(گزشتہ سے پیوستہ)
لاہور کی شان و خوبصورتی کبھی یہ تیرہ دروازے تھے جن میں سے اب صرف 6دروازے رہ گئے ہیں، کچھ دروازے انگریزوں نے گرا دیئے، کچھ امتداد زمانہ کی نذر ہو گئے اور شاہ عالمی دروازے کو 1947ء میں آگ لگا کر جلا دیا گیا تھا۔آج یہ عالم ہے کہ ان دروازوں کے گیٹ سڑک کے اندر ایک سے دو فٹ دھنس چکے ہیں چنانچہ نہ بندہوتے اور نہ کھل سکتے ہیں، یہ دروازے انتہائی مضبوط اور اعلیٰ لکڑی کے ہیں۔ لاہور میں صرف روشنائی دروازہ آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے، اس کے بارے میںپھر کبھی بتائیں گے۔ یہ عوام کے لئے نہیں ہے، اس کے علاوہ یہاں دو اور دروازے ہیں ہم نے بھاٹی دروازہ بند اور کھلتے ہوئے دیکھا ہے، ان دروازوں کے اندر بڑے وسیع کمرے اور لوہاری دروازے کے اوپر تو باقاعدہ کئی کمرے ہیں جن میں پتہ نہیں کون رہائش پذیر ہے اور کس کے حکم سے یہاں پر لوگ رہ رہے ہیں ۔اب تو بعض لوگوں نے دروازوں کے اندر کمروں میں دکانیںبنا رکھی ہیں ۔دوسری طرف کئی سیاسی اور مذہبی جماعتوںنےان تاریخی دروازوں کی د یو ا ر و ں پر پوسٹر اور بینرز چسپاں کیے ہوئے ہیں جن سے ان کا باقی ماندہ تاریخی حسن بھی برباد ہو چکا ہے ۔شہر کی جو فصیل تھوڑی بہت مرمت کے بعد کچھ محفوظ رہ گئی ہے اس میں جگہ جگہ درخت اُگ چکے ہیں اور گندے پانی کےپرنالے بنا دیئے گئے ہیں۔کبھی دریائے راوی ان دروازوں کے ساتھ بہتا تھا اور ایک چھوٹی نہر بھی بھاٹی دروازے سے چلتی ہوئی موچی دروازے تک آتی تھی۔اب تو سب کچھ ہی غائب ہو چکا ہے۔ کبھی دریائے راوی شاہی قلعہ میں بادشاہ کی خواب گاہ کے ساتھ بہتا تھا ، خواب گاہ سے سیڑھیاں نیچے دریا کو جاتی تھیں اور وہاں ہمہ وقت ایک کشتی تیار کھڑی رہتی تھی یعنی کسی بھی خطرے کی صورت میں بادشاہ دریا کے راستے فرار ہو سکتا تھا۔ایک زمانہ کیا ابھی صرف تیس برس پرانی بات ہے کہ ہم ان دروازوں سے گزرا کرتے تھے، اس اندرون شہر کا حسن پرانے مکانات، نانک شاہی اینٹ سے تعمیر کردہ حویلیاں، راہ داریاں اور کوچے تھے آج جگہ جگہ پلازے تعمیر ہو چکے ہیں۔ خیر ہم جب مستی دروازہ جسے کبھی مسجدی دروازہ بھی کہا جاتا تھا کیوں کہ یہاں پر اکبر بادشاہ کی والدہ مریم مکانی (حمیدہ بانو بیگم)کی تعمیر کردہ ایک تاریخی مسجد بھی ہے اس وجہ سے اس کو مسجدی دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ دوسری جانب یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک وفادار ملازم مستی بلوچ اس دروازے کی حفاظت پر مامور تھا چنانچہ اس کی خدمات کی وجہ سے شاہی فرمان کے ذریعے اس دروازے کا نام مستی دروازہ کر دیا گیا تھا۔مستی دروازہ، کشمیر ی دروازہ، شیرانوالہ یا حضری دروازہ، ذکی دروازہ/یکی دروازہ یہ سب قریب قریب ہیں ،کبھی یہاں تانگے، ریڑھے اور بیل گاڑیاں چلا کرتی تھیں اب یہاں چنگ چی رکشے آ چکے ہیں، موٹر سائیکل سواروں کی ایک فوجِ ظفر موج آپ کے دائیں بائیں ہر وقت چل رہی ہوتی ہے، ان سے بچ کر چلیں تو چنگ چی والوں سے اپنے آپ کو بچانا پڑتا ہے۔ خیر حویلی دھیان سنگھ یا حویلی آصف جاہ یا پھرجمعدار خوشحال سنگھ کا محل کہیں، کچھ بھی نام دے دیں، یہ تاریخی عمارت ان تینوں ناموں سے مشہور ہے۔ گوروں کے دور میں یہاں پر انگریزی سرکار کے کئی دفاتر تھے، لاہور میں برکی میں خوشحال سنگھ کا ایک گائوں آج بھی اس کے نام پر ہے۔
قیام پاکستان کے بعد اس محل کو سی آئی اے کا ٹارچر سیل بنا دیا گیا۔یہاں کئی سیاسی قیدی بھی رکھے گئے جو ملزم اپنا جرم قبول نہیں کرتے تھے ان کو اس حویلی میں لے آتے تھے یہاں ایک تاریخی درخت تھا جہاںمجرموں کو باندھ دیا جاتا تھا۔ ہم نے وہ درخت سی آئی اے کے دفتر کے زمانے میں دیکھا تھا اب ہمیں وہ تاریخی درخت نظر نہیں آ رہا تھا ۔ہم اس تاریخی عمارت میں کوئی گھنٹہ بھر رہے ،ہم اس کا تہہ خانہ اور شاہی حمام خانہ دیکھنا چاہتے تھے جو ہم نے آج سےتیس برس قبل دیکھے تھے مگر اب کالج کی انتظامیہ ان دونوں جگہوں کو ہمیں دکھانے سے گریز کر رہی تھی ۔دونوں جگہیں تالے لگا کر بند کی ہوئی تھیں ہمیں کالج کے اسٹاف کا رویہ پراسرار سا لگا، ان کی خواہش تھی کہ ہم جلد از جلد یہاں سے چلے جائیں ہم تو احتراماً کالج کے آف ٹائم پر آئے تھے تاکہ طالبات کی پڑھائی میں مخل نہ ہوں ۔
شاہی حمام جو اس تاریخی حویلی میں ہے اس میں چار سو برس قبل پانی کو گرم کرنے کا انتظام تھا اس کے اندر مٹی کی نالیاں جو یقیناً کسی خاص مسالے یا اجزا سے بنائی گئی تھیں، ان میں گرم پانی آتا تھا یہ صرف اس حویلی کی شہزادیوں یا رانیوں کے لئے تیار کیا گیا تھا۔ آج بھی حمام کے اندر نقش ونگار برقرار ہیں یا نہیں اس کا ہمیں اس لئے پتہ نہیں کیوں کہ یہاں کا چوکیدار مسلسل غلط چابیاں لگا رہا تھا ، اس کے رویے سے بھی ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ ہمیں حمام خانہ اور نیچے کا تہہ خانہ نہیں دکھانا چاہتا۔ہم نے بھی زیادہ اصرار نہ کیا اگلی مرتبہ آئیں گے تو کسی سفارش کے ساتھ تاکہ کالج انتظامیہ ہمیں یہ دونوں جگہیں دکھا سکے۔ اس حویلی کے کلاس رومز میں انتہائی خوبصورت فریسکو ورک کیا گیا ہے، جو چار سو برس گزرنے کے باوجود آج بھی اپنے اصلی رنگ میں برقرار ہے،حالیہ زلزلے میں اس حویلی میں دو جگہ دراڑیں پڑ چکی ہیں جو خطرناک ہیں ۔جب ہم اس اندھیرے کمرے میں داخل ہوئے تو دیکھ کر پریشانی ہوئی کہ اس کے فرش میں ایک جگہ سوراخ ہو چکا تھا، یقیناً نیچے کوئی تہہ خانہ ہے اور دیوار بھی ایک جگہ سے گہرائی میں دھنس ہو چکی ہے، حویلی کا مرکزی دروازہ اور ہاتھی دروازہ دونوں ہی قابل دیدہیں،لکڑی اور پینٹنگز کا دیدہ زیب اور نفیس کام کیا گیا ہے۔(جاری ہے)