پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کے انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف آئینی درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال ایک موقع پر عدلیہ کے معاملات پر ملک میں جاری تنقید پر اپنے جذبات قابو میں نہ رکھ سکے اور گلوگیر لہجے میں بولے ’’میرا بھی دل اور جذبات ہیں لیکن ہم تنقید کا جواب بھی نہیں دے سکتے،ایک جج کو سزا دینے کو کہا جارہا ہے،کیا ساتھی جج کو ذبح کردوں ،کبھی ان کے اثاثوں کی خبریں آجاتی ہیں اور کبھی آڈیو لیک ہورہی ہے،آج تک جوکچھ کیا ہے پوری ایمانداری سے اور اللہ کو حاضر ناظر جان کر، آئین اور قانون کے مطابق کیاہے۔‘‘ اس سلسلہ بیان میں چیف جسٹس نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سابقہ دور حکومت میں بنائے گئے ریفرنس کی بات بھی کی۔ یہ بھی بتایا کہ اسلام باد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اقبال حمیدالرحمن کو بھی انہوں نے میرٹ کے منافی بھرتیوں کے الزامات کے بعد وکلاء کے دباؤ پر استعفیٰ دینے سے روکا تھا۔ چیف جسٹس کے اس بیان پر الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر روسٹرم پر آگئے اور چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے بولے’’ آپ کو بھری عدالت میں آنسو نہیں بہانے چاہئیں،جب یہ سارے غلط کام ہورہے تھے اس وقت آپ کو انہیں روکنا چاہیے تھا۔‘‘ محترم چیف جسٹس کو اپنی ہی عدالت میں ایسی جذباتی کیفیت میں اپنی صفائی کن وجوہ سے پیش کرنی پڑی؟ اس سوال کے درست جواب ہی سے بہتری کی راہ واضح ہوسکتی ہے۔ عام طور پر چیف جسٹس جن حوالوں سے ہدف تنقید ہیں ان میں بنچوں کی تشکیل خصوصاً بیشتر آئینی معاملات کا چند مخصوص ججوں تک محدود رکھا جانا سر فہرست ہے جس نے ہم خیال ججوں کی اصطلاح کو جنم دیا ہے جبکہ پنجاب اور کے پی میں الیکشن کمیشن کو انتخابات کا متنازع حکم بھی اس صورت حال کا ایک بنیادی سبب ہے جس میں سات ججوں پر مشتمل بنچ کے اکثریتی فیصلے کا آرڈر آف دی کورٹ جاری نہیں کیا گیا بلکہ دو ججوں کو بنچ سے الگ کرکے پانچ ججوں پر مشتمل بنچ نے تین بمقابلہ دو کی اکثریت سے مختلف فیصلہ کردیا۔ جس پانچ رکنی بنچ کو اب مقدمے کی سماعت کرنی تھی جسٹس امین الدین دوروز پہلے اس بنچ سے اس بنا پر الگ ہوگئے کیونکہ از خود نوٹس کیس میں جسٹس عیسیٰ کے ساتھ ان کے فیصلے کو سرکلر کے ذریعے ختم کردیا گیا تھا جبکہ جسٹس جمال مندوخیل بنچ سے اس لیے الگ ہوگئے کیونکہ ان کے بقول فیصلہ ان کی مشاورت کے بغیر تحریر کردیا گیا۔ سات رکنی بنچ اس طرح تین ارکان پر مشتمل رہ گئی لیکن چیف جسٹس نے اپنی سربراہی میں اسی تین رکنی بنچ میں مزید سماعت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے ، اس بنچ نے اٹارنی جنرل کی جانب سے اس انتہائی اہم معاملے پرفل کورٹ بنانے کی درخواست کو مسترد کردیا ہے جبکہ وکلاء برادری اور سیاسی و عوامی حلقے عدالتی فیصلے کو معتبر اور سب کیلئے قابل قبول بنانے کی خاطر فل کورٹ کی تشکیل کی ضرورت کا اظہار بدرجہ اتم کررہے ہیں۔ عدلیہ کے بارے میں جاری منفی تبصروں کا ایک اور سبب وہ ویڈیو لیکس ہیں جنہوں نے متعلقہ جج کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے، ایسے معاملات میں بالعموم متعلقہ فرد خود ہی اپنے آپ کو منصب سے الگ کرکے منصفانہ تحقیقات کی راہ ہموار کردیتا ہے لیکن چیف جسٹس نے ساتھی جج کی بظاہر غیرضروری حمایت کا راستہ اختیار کررکھا ہے اور یہ طرزعمل سوالات پیدا کررہا ہے۔ان حالات میں عدلیہ پر اعتماد کی بحالی اسی طرح ممکن ہے کہ انتخابات کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کیلئے عدالت عظمیٰ کے تمام ججوں پر مشتمل بنچ تشکیل دے کر شفاف اور منصفانہ سماعت یقینی بنائی جائے ۔ یہ فل کورٹ جو بھی فیصلہ کرے گا وہ یقینا پوری قوم کیلئے معتبر اور قابل قبول ہوگا جبکہ مخصوص ججوں پر مشتمل بنچ کا فیصلہ ہماری عدالتی تاریخ میں ایک اور متنازع فیصلے کے اضافے کے سوا کچھ ثابت نہیں ہوگا۔