قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی قانون و انصاف نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کی منظوری دے دی۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 جائزہ کے لیے پیش کیا گیا تھا۔
اس موقع پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ کل قومی اسمبلی نے کہا کہ کوئی ایسا قانون نہ بنائیں جس کو چیلنج کیا جائے، بل کو غور کے لیے کمیٹی کے سپرد کیا گیا جس کا مقصد ہے کہ اعلیٰ ترین عدالت میں شفاف کارروائی ہو۔
اجلاس میں اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ یہ بل بار کونسلز اور شراکت داروں کا پرانا مطالبہ تھا، بار کونسلز کا کہنا تھا کہ 184 تین کے بے دریغ استعمال کو روکا جائے، پہلے اپیل کے حق سے افراد محروم تھے، اسے بل میں شامل کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اہم نوعیت کے کیسز کی چھ چھ ماہ سماعت نہیں ہوتی، سپریم کورٹ کے اندر سے بھی آوازیں آئیں، وقت تھا کہ پارلیمان اب اس پر قانون سازی کرے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ 184 تھری کا بے دریغ استعمال 2007/08 سے شروع ہوا، افتخار چوہدری کے بعد 3 ججز نے از خود نوٹس لینے سے اجتناب کیا پھر ثاقب نثار نے از خود نوٹس کا بے دریغ استعمال کیا۔
وزیر قانون نے کہا کہ آواز اٹھی کہ ون مین شو نہیں ہونا چاہیے، حالیہ دنوں میں 2 ججز کا بھی اس سے متعلق فیصلہ آ گیا ہے، کہا گیا کہ پارلیمان اس پر قانون لے کر آئے۔
انہوں نے کہا کہ عدالت کے سامنے معاملہ جاتا ہے تو ری ایکشن آئے گا، عدالت کی آزادی کی بات بار سے اٹھتی ہے، بار کے 2 گروپس نے اس بل کی تعریف کی۔
اجلاس میں اعظم نذیر نے کہا کہ حامد خان نے کہا بل وقت کی ضرورت تھی جس سے ادارے میں استحکام آئے گا، بل میں تجویز کردہ کمیٹی معاملے کو ریگولیٹ کرے گی۔
اجلاس میں نفیسہ شاہ نے کہا کہ ہم سب اس موجودہ صورت حال سے پریشان ہوئے، آئے دن ازخود نوٹس ہوئے، اسے ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
نفیسہ شاہ نے کہا کہ کچھ سوال اٹھ رہے ہیں کہ کل سو موٹو کے ذریعے اس بل کو ختم نہ کردیا جائے، سوال کیا جا رہا ہے کہ قانون کس وقت آ رہا ہے، قانون کی ٹائمنگ پر سوال اٹھ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سوال ہے کہ کیا 184 تھری پر آئینی ترمیم ہوگی یا سادہ قانون سے معاملہ حل ہوسکتا ہے۔
اجلاس میں محسن رانجھا نے کہا کہ آئین اور قانون سازی پارلیمان کا کام ہے اور اس کی تشریح عدلیہ کا کام ہے، جو ہمارا کام ہے وہ ہم کریں جو ان کا کام ہے وہ وہ کریں۔
محسن رانجھا نے کہا کہ لوگوں کا عدالتی قتل کیا جاتا ہے جو بند ہونا چاہیے، عمران خان کو صرف توشہ خانہ کیس میں ڈی سیٹ کیا، نواز شریف سے امتیازی سلوک ہوا، بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر تاحیات نااہل کیا گیا۔
اس موقع پر عالیہ کامران نے کہا کہ بل لانے کا وقت باکل درست ہے جبکہ عبدالقادر مندوخیل بولے کہ ماضی میں اسی عدلیہ نے آمر کو 239 کا اختیار دیا تھا کل پہلی مرتبہ پارلیمان جاگ گیا۔
عبدالقادر مندوخیل نے کہا کہ ججز وکلا کو ایسے القابات سے نوازتے ہیں کہ وکیل شرمندہ ہوجاتا ہے۔