• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاعر: مولانا ماہر القادری

صفحات: 1400، قیمت: 4000 روپے

ناشر: رنگِ ادب پبلی کیشنز، اردو بازار، کراچی۔

مولانا ماہر القادری کا شمار اردو کے نام وَر شعراء میں ہوتا ہے۔ ماہر صاحب کو اُس زمانے میں بھی منفرد مقام حاصل تھا، جب برّ ِصغیر میں ہر طرف جگر مُراد آبادی کا طوطی بول رہا تھا۔ ماہر القادری ابتدا میں بہت رنگین مزاج آدمی تھے، کچھ عرصہ فلمی دنیا سے بھی وابستہ رہے اور گیت نگاری بھی کی۔وہ ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے، اُن کی زندگی کا ہر پہلو روشن تھا۔ اُنہوں نے غزل گوئی سے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا، پھر تمام اصنافِ سخن کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔ ایک نعت گو کی حیثیت سے بھی اُن کی نمایاں شناخت ہے۔ ان کا مقبول سلام’’سلام اُس پر کہ جس نے بیکسوں کی دستگیری کی…سلام اُس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی‘‘آج بھی زبان زدِ خاص و عام ہے۔

اُن کی نظموں’’قرآن کی فریاد‘‘ اور ’’جمنا کا کنارا‘‘ نے بھی بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ مولانا کی علمی اور تنقیدی بصیرت کا بھی ایک زمانہ معترف ہے۔ اُن کا رسالہ ’’فاران‘‘ ایک علمی و ادبی جریدہ تھا، جسے نقد و نظر کے حوالے سے عالمی شہرت ملی۔ بلا مبالغہ مولانا ماہر القادری اسلامی ادب کے سُرخیل تھے اور اُنہوں نے اسلامی ادب کے فروغ کے لیے اپنی زندگی وقف کردی تھی۔ شاعر علی شاعر اپنے ادارے کی جانب سے تمام قابلِ ذکر شعراء کے کلّیات چھاپ چُکے ہیں اور’’کلّیاتِ ماہر القادری‘‘ بھی اِسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جسے اُنہوں نے نہایت اہتمام سے دو جِلدوں میں شائع کیا ہے۔ 

کراچی میں مولانا ماہر القادری کے خاندان کا کوئی فرد نہیں، لہٰذا جن اداروں اور شخصیات سے اُن کی ذہنی، فکری اور نظریاتی وابستگی تھی، وہی اُن کے علمی و ادبی اثاثے کے وارث ہیں۔ ماہر صاحب ’’جمعیت الفلاح‘‘ کے بنیاد گزاروں میں شامل تھے، اِسی لیے شاعر علی شاعر نے جمعیت الفلاح کے صدر قیصر خان اور سیکریٹری، قمر محمّد خان کی تحریری اجازت کے بعد ’’کلّیات القادری‘‘ کی اشاعت کو یقینی بنایا۔ زیرِ نظر کلیات میں ماہر صاحب کا سارا مطبوعہ اور غیر مدوّن دست یاب کلام یک جا کردیا گیا ہے۔ 

تاہم ایک تصرّف یہ کیا گیا ہے کہ حمد و نعت پر مبنی سارا کلام ’’کلّیات‘‘ کے شروع میں رکھا گیا ہے۔ اس کلیات میں مولانا ماہر القادری کے فن اور شخصیت سے متعلق سیّد مقدس علی، ڈاکٹر خواجہ محمّد زکریا اور عبدالغنی فاروق کے مضامین بھی شامل ہیں۔ بیک، شاعر علی شاعر کی رائے سے آراستہ ہے۔ مولانا ماہر القادری نے ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ اُن کا کلام برّ ِصغیر کے تمام اہم ادبی جریدوں میں شائع ہوتا تھا۔ 1939ء سے1956ء تک اُن کے چھے شعری مجموعے منظرِ عام پر آئے،جن میں نعتیہ مجموعہ ’’ظہورِ قدسی‘‘ (1939ء)،’’محسوساتِ ماہر‘‘( 1941ء)، ’’نغماتِ ماہر‘‘( 1942ء)، ’’ذکرِ جمیل‘‘( 1944ء)،’’جذباتِ ماہر‘‘( 1944ء) اور ’’فردوس‘‘( 1956ء) شامل ہیں۔