• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماہِ رمضان ایک مرتبہ پھر ہم پر سایہ فگن ہے۔ اِسی ماہ کے لیے ایک مردِ نجیب نے کہا تھا کہ یہ نیکیوں کا موسمِ بہار ہے۔ یہ مہینہ اُمّتِ مسلمہ کے لیے حرکت، توانائی اور زندگی کا پیغام لے کر آتا ہے،جس سے پوری دنیا کے سامنے اِس حقیقت کا اظہار ہوتا ہے کہ اُمّت کا اجتماعی ضمیر خوابیدہ ضرور ہے، مگر مُردہ نہیں۔ یہ مہینہ ہمارے احساسات و جذبات کو پِھر سے جگاتا اور رُوح کو گرمانے والی زندہ تمنّا عطا کرتا ہے۔ ایک ماہ ہی کے لیے سہی، مگر لوگوں کی بڑی تعداد تقویٰ کے راستے پر چلنا شروع کردیتی ہے۔قرآنِ حکیم میں اِس ماہ کی فضیلت کے تین اسباب بیان کیے گئے ہیں۔(1) نزولِ قرآن: اِس ماہِ مبارک میں قرآنِ حکیم نازل کیا گیا اور یہ ماہِ رمضان کی فضیلت کا ایک بہت بڑا سبب ہے۔ 

ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ’’رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے، جو راہِ راست دِکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔‘‘(سورۃ البقرہ، 185)(2) لیلۃ القدر: یہ ماہِ رمضان کی فضیلت کا دوسرا سبب ہے کہ اس میں لیلۃ القدر موجود ہے۔ وہ رات کہ جس میں عبادت کرنا ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے۔آیتِ ربّانی ہے کہ’’ہم نے اِس قرآن کو شبِ قدر میں نازل کیا ہے۔ اور تم کیا جانو، شبِ قدر کیا ہے؟ شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔‘‘ (سورۃ القدر)(3) فرضیتِ صوم: یہ رمضان المبارک کی فضیلت کا تیسرا اہم سبب ہے، جو قرآنِ حکیم میں یوں بیان ہوا ہے’’اے لوگو! تم پر روزے فرض کر دیئے گئے، جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے۔ 

اِس سے توقّع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔‘‘(سورۃ البقرۃ: 183) اللہ تعالیٰ نے اُمّتِ مسلمہ کے ہر فرد کو مخاطب کرکے فرما دیا کہ جو بھی شخص اِس مہینے کو پائے، اُس کے لیے لازم ہے کہ اِس پورے مہینے کے روزے رکھے۔ اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہے اور کبھی کسی پر ظلم نہیں کرتا، ہمیشہ نرمی کا معاملہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک طرف اُمّت کے ہر فرد کے لیے لازم قرار دیا کہ وہ روزے رکھے، تو دوسری طرف، اُن لوگوں کو استثنا بھی دیا گیا، جو کسی مجبوری کے تحت روزہ نہیں رکھ سکتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ’’اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو، تو وہ دوسرے دِنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔

اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا۔‘‘(سورۃ البقرۃ: 185)اِس آیت میں روزہ نہ رکھنے کی دو جوہ بیان کی گئی ہیں اور یہ دونوں وجوہ عموماً عارضی ہوتی ہیں۔ انسان سفر کی حالت میں مستقل نہیں رہتا۔ مسافر کو اپنی منزل پر پہنچ کر روزے رکھنے ہوں گے اور جو روزے سفر میں چُھوٹ جائیں، اُن کی تعداد بھی قضا کی صُورت پوری کرنی ہوگی۔ جہاں تک مریضوں کا تعلق ہے، تو یہ معاملہ تھوڑا وضاحت طلب ہے۔ امراض دو اقسام کے ہوتے ہیں۔(1) عارضی نوعیت کے امراض: ہم سب وقتاً فوقتاً مختلف بیماریوں اور حوادث کا سامنا کرتے ہیں۔ بعض اوقات مشکلات شدید نوعیت کی نہیں ہوتیں اور اُن کے ساتھ روزہ رکھا جا سکتا ہے۔ 

مثلاً نزلہ، زکام، کھانسی، بخار وغیرہ۔ اگر مرض یا مشکل کی شدّت زیادہ ہو، تو روزہ موخر کیا جا سکتا ہے، مگر جتنے بھی روزے قضا ہوں، اُن کی گنتی بعد میں پوری کرنی ہوگی۔(2) مستقل نوعیت کے امراض CHRONIC ILLNESSES : اِن امراض کی مزید دو نوعیتیں ممکن ہیں۔(i) شدید نوعیت کے وہ امراض، جن میں مکمل صحت یابی کا امکان نہیں ہوتا۔ مثلاً سرطان، گُردوں کے افعال میں خرابی یا اُن کا فیل ہو جانا، جگر کے پیچیدہ امراض، جیسے Liver Cirrhosis، دل کے امراض اور بعض اعصابی امراض۔ ایسے امراض میں مبتلا افراد کے بس میں نہیں ہوتا کہ وہ روزہ رکھیں۔ 

ڈاکٹرز بھی مرض کی شدّت اور مستقل علاج کی وجہ سے روزہ رکھنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ایسے لوگوں کو شریعت کی طرف سے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے، البتہ اُنہیں فدیہ دینا ہوتا ہے۔ ایک روزے کا فدیہ کسی مسکین کو ایک دن کا اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے۔ اگر کوئی شخص اِتنا محتاج ہے کہ فدیے کی ادائی کی بھی استطاعت نہیں رکھتا، تو اُسے اللہ سے معافی طلب کرنی چاہیے اور جب کبھی حالات بہتر ہوں، تو فدیہ ادا کر دینا چاہیے۔(ii) مستقل نوعیت کے کچھ امراض ایسے ہیں، جن کے ساتھ عمومی زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ 

ایسے امراض کی طویل فہرست ممکن ہے، مگر ہم چند امراض کا تذکرہ کریں، تو اُن میں بلند فشارِ خون یا ہائی بلڈ پریشر، ذیابطیس، امراضِ تنفّس، تپِ دق یا ٹی بی، معدے اور آنتوں کا السر یا تیزابیت، گردے اور پتّے کی پتھریاں، ہرنیا، مِرگی، جگر کا ورم یا ہیپاٹائیٹس اور مختلف نفسیاتی امراض وغیرہ شامل ہیں۔اِن تمام امراض کے ساتھ روزہ رکھنا ممکن ہے، بس دوا کا استعمال لازم ہوتا ہے اور ڈاکٹر کے مشورے سے ادویہ کے اوقات مقرّر کیے جا سکتے ہیں۔ اگر مریض کے لیے روزہ رکھنا خطرناک ہو، تو روزہ چھوڑا بھی جا سکتا ہے۔ اِس معاملے میں کسی دین دار اور ماہر ڈاکٹر کا مشورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا۔ ذیل میں ہم کچھ ایسے اہم مسائل، کیفیات اور امراض بیان کریں گے، جن پر ماہِ رمضان میں خصوصی توجّہ دینے کی ضرورت ہے۔

حاملہ خواتین: ایسی خواتین کو شریعت نے روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی ہے۔ اگر صحت کی صُورتِ حال اطمینان بخش ہو اور خاتون باہمّت ہو، تو ماہرِ امراضِ نسواں کے مشورے سے روزہ رکھا جا سکتا ہے۔ روزے نہ رکھنے کی صُورت میں بعد میں تعداد پوری کرنی ہوگی۔

دودھ پلانے والی مائیں: عموماً دودھ پلانے والی مائیں روزے رکھ سکتی ہیں۔تاہم، اگر روزہ رکھنے سے دودھ کی مقدار کم ہو جائے اور بچّے کو پوری خوراک نہ مل پائے، تو روزہ چھوڑا جا سکتا ہے، البتہ چھوڑے ہوئے روزوں کی تعداد بعد میں پوری کرنی ہوگی۔

خواتین کے مخصوص ایّام: ان ایّام میں شریعت کی طرف سے خواتین کو نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے کی اجازت نہیں۔ اِن دنوں کی نمازیں معاف ہوتی ہیں اور بعد میں ادائی کی ضرورت نہیں ہوتی۔البتہ قضا ہونے والے روزے بعد میں رکھنے ہوتے ہیں۔

روزے کی حالت میں انجیکشن اور ڈرپ کا استعمال: اِس معاملے میں علماء کی آراء میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ انجیکشن اور ڈرپ کا استعمال ماضیٔ قریب میں شروع ہوا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی بعثت کے کئی صدیوں بعد تک ایسا کوئی مسئلہ درپیش نہیں آیا۔ اِس مسئلے پر علماء کی انفرادی آراء سامنے آتی رہی ہیں۔ جون 1997 ء میں کاسا بلانکا، مراکش میں اسلامی فقہی کاؤنسل کی نویں کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں طبّی ماہرین اور جید علماء نے شرکت کی۔ کچھ دنوں کے بعد جدہ، سعودی عرب میں اِسی نوعیت کی دسویں کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ 

ان دونوں کانفرنسز میں دیگر فقہی مسائل کے ساتھ روزہ فاسد ہونے کی طبّی وجوہ پر بھی ماہرین نے اظہارِ خیال کیا۔ بعدازاں، عوام النّاس کی رہ نُمائی کے لیے فتویٰ جاری کیا گیا کہ(1) غذائیت والے انجیکشن سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے۔ اِس نوعیت کے انجیکشن کا استعمال ایسے ہی ہے، جیسے منہ کے راستے کچھ کھانا پینا۔(2) روزے کی حالت میں نمکیاتی محلول (Normal Saline) کا بین الورید (Intravenous) استعمال بھی روزے کو فاسد کردیتا ہے۔مشہور عرب عالمِ دین، شیخ ابن العثیمین کی رائے بھی یہی ہے۔واضح رہے،بعض علماء درد اور بخار کے لیے انجیکشن لگانے کی اجازت دیتے ہیں، مگر غذائیت بخش انجیکشن کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔

لہٰذا، اِس معاملے میں احتیاط ہی بہتر ہے۔ انجیکشن خواہ غذائیت بخش ہو یا درد اور بخار کے لیے استعمال کیا جائے، دونوں صُورتوں میں پانی یا محلول کی مناسب مقدار جسم میں داخل ہو کر دورانِ خون کا حصّہ بن جاتی ہے۔معروف دینی ادارے، جامعۃ العلوم الاسلامیہ، علّامہ بنوری ٹاؤن کی اِس ضمن میں یہ رائے ہے کہ’’ روزے کی حالت میں انجیکشن لگوانا جائز ہے، اس سے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ البتہ، اگر کوئی طاقت کا انجیکشن اس لیے لگائے کہ روزہ محسوس نہ ہو، تو یہ مکروہ ہوگا، تاہم روزہ فاسد نہیں ہوگا۔‘‘

روزے کے دَوران ناک، کان اور آنکھ میں دوا ڈالنا: ناک کے معاملے میں فقہا کی عمومی رائے یہی ہے کہ روزے کے دَوران ناک میں دوا کے قطرے نہ ڈالے جائیں کہ ناک کا تعلق براہِ راست حلق سے ہوتا ہے، تو ناک میں ڈالے جانے والے قطرے حلق میں اور بعدازاں معدے تک پہنچ سکتے ہیں۔ آنکھ اور کان سے متعلق علماء کی آراء میں اختلاف پایا جاتا ہے، اِس لیے آنکھ اور کان کی ساخت کو طبّی نقطۂ نظر سے دیکھنا بہتر ہوگا۔ آنکھ سے ایک باریک نالی ناک کے پچھلے حصّے تک جاتی ہے۔ اِس نالی کو Nasolacrimal Ductکہا جاتا ہے۔ آنکھ میں قطرے ڈالے جائیں، تو مذکورہ نالی کے ذریعے حلق تک پہنچتے ہیں اور بعض اوقات دوا کا ذائقہ بھی محسوس ہوتا ہے۔ اِس لیے روزے کے دوران آنکھ میں قطرے ڈالنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ 

کچھ علماء احتیاط کے ساتھ آنکھ میں مرہم لگانے کی اجازت دیتے ہیں۔ جامعۃ العلوم الاسلامیہ، علّامہ بنوری ٹاؤن کے فتوے کے مطابق، روزے کے دَوران آنکھ میں دوا ڈالنے یا لگانے کی ضرورت ہو، تو دوا ڈالنا یا لگانا جائز ہے، اِس سے روزہ فاسد نہیں ہوگا۔ کان کا براہِ راست تعلق حلق یا معدے سے نہیں ہوتا۔ ایک صحت مند کان میں ڈالی جانے والی دوا حلق یا معدے تک نہیں پہنچ سکتی۔ 

اگر کان کا پردہ سلامت نہ رہے اور کسی وجہ سے اس میں سوراخ یا Perforation ہو جائے، تو پھر کان میں ڈالے جانے والے قطرے حلق تک پہنچ سکتے ہیں۔ روزے کے دوران عمومی حالات میں کان کے اندر دوا کے قطرے ڈالے جا سکتے ہیں۔ کان کے کسی مرض کی صُورت میں کسی ماہر ڈاکٹر سے معائنہ کروا لینا چاہیے، جس سے حتمی طور پر معلوم ہوجائے گا کہ کان کا پردہ سلامت ہے یا نہیں۔

روزے کے دَوران خون کا عطیہ: خون کا عطیہ دینے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا، البتہ شدید نقاہت پیدا ہو سکتی ہے۔ بہتر ہوگا کہ خون کا عطیہ افطار کے بعد دیا جائے۔ اگر کسی روزے دار مریض کو خون کے حصول کی ضرورت پڑ جائے، تو ڈاکٹر کی اجازت سے ایسے مریض کو روزہ توڑ دینا چاہیے۔ بعد میں یہ روزہ قضا رکھا جا سکتا ہے۔ روزے کے کفارے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

روزے کے دوران قے آنا یا نکسیر پُھوٹنا: قے یا الٹی آنے سے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑتا، البتہ منہ بَھر کر قے آئے اور اس کا کچھ حصّہ واپس حلق یا معدے میں چلا جائے، تو روزہ فاسد ہو جائے گا۔ نکسیر پُھوٹنے سے بھی روزہ برقرار رہتا ہے، لیکن خون حلق یا معدے میں جانے سے روزہ ٹُوٹ جائے گا۔

دانتوں کی صفائی اور علاج: روزے کی حالت میں مسواک کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ابنِ ماجہ کی ایک حدیث میں روزے دار کو مسواک کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ ٹوتھ پیسٹ اور ٹوتھ پاؤڈر کا استعمال کُلی طور پر ممنوع قرار نہیں دیا جا سکتا، مگر احتیاط بہتر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹوتھ پیسٹ اور پاؤڈر کے ذرّات حلق کے ذریعے معدے تک جا سکتے ہیں۔ روزے دار شدید ضرورت کے تحت دانت نکلوا سکتا ہے، مگر خون یا دوا معدے میں جانے سے روزہ فاسد ہو جائے گا۔ بہتر ہوگا کہ دانتوں کا تفصیلی معائنہ اور علاج افطار کے بعد کروایا جائے۔

مقعد، اندامِ نہانی اور پیشاب کی نالی: یہ تینوں انسانی جسم کے اہم اور نازک حصّے ہیں۔ اِن حصّوں کا معائنہ اور ان میں دوا کا استعمال انتہائی اہم معاملہ ہے۔ اس حوالے سے علماء کی آراء میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ یہاں ہم دوبارہ اسلامی فقہی کاؤنسل اور شیخ ابن العثیمین سے رجوع کرتے ہیں، تو درجہ ذیل فتاویٰ سامنے آتے ہیں۔(1) روزے کے دَوران مقعد کا اندرونی معاینہ کیا جا سکتا ہے۔(2) بواسیر یا کسی زخم کے لیے مرہم کا اندرونی اور بیرونی استعمال کیا جاسکتا ہے۔(3) حقنہ (Suppositories) اور قبض کُشا مائع (Enema) روزے کے دوران مقعد میں داخل کر سکتے ہیں۔ ایسا کرنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا۔(4) روزے کے دوران خواتین کی شرم گاہ کا معائنہ انگلی یا آلات کی مدد سے کیا جا سکتا ہے۔(5) پیشاب کی نالی میں کوئی دوا یا نلکی (Catheter) ڈال سکتے ہیں، اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔

دمے کے مریض اور روزہ: دمے کے مریض سانس چڑھنے کی صُورت میں اِن ہیلر (Inhaler) یا شمامہ کا استعمال کرتے ہیں۔ اِسی مقصد کے لیے نیبولائزر (Nebulizer) کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ دونوں صورتوں میں دوا سانس کے راستے پھیپھڑوں تک پہنچتی ہے، مگر دوا کی معمولی مقدار حلق میں جاتی ہے اور معدے میں بھی دوا جانے کا امکان ہوتا ہے۔ اِسی لیے روزے کے دَوران اِن ہیلر اور نیبولائزر کا استعمال ممنوع ہے۔ وہ مریض جن کا گزارا اِن ہیلر یا نیبولائزر کے بغیر نہیں ہو سکتا، اُنہیں چاہیے کہ روزہ رکھنے سے گریز کریں۔

امراضِ قلب: امراضِ قلب کئی اقسام کے ہوسکتے ہیں۔ کچھ شدید نوعیت کے ہوتے ہیں اور کچھ کی شدّت زیادہ نہیں ہوتی۔ بہت سے مریض ایسے ہوتے ہیں، جو صبح شام دوا استعمال کرکے معمول کی زندگی گزار سکتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ڈاکٹر کے مشورے سے روزہ رکھنا چاہیے۔ مرض کی شدّت زیادہ ہو، تو روزہ نہ رکھنا بہتر ہوگا۔ کچھ لوگ دل کے درد سے نجات حاصل کرنے کے لیے زیرِ زبان گولی رکھتے ہیں۔ گولی کا کچھ حصّہ لعابِ دہن کے ذریعے معدے میں چلا جاتا ہے، جس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ ایسے لوگ، جن کے دل کی حالت قابو میں نہ ہو، انھیں روزہ رکھنے سے گریز کرنا چاہیے۔

ذیابطیس کے مریض کیا کریں؟ ذیابطیس کے مریضوں کا علاج عموماً دو طریقوں سے ہوتا ہے۔ اوّل وہ مریض، جو گولیاں استعمال کرتے ہیں اور دوسرے وہ جنہیں انجیکشن کے ذریعے انسولین دینی پڑتی ہے۔ گولیاں استعمال کرنے والے مریض ڈاکٹر کے مشورے سے صبح شام کے اوقات مقرّر کرسکتے ہیں اور ایسی صُورت میں روزہ بھی رکھ سکتے ہیں۔ اگر کسی وقت شوگر کی شدید کمی کا شکار ہوجائیں، تو روزہ توڑ دینا چاہیے۔ شوگر کی اچانک کمی کا معاملہ بے حد اہم ہے اور اس کی علامات سے مریضوں کو آگاہی ہونی چاہیے۔ 

یہ علامات عام طور پر اِس طرح کی ہوتی ہیں:(1) غیر معمولی نقاہت اور کم زوری (2) بھوک کا شدید احساس اور میٹھا کھانے کی خواہش (3) دل کی دھڑکن کا بڑھ جانا (4) ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو جانا (5) ٹھنڈے پسینے آنا (6) ذہنی کیفیت میں تبدیلی (7) بے ہوشی طاری ہونا۔ اِن علامات والے مریضوں کو روزہ توڑ دینا چاہیے اور فوری طور پر کوئی میٹھی چیز کھا کر قریبی ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔انسولین استعمال کرنے والے مریضوں کو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسولین کے انجیکشن کئی مرتبہ دیئے جاتے ہیں اور اکثر کھانے سے قبل دیئے جاتے ہیں۔ یہ مریض انجیکشن کے بعد کچھ نہیں کھائیں گے، تو شدید نقاہت اور شوگر کی کمی کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ایسے مریضوں کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے اور فدیہ دے دینا چاہیے۔

ہم نے مقدور بھر کوشش کی ہے کہ روزے کے ضمن میں اہم طبّی مسائل کا حل پیش کردیا جائے، مگر ہر مسئلے کا تذکرہ چند سطور میں ممکن نہیں۔ البتہ، قرآن و سنّت کے بنیادی رہنما اصول بیان کر دیئے ہیں، جن کی روشنی میں بقیہ مسائل کے لیے بھی رہ نمائی مل جائے گی۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ جن چیزوں کی اجازت اور ممانعت قرآن و سنّت اور اجماعِ صحابہؓ سے ثابت ہے، اُن پر بحث کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اگر علماء کی رائے اپنے دَور کی طبّی معلومات کی بنیاد پر سامنے آئی ہے، تو اُس پر بحث اور رائے میں تبدیلی کا امکان موجود ہے۔ (مضمون نگار، معروف ماہرِ نفسیات اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے مرکزی جنرل سیکرٹری ہیں)