قومی اسمبلی کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف نے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (دستور) کی فیڈرل ایگزیکٹو کونسل کے شرکاء کے اعزاز میںدئیے گئے ظہرانے میں حکومت اور اپوزیشن کو پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم پر اہم قومی ایشوز پر ثالثی کی پیشکش کر دی ہے اور کہا ہے کہ’’ غیر یقینی صورت حال میں کوئی حکومت نہیں چل سکتی ، ’’سیاسی گرداب ‘‘سے نکلنے کیلئے ہمیں بڑے فیصلے کرنا ہوں گے۔‘‘ انہوں نے دردمندی سے کہاکہ ’’مظلوم ترین طبقہ سیاست دانوں کا ہے جسے ہر کوئی اپنا ہدف بناتا ہے ۔‘‘لہٰذا ’’محاذ آرائی کا سلسلہ ختم کئے بغیر ملک کو استحکام حاصل نہیںہوسکتا۔ ‘‘ راجہ پرویز اشرف کا شمار خطۂ پوٹھوہار کے ان سیاست دانوں میں ہوتاہے جنہیں وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے کا اعزاز حاصل ہوا اور اہم وزارتوں کے قلمدان ان کے پاس رہے ، ملکی سیاست میںان کااہم کردار رہا ہے انہوں نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے کیااور آصف علی زرداری کی طرح ’’مفاہمت‘‘ کی سیاست کے علمبردار رہے، 10اپریل 2022ء کو عمران خان کوپارلیمنٹ کی قوت سے اقتدار سے نکالے جانے کے بعد ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو گیا ہے ،عمران خان نے پارلیمنٹ کا فیصلہ قبول کرنے سے انکار کردیا ہے ، وہ پچھلے ایک سال سے سڑکوں پر ہیں اور موجودہ حکومت کے خلاف’’ اعلان جنگ‘‘ کر رکھا ہےبہرحال اس وقت ملکی سیاست کا محور عمران خان ہی ہیں ۔آئے روز ان کے خلاف مقدمات کا اندراج تو ہو رہاہے لیکن بوجوہ ان کی گرفتار ی عمل میں نہ آسکی ،ان کو اب تک ہر مقدمہ میں ضمانت دے کر ریلیف دیا جا رہا ہےبعض اوقات حکومت اس قدر ’’بے بس‘‘ دکھائی دیتی ہے جیسے اس کا وجود ہی نہیں۔ عمران خان جس طرح عدالتوں میں ’’جلو ہ ‘‘ افروز ہوتے ہیں اس کی ہماری تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی ۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حکومت کی طرف سے کوئی’’ سیزفائر‘‘ ہو رہا ہے اور نہ ہی عمران خان ہار ماننے پر تیار ہیں بلکہ اب تو انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک نیا محاذ کھول دیا ہے۔پی ٹی آئی کے کارکنوں نے لندن میں 10ڈائوننگ اسٹریٹ کے سامنے جو مظاہرہ کیا اس میں ان کا نیا ٹارگٹ سامنے آگیا ہے جس کا وزیر اعظم شہباز شریف نے سخت نوٹس لیا ہے اور کہا ہے کہ’’ آرمی چیف کے خلاف مہم ناقابل برداشت ہے یہ اداروں کے خلاف سازش کا تسلسل ہے ایسے افراد سے سختی سے نمٹا جائے گا ۔عمران خان اداروں کو اپنی گندی سیاست میں گھسیٹ کر آئین شکنی کے مرتکب ہو رہے ہیں، اس پر قانونی کارروائی کی جائے گی۔ ‘‘
90ء کے عشرے میںنواز شریف اور بے نظیر بھٹوکے درمیان شدید اختلافات پیدا ہوگئے تھے ،ایک دوسرے پر سخت الفاظ میں تنقید کی جاتی تھی ،اس وقت ا سپیکر قومی اسمبلی گوہر ایوب نے اسی طرح حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اہم قومی ایشوز پر مفاہمت پیدا کرنے کیلئے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی جس طرح آج راجہ پرویز اشرف نے پیش کش کی ہے ۔گوہر ایوب پارلیمنٹ ہائوس میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو کھانے کی میز پر اکٹھے بٹھانا چاہتے تھے لیکن ’’طاقت ور ‘‘ لوگوں نے مفاہمت کی یہ کوشش ناکام بنا دی لیکن نواز شریف اور بے نظیر بھٹو دونوں کے رویے میں اس حد تک لچک پائی جاتی تھی کہ طاقت ور حلقوں کے ہاتھوں دربدر ٹھوکریں کھانے کے بعد دونوں 2006ء میں ’’میثاق جمہوریت‘‘ پر دستخط کرنے پر مجبورہو گئے،اسی تاریخی موقع پر نواز شریف نے بے نظیر بھٹو کو سونے کا قلم پیش کیا جو مسلم لیگ(ن)اوور سیزکے روح رواں شیخ قیصر محمود نے انہیں تحفہ میں پیش کیا تھا، اڑھائی سال قبل راقم نے وزیر اعظم ہائوس میںعمران خان کواپوزیشن سے صلح کرنے کا مشورہ دیا تھا لیکن اس وقت وہ اقتدار کے میں تھے انہیں میری یہ بات اچھی نہ لگی لیکن آج عمران خان’’ گرم پانیوں‘‘ میں ہیں۔بہرحال اسپیکر قومی اسمبلی نے اپنے خطاب میں بجاطور پر یہ کہا ، ’’ہم یہ جملہ سالہا سال سے سنتے آرہے ہیں کہ پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے لیکن اب تو واقعی یہ بات درست نظر آتی ہے کہ پاکستان نازک دورسے گزر رہا ہے۔ ‘‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں ملک معاشی بحران سے نکالنے اورقومی سلامتی کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے سیاسی مفادات سے بلند ترہو کر سوچنا ہو گا۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کا تعین کرنے کی کوئی راہ نکل نہیں پا رہی عمران خان فوری انتخابات کی تاریخ چاہتے ہیں ،عام انتخابات کے انعقاد کیلئے حکومت پر دبائو بڑھانے کیلئے انہوںنے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی کا قتل عام ‘‘ بھی کروا دیا لیکن دور دور تک عام انتخابات کا فوری انعقاد نظر نہیں آ رہا، اب تو الیکشن کمیشن نے امن و امان کی خراب صورتحال کے پیش نظر پنجاب اسمبلی کے انتخابات 8اکتوبر2023تک ملتوی کر دئیے ہیں، جب کہ خیبر پختونخوا اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کا ابھی تک اعلان ہی نہیں ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے 8اکتوبر 2023ء عام انتخابات کی تاریخ ہو گی عمران خان بار بار اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ انہیں مرتضیٰ بھٹو کی طرح قتل کر دیا جائے گا ۔پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے عمران خان کے الزام کا نوٹس لے لیا ہے اور تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ حکومت اور عمران خان کے درمیان ’’گھمسان کی جنگ ‘‘ جاری ہے، ، سوشل میڈیا پرایک دوسرے کو جس طرح مطعون کیا جا رہا ہے اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ عمران خان بھی فوری انتخابات کے انعقاد کی رٹ چھوڑ دیںاور پی ٹی آئی کے مستعفی ارکان کی پارلیمنٹ میں واپسی کی راہ ہموار کی جائے۔ پی ٹی آئی کو اپنا قائد حزب اختلاف منتخب کرنے کا موقع دیا جائے تاکہ پارلیمان میں حقیقی جمہوریت کا تاثر ملے حکومت کو سرکاری اپوزیشن کی بجائے ’’حقیقی اپوزیشن‘‘ کا سامنا کرنا چاہئے۔ پی ٹی آئی کو پارلیمان سے نکلنے کی غلطی کا احسا س ہو گیاہے تو اسے پارلیمان سے باہر رکھنے کی سزا نہ دی جائے جب پی ٹی آئی پارلیمان میں واپس آ جائے گی تو اسپیکر کو ثالثی کا کر دار ادا کرنے کا موقع بھی مل جائے گا۔