• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انتخابات ملتوی کیس سننے والا سپریم کورٹ کا لارجر بینچ ٹوٹ گیا

پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات ملتوی ہونے کے خلاف کیس سننے والا سپریم کورٹ کا لارجر بینچ ٹوٹ گیا۔

گزشتہ رات جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے جاری کیے گئے فیصلے کے تناظر میں لارجر بینچ میں شامل جسٹس امین الدین خان نے کیس سننے سے معذرت کر دی۔

آج سپریم کورٹ میں 5 رکنی لارجر بینچ سماعت کے لیے آیا۔

اس موقع پر چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ جسٹس امین الدین خان کچھ کہنا چاہتے ہیں۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کے تناظر میں کیس سننے سے معذرت کرتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز کے فیصلے کے بعد بینچ کارروائی جاری رکھنا چاہتا ہے۔

جسٹس امین الدین کے یہ بات کہنے کے بعد بینچ کورٹ روم سے چلا گیا۔

انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف کیس میں اب نیا بینچ تشکیل دیا جائے گا۔

کل جسٹس امین کے بغیر بینچ کے سامنے کیس مقرر ہو گا

پنجاب کے پی انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف کیس کی سماعت آج ہونا تھی جو لارجر بینچ ٹوٹ جانے کے باعث نہ ہو سکی۔

عدالتی عملے کے مطابق پنجاب کے پی انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے 11 بجے ہو گی، اسی وقت بینچ آئے گا۔

عدالتی عملے کے مطابق کل جسٹس امین الدین کے بغیر بینچ کے سامنے کیس مقرر کیا جائے گا۔

بینچ میں کون کون شامل تھا؟

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ انتخابات ملتوی کیس کی سماعت کر رہا تھا۔

جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل اس لارجر بینچ کا حصہ تھے۔

کیس کی سماعت کا وقت تبدیل

اس سے قبل انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف کیس کی سماعت کا وقت تبدیل ہوا تھا۔

سپریم کورٹ کے عدالتی عملے نے اس حوالے سے بتایا تھا کہ اس کیس کی سماعت ساڑھے 11 بجے کے بجائے 12 بجے ہو گی۔

جسٹس فائز کے فیصلے پر مشاورت

سپریم کورٹ آف پاکستان میں گزشتہ رات جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے جاری فیصلے پر ججز کی جانب سے مشاورت بھی کی گئی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ لارجر بینچ کے رکن جسٹس امین الدین کے گزشتہ رات جاری ہونے والے اس فیصلے پر دستخط موجود ہیں۔

فیصلے میں رولز بننے تک 184/3 کے تمام مقدمات پر سماعت روکنے کا حکم دیا گیا تھا۔

ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ ججز کی مشاورت اس بات پر ہوئی کہ فیصلے کا اطلاق موجودہ مقدمے پر ہوتا ہے یا نہیں؟

قومی خبریں سے مزید