• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ بظاہر حکومت کے پاس ایسی کوئی حکمت عملی نہیں،جس سے ملک کو اقتصادی اور سیاسی بحران سے نکالا جا سکے جبکہ معاشی حالات کے ساتھ ساتھ سیاسی نظام بھی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مندوخیل کے اختلافی فیصلے نے سیاسی ماحول میں مزیدپیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں جس سے سیاسی مسائل حل نہیں ہوں گے۔اس اختلافی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کے پاس بینچ بنانے کی بے لگام طاقت نے عدلیہ کاوقار مجروح کیا ہے اور یہ فیصلہ جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر کے فیصلے کا ہی تسلسل ہے۔یوں ازخود نوٹس چار ججوں نے مسترد کیا جس سے پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ متنازعہ ہو گیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے پہلے بھی کہا تھا کہ انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ پارلیمنٹ میں ہونا چاہئے۔ اب جب کہ سول سوسائٹی نے آگے بڑھ کر تمام سیاسی پارٹیوں کو ایک فورم پر اکٹھا کر کے اپنے سیاسی مسائل خود حل کرنے کی تجویز دی ہے جس کی تمام حلقوں کوپذیرائی کرنی چاہئے۔پاکستان کی سیاسی تاریخ اس امر پر مہر ثبت کرتی ہے کہ جب بھی سیاسی پارٹیوں نے مذاکرات کئے ، اس کے پاکستانی سیاست پر دور رس مثبت اثرات مرتب ہوئے۔ 1973ء کا آئین ، میثاق جمہوریت اور اٹھارویں ترمیم اس سلسلے میں ثبوت کے طور پر پیش کی جا سکتی ہیں۔آج جب کہ عمران خان نے سول سوسائٹی کی طرف سے بلائی گئی اے پی سی میں شمولیت کا اقرار کر لیا ہے تو جمہوریت کی بقا کیلئےیہ ضروری ہے کہ مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی اس کانفرنس میں ضرور شرکت کریں ۔ دوسری طرف عمران خان اپنی سیاسی حکمت عملی میں کامیاب دکھائی دے رہے ہیں لیکن ان کے پاس بھی موجودہ سیاسی اور اقتصادی بحران سے نکلنے کا کوئی پلا ن نہیں ہے جبکہ پی ڈی ایم کے پاس بھی کوئی سیاسی حکمت عملی دکھائی نہیں دے رہی اور نہ ہی وہ عمران خان کی ابھرتی ہوئی عوامی پذیرائی کے مقابلے میں کوئی حکمت عملی اپنا سکے ہیں۔

ایسے حالات میں جبکہ معیشت کی حالت دگر گوں ہے ،حکومت کو غیر روایتی فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ حال ہی میں چین نے خاموشی کے ساتھ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات بحال کروا دیے جس سے اس خطے پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ چین اس کے علاوہ روس اور یوکرائن کے درمیان جنگ بندی کیلئے بھی بھرپور کوشش کر رہا ہے ۔ ان حالات میں پاکستان میں مقیم بھارتی ناظم لامور نے لاہور میں سینئر صحافیوں اور چیمبر آف کامرس کے تاجروں کے وفد سے بات چیت کرتے ہوئے یہ مثال دی کہ پاکستان میں پیاز کی قیمت تین سوروپے فی کلو ہے جبکہ نئی دہلی میں یہی پیاز بیس روپے فی کلو میں فروخت ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گجرانوالہ پہلوانوں کا شہر ہے ۔ دونوں ملکوں کے درمیان کشتی اور کبڈی کے مقابلے ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تجارت بحال کی جائے اور بھارت کی مصنوعات کی وسطی ایشیا تک رسائیکیلئےپاکستان کی طرف سے تجارتی راہداری مہیا کی جانی چاہئے۔یاد رہے کہ افغانستان کے ایک سابق صدر نے کہا تھا کہ اگر پاکستان ہندوستان کو سینٹرل ایشیا تک تجارتی راہداری مہیا کرے ، تو اسے سالانہ پندرہ بلین ڈالر سے زیادہ کا فائدہ ہو سکتا ہے۔ آج کے غیر معمولی معاشی اور سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے حکومت کو فوری طور پر بھارت کے ساتھ تجارت اور اس راہداری کو کھول دینا چاہئے ۔ یاد رہے کہ ہندوستان اور چین شدید سرحدی تنازعات کے باوجود ایک سو بیس بلین ڈالرز کی تجارت کر رہے ہیں جس کا فائدہ چین کو ہو رہا ہے۔وہ کیا وجہ ہے کہ بھارت امریکی کیمپ میں ہونے کے باوجود چین سے خسارے کی تجارت کر رہا ہے ؟ ہمیں ان عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی پچھتر سالہ عداوتوں کو بھول کر آنے والی نسلوں کیلئے سوچنا ہوگا۔ بھارت کے ناظم الامور نے کہا کہ بھارت نے کبھی پاکستان کے ساتھ تجارت کوختم کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ پاکستان نے خود ہندوستان کے ساتھ تجارت پر پابندیاں عائد کیں۔پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ اس کا جغرافیائی محل وقوع اور لیبر فورس کا تقریبا ساٹھ فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ آج سارک ممالک کی آبادی ڈیڑھ ارب سے زائد نفوس پر مشتمل ہے اور یہ خطہ اب تک اپنےغریب عوام کو اقتصادی ثمرات فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ پاکستان پر بھی ہر سال پینتیس لاکھ سے زائد نئے نوجوانوں کا بوجھ پڑ رہا ہے جن کیلئے روزگار کے مواقع کسی بھی صورت مہیا نہیں کئے جا سکتے۔ان نامساعد حالات میں ہندوستان کے ساتھ تعلقات اور تجارت کی بحالی کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ ہندوستان کی معیشت مسلسل ترقی کر رہی ہے اور پاکستان سے راہداری نہ ملنے کے باوجود وہ ترقی کی راہ پر گامزن رہے گی۔کسی بھی ملک کی قومی سلامتی کا انحصار اس کے عوام کی صحت ، تعلیم ، مجموعی خوش حالی اور سیاسی شعور پر ہوتا ہے نہ کہ اسلحے کے انبار پر۔یاد رہے کہ یورپین قومو ں نے دوسری جنگ عظیم میں ہولناک تباہیوں کے باوجود امن و آشتی کی ایسی فضا پیدا کی کہ انہوں نے اپنی سرحدیں ختم کر دیں اور دنیا کو جدید فلاحی ریاستوں کا انمول نمونہ پیش کیا۔ہمیں بھی یہ سوچنا ہوگا کہ ہم وراثت میں ملی ہوئی اپنی سرزمین پر کس طرح امن، آشتی اور خوشحالی کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ نفرت اور جنگ ہمیںکسی منزل پر نہیں پہنچا سکتی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین