موجود ہوتے ہیں۔اور ڈاؤن سینڈروم ہونے میں اصل کردار کروموسوم 21کا ہوتا ہے۔یعنی ڈی ایس سے متاثرہ 95فی صد افراد میں دو کی بجائے تین کروموسوم 21پائے جاتے ہیں، تب ہی اسے ’’ Trisomy 21‘‘بھی کہا جاتا ہے۔ ڈی ایس کی ایک کم یاب شکل، موسیک (Mosaic)ڈاؤن سینڈروم کہلاتی ہے، جس میں ذہنی صلاحیتیں زیادہ متاثر نہیں ہوتیں۔ موسیک ڈاؤن سینڈروم میں کچھ خلیات میں کروموسومز کی تعداد معمول کے مطابق 46 ہوتی ہے، جب کہ دیگر خلیات میں اضافی یا تیسرا کروموسوم 21 پایا جاتا ہے اور یوں کروموسومز کی مجموعی تعداد 47 ہوجاتی ہے۔ 

ڈاؤن سینڈروم کی تیسری قسم ٹرانس لوکیشن (Translocation) ڈاؤن سینڈروم کہلاتی ہے۔ اس میں اضافی کروموسوم 21مزید ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر دوسرے کروموسوم سے مل جاتا ہے۔ کروموسوم 21کے نقائص کے ساتھ پیدا ہونے والے بچّے نہ صرف ذہنی طور پر کم زور ہوتے ہیں، بلکہ اُن کے جسمانی خد و خال بھی عام بچّوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ مثلاً چھوٹا سا منہ اور چھوٹے دانت، چپٹی ناک، باہر کو نکلی ہوئی زبان، سَر کا پچھلا چپٹا حصّہ، آنکھ کے اندرونی کونے میں جِلد کی نمایاں سلوٹیں، ترچھے پپوٹے اور چھوٹے مگر چوڑے ہاتھ۔ بحیثیتِ مجموعی یہ بچّے وسط ایشیا اور بطورِ خاص منگولیا کے بچّوں جیسے دِکھائی دیتے ہیں۔ اِسی بنیاد پر ماضی میں اس ڈس آرڈر کو’’ منگولزم‘‘ کہا جاتا تھا۔ 

تاہم، اِس نام پر منگولیا کے لوگوں کو خاصے تحفّظات تھے، اِس لیے بعدازاں نام تبدیل کرکے اسے برطانیہ کے معروف طبیب، ڈاکٹر جان لینگڈن ڈاؤن سے موسوم کردیا گیا۔کیوں کہ ڈاکٹر ڈاؤن ہی وہ شخص تھا، جس نے سب سے پہلے 1866ء میں اِس ڈس آرڈر کی درست تفصیلات بیان کی تھیں۔ڈاؤن سینڈروم سے متاثرہ بچّے عموماً ذہنی کم زوری کے ساتھ کئی جسمانی امراض کا بھی شکار ہوتے ہیں۔ 10فی صد بچّے تو ایسے ہوتے ہیں، جنہیں بیک وقت کئی امراض کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 40سے 50فی صد پیدائشی طور پر دل کی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ان میں آنتوں کی بیماریاں بھی موجود ہوتی ہیں۔ پھر یہ بچّے جسم کے دفاعی نظام کی کم زوری کی وجہ سے وقتاً فوقتاً مختلف وائرسز اور جراثیم کے حملوں کا سامنا کرتے رہتے ہیں۔ 

خون کے سرطان اور تھائی رائڈ ہارمونز کی کمی کا بھی خدشہ رہتا ہے۔ مرگی اور الزائمر کے بھی واضح خطرات ہوتے ہیں۔یہ ڈس آرڈر دنیا کے ہر خطّے میں پایا جاتا ہے اور پیدا ہونے والے ہر سات سو بچّوں میں سے ایک بچّہ ڈاؤن سینڈروم سے متاثر ہوسکتا ہے۔ نیز، اِس ڈس آرڈر سے متاثر ہونے کا خدشہ ماں کی عُمر کے ساتھ بڑھتا جاتا ہے۔ ماں کی عُمر 25سال ہو، تو ہر 1250میں سے ایک بچّہ، 30سال کی عُمر میں ہر ایک ہزار میں سے ایک بچّہ، 35سال کی عُمر میں ہر 400میں سے ایک بچّہ اور 40سال کی عُمر میں ہر100 میں سے ایک بچّہ ڈس آرڈر چائلڈ ہوسکتا ہے۔

ڈاؤن سینڈروم کے علاج اور نگہہ داشت کے ضمن میں پچھلی دو صدیوں میں یورپ اور امریکا کے باشندوں کا رویّہ بہت تبدیل ہوا ہے اور اِسی وجہ سے اب یہ افراد معاشرے میں خاصا فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ انیسویں صدی کے وسط تک ڈی ایس بچّوں کو گھر ہی پر رکھا جاتا تھا اور اُن کے اہلِ خانہ ہی اُن کی دیکھ بھال کیا کرتے تھے۔ بعدازاں، ان کے لیے رہائشی اسکولز اور مراکز بنانے کا آغاز ہوا، جہاں تن خواہ دار ملازمین ان بچّوں کی دیکھ بھال کیا کرتے تھے اور یہ بچّے اپنے گھر والوں سے دُور رہتے تھے۔ اِس دَوران یہ تلخ حقیقت سامنے آئی کہ نگراں افراد اِن بچّوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے تھے۔ کئی بچّے عملے کی مجرمانہ غفلت کا شکار ہوئے۔ 

ایک اور ظالمانہ رُجحان یہ سامنے آیا کہ ان بچّوں کے والدین کو ترغیب دی جانے لگی کہ وہ مستقل طور پر اپنے بچّوں سے دُور ہو جائیں تاکہ محبّت و انسیت کا تعلق مضبوط نہ ہو سکے اور بچّوں کی جُدائی برداشت کرنا آسان ہوجائے۔ اپنے پیاروں سے دُوری اختیار کرنے کا مطلب یہ تھا کہ محبّت کے ہر امکان کا خاتمہ کردیا جائے اور کسی اُمید کو سَر اُٹھانے کا موقع نہ دیا جائے۔بہرحال، پھر بیس ویں صدی کے نصف آخر میں رویّوں میں بھی تبدیلی آئی۔ انسانیت اور محبّت نے غلبہ حاصل کیا اور والدین نے دوبارہ ڈس ایس چلڈرن کی تعلیم و تربیت پر خود فوکس کرنا شروع کیا۔

ماہرینِ نفسیات کو بھی اندازہ ہوا کہ اِن بچّوں کی غالب اکثریت عام اسکولز میں دوسرے بچّوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرسکتی ہے۔ اِس دَوران طبّی میدان میں سائنس نے بھی بے مثال ترقّی کی۔ بہتر نگہہ داشت اور عُمدہ علاج کا یہ فائدہ ہوا کہ ڈاؤن سینڈروم افراد کی اوسط عُمر میں واضح اضافہ ہوگیا۔ پہلے یہ افراد دس سے سترہ برس کی عُمر سے زیادہ نہیں جی پاتے تھے، مگر اب 60برس کی عُمر تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔ویسے ڈی ایس افراد کی اوسط عُمر کے لحاظ سے اعداد وشمار خاصے حیران کن ہیں۔ 1900ء میں اِن کی اوسط عُمر 9سال تھی۔ ماضیٔ قریب، یعنی 1983ء میں اوسط عُمر بڑھ کر 25سال ہوگئی اور آج اِن کی اوسط عُمر 60سال تک جا پہنچی ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ ڈی ایس سے متاثرہ یہ بچّے پھولوں کی طرح نازک اور فرشتوں کی طرح معصوم ہوتے ہیں۔ ان کے ہونٹوں پر اکثر مسکراہٹ پھیلی رہتی ہے اور وہ دوسروں کی محبّت و شفقت کے منتظر رہتے ہیں۔ ان بچّوں کے سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت یقیناً کم ہوتی ہے، مگر یہ درد اور لُطف کا فرق باآسانی محسوس کرسکتے ہیں۔

خوشی اور غم سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں۔ درحقیقت محبّت، درجۂ ذہانت یا آئی کیو لیول کی محتاج ہی نہیں ہوتی۔ جب یہ بچّے اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے دُور ہو جاتے ہیں، تو دُکھ دَبے پاؤں چل کر آتے ہیں اور اُن کی زندگی کا حصّہ بن جاتے ہیں۔ اِن بچّوں کو درد اور آرام سے بچانا نہ صرف اُن کے اہلِ خانہ، بلکہ پورے معاشرے کی ذمّے داری ہے اور معاشرے کے اجتماعی احساس کو جگانے کے لیے ہر سال ڈاؤن سینڈروم کے عالمی دن کے موقعے پر ایک مرکزی موضوع یا تھیم بھی دیا جاتا ہے۔ 2022ء کا مرکزی موضوع بڑا دل چسپ اور اہم تھا اور وہ تھا "Inclusion Means"یعنی ’’شمولیت کچھ معانی رکھتی ہے‘‘۔ 

اِس موضوع کا تقاضا اور مقصد یہ تھا کہ لوگوں کی ڈاؤن سینڈروم پر بھرپور توجّہ مبذول کروائی جائے۔ اِن متاثرہ افراد کو زندگی کے معاملات میں شامل کیا جائے اور ہر قسم کے متعصّبانہ رویّے کا خاتمہ کیا جائے۔ رواں سال، یعنی 2023ء کا مرکزی موضوع بھی بہت ہی اہم اور چونکا دینے والا ہے اور یہ موضوع ہے "We Decide"یعنی ’’ہم فیصلہ کرتے ہیں‘‘۔ یہ موضوع ڈی ایس افراد کے حقوق پر روشنی ڈالتا ہے اور اِن کی رائے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو اُجاگر کرتا ہے۔ یہ موضوع، پورے معاشرے سے مطالبہ کرتا ہے کہ ڈی ایس افراد کو نہ صرف آگے آنے کا موقع فراہم کیا جائے بلکہ اُن کی مرضی اور رائے کا بھی پورا احترام کیا جائے۔

ڈاؤن سینڈروم کے حوالے سے ایک سوال بہت ہی اہمیت کا حامل ہے اور وہ یہ کہ’’ کیا اس کا کام یاب علاج ممکن ہے؟‘‘ حقیقت یہ ہے کہ سائنس کی تمام تر ترقّی کے باوجود ڈاکٹرز کسی ایسے علاج سے واقف نہیں، جو ڈاؤن سینڈروم کا مکمل خاتمہ کرسکے۔ ڈاؤن سینڈروم کے ساتھ موجود دیگر جسمانی امراض کا علاج کیا جا سکتا ہے اور کئی امراض سے مکمل نجات بھی حاصل کی جا سکتی ہے، مگر خود ڈاؤن سینڈروم کسی نہ کسی شکل میں عُمر بَھر موجود رہتا ہے۔اِس کا علاج اِس حد تک ضرور ممکن ہے کہ اس کی شدّت کم کردی جائے اور متاثرہ فرد کو معاشرے کا کارآمد فرد بنا دیا جائے۔ علاج کی مندرجہ ذیل صُورتیں ممکن ہیں۔

(1) ڈاؤن سینڈروم کے ساتھ موجود جسمانی امراض کا بھرپور اور معیاری علاج کیا جائے۔

(2) ڈی ایس کی وجہ سے پیدا ہونے والی شکایات کا علاج کیا جائے، جسے علاج بالمثل یا Symptomatic Treatmentکہا جاتا ہے۔

(3) ڈاؤن سینڈروم سے متاثرہ افراد کو عموماً تین اقسام کے تربیتی علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔(الف) جسمانی علاج یا Physical Therapy(ب) بات چیت اور گفتگو سِکھانے کا علاج یا Speech Therapy(ج) پیشہ ورانہ تربیت اور علاج یا Occupational Therapy

یاد رہے، مندرجہ بالا تینوں اقسام کے تربیتی علاج جتنے جِلد شروع کیے جائیں گے، اُتنے ہی فائدہ مند ثابت ہوں گے۔

(4) متاثرہ بچّے کے اہلِ خانہ کے لیے آگاہی اور حوصلہ افزائی کا وفتاً فوقتاً اہتمام ہونا چاہیے تاکہ وہ خود کو تنہا محسوس نہ کریں اور اپنے معصوم بچّے کی بہتر نگہہ داشت کرسکیں۔اِس ضمن میں ہمیں معاشرے کے اندر مثبت احساس جگانا ہوگا اور بہت سے سال خوردہ، فرسودہ نظریات کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ مثلاً:

* ڈاؤن سینڈروم کے متاثرہ افراد کو’’ اللہ والا‘‘ قرار دے کر مستقل طور پر مزاروں یا درگاہوں پر منتقل کرنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ۔

* اِن معصوم افراد کو قید کرکے نہ رکھا جائے اور ہر قسم کے تشدّد سے گریز کیا جائے۔

* اِن کو کسی پاگل خانے میں داخل کروانے سے متعلق سوچنا بھی گناہ ہے۔

* یہ بچّے والدین کے لیے اللہ کی طرف سے ہرگز کوئی عذاب نہیں،بس آزمائش اور امتحان کی ایک شکل ہیں۔ جو والدین خوش دلی سے ان بچّوں کی نگہہ داشت کریں گے، تو یہی بچّے قیامت کے دن اپنے ننّھے ننّھے ہاتھوں سے والدین کے ہاتھ تھام کر اُنھیں اِن شاء اللہ تعالیٰ جنّت میں لے کر جائیں گے۔

ویسے اگر ہم ڈاؤن سینڈروم کے ضمن میں اپنے معاشرے کا موازنہ مغربی معاشرے سے کریں، تو کئی معاملات میں صُورتِ حال یہاں بہتر دِکھائی دیتی ہے کہ یہاں ڈی ایس بچّوں کو عمومی طور پر گھروں ہی میں رکھا جاتا ہے اور والدین کی زیرِ نگرانی ہی ان کی تربیت و نشوونما ہوتی ہے اور ماضی میں بھی یہی روایت رہی ہے۔ دورانِ حمل بچّے میں ڈاؤن سینڈروم کی تشخیص کی صُورت میں خواتین اسقاطِ حمل نہیں کرواتیں، جب کہ مغربی خواتین ایسے مواقع پر اسقاطِ حمل سے عموماً گریز نہیں کرتیں۔

یاد رہے، اسلامی نقطۂ نظر سے بھی اِس طرح کے اسقاطِ حمل کی اجازت نہیں ہے۔ مسلم فقہاء کی رائے کے مطابق، اسقاطِ حمل کی اجازت صرف اُسی صورت دی جا سکتی ہے، جب ماں کی جان کو خطرہ لاحق ہو۔البتہ مغربی معاشرے میں آج کل ڈاؤن سینڈروم سے متاثرہ افراد کی مختلف اداروں یا گھروں میں بھی عُمدہ طریقے سے نگہہ داشت ہو رہی ہے اور اُنہیں معیاری طبّی و تعلیمی سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں اور یہ روش ہمارے لیے بھی قابلِ رشک اور قابلِ تقلید ہے۔ 

ہمیں بھی آگے آنا ہوگا، مایوسی اور ہر قسم کے احساسِ کم تری سے باہر نکل کر ایک ایسے معاشرے کے قیام کی کوششیں کرنی ہوں گی، جو فلاحی، اسلامی ریاست کی اعلیٰ اقدار کی ترجمانی کرتا ہو۔وہ کیا ہے کہ ؎تم ذرا ٹھہر جاؤ…اپنے سارے تنکوں کو تم سمیٹ کر رکھو…اور ٹوٹے خوابوں کو…آس کی نئی چادر میں لپیٹ کر رکھو…منجمد رگوں میں پھر…خون کی حرارت سے زندگی رواں ہو گی…اس دلِ شکستہ میں…پھر سے زندہ رہنے کی آرزو جواں ہو گی…آخر زمستاں کی برف کو پگھلنے دو…دل ذرا سنبھلنے دو۔ ( مضمون نگار، معروف ماہرِ نفسیات اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے مرکزی جنرل سیکرٹری ہیں)