اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی، سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی 7 مقدمات میں 6 اپریل تک عبوری ضمانت منظور کر لی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی ضمانت کی درخواستوں پر چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی۔
عمران خان کی جانب سے بیرسٹر سلمان صفدر عدالت میں پیش ہوئے۔
عمران خان کی جانب سے بیرسٹر سلمان صفدر عدالت میں پیش ہوئے جنہوں نے عدالت کو بتایا کہ بائیو میٹرک اعتراض کو 60 سال سے زائد عمر والوں پر لاگو نہیں کرنا چاہیے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اب تو بائیو میٹرک کرانے کا طریقہ بہت آسان ہو گیا ہے۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ سے حفاظتی ضمانت حاصل کی ہے، جوڈیشل کمپلیکس پہنچے تو گیٹ سے آگے نہیں جانے دیا گیا، عمران خان پر اس روز مزید ایف آئی آرز درج کی گئیں۔
چیف جسٹس نے انہیں ہدایت کی کہ آپ پہلے اس بات پر مطمئن کریں کہ ایک فورم کو بائی پاس کر کے یہاں کیوں آئے؟ آپ نے آخر کار جانا ادھر ہی ہے پھر پہلے ٹرائل کورٹ کیوں نہیں گئے؟
عمران خان کے وکیل نے جواب دیا کہ میں اس حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پیش کروں گا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ سادہ سی بات بتائیں کہ جمپ کر کے براہِ راست ہائی کورٹ کیوں آئے؟
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ عمران خان کو سیکیورٹی خدشات ہیں، یہاں ماحول بہت بہتر ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ہزاروں لوگ آ جائیں گے تو پھر امن و امان کی صورتِ حال پیدا ہو گی، آپ نے ہی اس صورتِ حال کو بہتر بنانا ہے۔
عمران خان کے وکیل نے جواب دیا کہ ہم کسی کو کال نہیں دیتے، لوگ خود آ جاتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے یہ بات مدِ نظر ہے کہ درخواست گزار ایک بڑی سیاسی جماعت کے لیڈر ہیں اور ان کے فالورز بھی ہیں۔
اس موقع پر عمران خان روسٹرم پر آ گئے تاہم چیف جسٹس عامر فاروق نے انہیں بات کرنے سے روک دیا اور انہیں واپس اپنی نشست پر بیٹھنے کی ہدایت کر دی۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ عمران خان کو سیکیورٹی خدشات ہیں جو جینوئن ہوں گے، ان پر ایک مرتبہ حملہ بھی ہو چکا ہے۔
عدالت نے ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیرجدون کو روسٹرم پر بلا لیا۔
دورانِ سماعت ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد اور فواد چوہدری کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔
سیکیورٹی کے سوال پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ عمران خان گاڑی سے نہیں اترے، ان کے لوگوں نے وہاں گاڑیاں جلا دیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ سیکیورٹی نہیں دیں گے تو یہ اپنی سیکیورٹی خود کریں گے۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ میں نے بھی سیکیورٹی کے حوالے سے بات کی ہے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ نہیں! آپ نے یہ بات نہیں کی، آپ جھوٹ بول رہے ہیں، آپ سے زیادہ جھوٹ کوئی نہیں بولتا۔
عدالت نے فواد چوہدری اور ایڈووکیٹ جنرل کو کراس ٹاک سے منع کر دیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سیکیورٹی کے ایشو پر فیڈریشن کو نوٹس کر رہے ہیں اور پولیس کو عمران خان کی گرفتاری سے روک رہے ہیں، ریاست اس بات کو محسوس کرے کہ وہ ریاست ہے، حکومتیں تو آتی جاتی رہتی ہیں، ریاست اپنے شہریوں کے لیے موجود ہوتی ہے۔
عمران خان ضمانت منظور ہونے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ سے روانہ ہو گئے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے کمرۂ عدالت میں چیئرمین پی ٹی آئی، سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کے موقع پر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کی ہے۔
عمران خان کا کہنا ہےکہ لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطلب ہوتا ہے رول آف لاء، اپنے امپائر کھڑے کرنے کا مطلب لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ہوتا، جو امپائر ساتھ ملا کر کھیلتے رہے ہوں ان کو لیول پلیئنگ فیلڈ کا کیا پتہ؟
مذاکرات کے سوال پر عمران خان نے جواب دیا کہ اس پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔
صحافی نے سوال کیا کہ رانا ثناء اللّٰہ نے کہا ہے کہ یا یہ رہیں گے یا ہم رہیں گے؟
عمران خان نے جواب دیا کہ خواہش تو یہی ہے کہ دونوں رہیں، اگر وہ کہہ رہے ہیں تو میں یہی کہوں گا کہ وہ نہیں رہیں گے، اگر آج نامعلوم پیچھے نہ ہوں تو یہ حکومت ختم ہو جائے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ باجوہ صاحب اب کیا کہیں گے کہ شہباز شریف 40 منٹ جھاڑ کھاتے رہے، سیاستدانوں کے لیے مذاکرات کے دروازے ہمیشہ کھلے ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اظہر مشوانی کو اغواء کیا گیا،حسان کی ضمانت ہوئی تو اسے پھر گرفتار کر لیا گیا، ملک میں رول آف لاء ختم ہو چکا ہے۔
صحافی نے سوال کیا کہ ملک میں کس کی حکومت ہے؟
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے جواب دیا کہ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب آپ سب کو معلوم ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ آمد کے موقع پر عمران خان سے ’جیو نیوز‘ نے بات چیت کے دوران سوال کیا کہ وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللّٰہ نے کہا کہ یا آپ ہیں یا ہم؟
جس پر عمران خان نے کہا کہ اس کی کیا حیثیت، کس کا نام تم نے لے لیا؟
عمران خان سے سوال کیا گیا کہ اب آپ صحت یاب ہو گئے ہیں، کیا کوئی مذاکرات کریں گے؟ کیا آپ سیکیورٹی سے مطمئن ہیں؟
عمران خان نے جواب دیا کہ سیکیورٹی تو ہے ہی نہیں، سیکیورٹی تو صرف اپنی ہے۔
عمران خان سے سوال کیا گیا کہ پاکستان اور عوام کو سیاسی مفاہمت اور سیاستدانوں کی بات چیت کی ضرورت ہے؟
عمران خان نے جواب دیا کہ میں اس پر بات نہیں کرنا چاہتا۔
اس موقع پر اسلام آباد ہائی کورٹ کا کورٹ روم نمبر ون خالی کرا لیا گیا۔
عدالت کی جانب سے تمام وکلاء اور سائلین کو ڈویژن بینچ کے کیسز ختم ہونے پر کورٹ روم سے جانے کی ہدایت کر دی گئی۔
بم ڈسپوزل اسکواڈ نے کورٹ روم نمبر ون کی اسکریننگ کی۔
بم ڈسپوزل اسکواڈ کی کلیئرنس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے کورٹ روم میں عمران خان کی درخواستِ ضمانت پر سماعت کچھ دیر بعد ہو گی۔
اس سے پہلے بھی بم ڈسپوزل اسکواڈ کے عملے نے جوڈیشل کمپلیکس میں چیکنگ کی تھی۔
اس سے قبل وکیل علی بخاری نے بتایا تھا کہ عمران خان کی گاڑی کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے اندر داخلے کی اجازت مل گئی جبکہ پولیس نے ہائی کورٹ سائیڈ پر تمام گاڑیوں کو روک لیا۔
دوسری جانب پولیس نے پہلے تو عمران خان کی گاڑی کو ہائی کورٹ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی تاہم بعد میں گاڑی کو احاطۂ عدالت میں داخل ہونےکی اجازت دے دی گئی۔
سینیٹر سیف اللّٰہ نیازی کا کہنا ہے کہ عمران خان گاڑی میں بیٹھ کر بائیو میڑک کرانے آئیں گے۔
عمران خان کے فوٹو گرافر نعمان جی کو پولیس نے حراست میں لے لیا ہے۔
پولس نے نعمان جی کے ہمراہ دیگر 3 پی ٹی آئی کے کارکنان کو بھی قیدیوں والی گاڑی میں منتقل کر دیا۔
عمران خان کی اسلام آباد آمد کے موقع پر پی ٹی آئی رہنما سرور خان اور راجہ بشارت موٹر وے ٹول پلازہ پر کارکنان کے ہمراہ موجود تھے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی، سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی عبوری ضمانت کی 7 درخواستیں آج ہی سماعت کے لیے مقرر کر دیں۔
عدالت نے قرار دیا کہ چیف جسٹس اسلام آباد عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب ان درخواستوں پر سماعت کریں گے۔
عمران خان کی درخواستوں کو رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے ساتھ مقرر کیا گیا۔
رجسٹرار آفس نے ٹرائل کورٹ کے بجائے براہِ راست ہائی کورٹ آنے کا اعتراض عائد کر رکھا ہے۔
عمران خان کی جانب سے بائیومیٹرک نہ کرانے کا اعتراض دور کر دیا گیا ہے۔
اس سے قبل آج ہی اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان کی جانب سے مختلف مقدمات میں ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواستوں میں وفاقی حکومت و دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواستوں میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت فریقین کو درخواست گزار کی گرفتاری سے روکے، عدالت عمران خان کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور کرے۔
درخواستوں میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ عمران خان کو سیاسی انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے ان کے خلاف مقدمات درج کیے گئے۔
واضح رہے کہ یہ درخواستیں عمران خان کے خلاف اسلام آباد کے مختلف تھانوں میں درج مقدمات کے معاملے پر دائر کی گئی ہیں۔
اس سے پہلے دائر کی گئی عمران خان کی عبوری ضمانت کی 7 درخواستوں پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار کی جانب سے اعتراضات عائد کیے گئے تھے۔
عدالتِ عالیہ کے رجسٹرار آفس نے اعتراض عائد کیا کہ عمران خان نے بائیو میٹرک نہیں کرایا ہے۔
رجسٹرار آفس نے یہ اعتراض بھی عائد کیا کہ ٹرائل کورٹ سے پہلے ہائی کورٹ میں کیسے درخواست دائر ہو سکتی ہے؟
عمران خان کی پیشی سے متعلق وفاقی پولیس نے تیاریاں مکمل کر لیں۔
اسلام آباد پولیس حکام کے مطابق اس ضمن میں ساڑھے 25 سو اہلکار اسلام آباد ہائی کورٹ میں تعینات کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔
اسلام آباد پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ہائی کورٹ میں بم ڈسپوزل اسکواڈ کی ٹیم بھی موقع پر موجود ہے۔
اسلام آباد پولیس حکام نے بتایا ہے کہ سیکیورٹی پلان کو مختلف سیکٹرز میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔
اسلام آباد پولیس حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ آنسو گیس شیل، ربر کی گولیاں، واٹر کینن اور قیدی وین کے حوالے سے پلان فائنل کر لیا گیا ہے۔
عمران خان اپنی لیگل ٹیم کے ہمراہ لاہور سے اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچیں گے۔
چیئرمین پی ٹی آئی جوڈیشل کمپلیکس میں آج پیشی کے دوران درج مقدمات کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کریں گے۔
عمران خان 7 مقدمات میں عبوری ضمانتیں حاصل کرنے کے لیے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کریں گے۔
سابق وزیرِ اعظم کی عبوری ضمانتوں کے لیے آج ہی ڈائری برانچ سے نمبر لگنے کا امکان ہے۔
عمران خان کے خلاف مختلف دفعات کے تحت تھانہ رمنا، سی ٹی ڈی اور گولڑہ میں مقدمات درج ہیں۔
ذرائع پی ٹی آئی لیگل ٹیم کے مطابق سیکیورٹی خدشات کی بنیاد پر کیسز میں عمران خان کی عبوری ضمانتوں کی استدعا کی جائے گی۔