اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی 8 مقدمات میں ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کے دوران سابق وزیرِ اعظم کے وکیل نے بتایا ہے کہ عمران خان عید کے بعد انسداد دہشت گردی کی عدالت کے سامنے سرینڈر کر دیں گے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے درخواستوں پر سماعت کی۔
دورانِ سماعت عمران خان کے وکیل سلمان صفدر اور فیصل چوہدری عدالت میں پیش ہوئے۔
وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کی جانب سے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست جمع کرائی ہے، آج وزیرِ اعظم کو آنا ہے اور سیکیورٹی وہاں ضروری ہے، حتمی طور پر تو ہمیں ٹرائل کورٹ ہی جانا ہے، عید کے بعد دوسرے یا تیسرے ورکنگ ڈے تک ریلیف دے دیں، اتنے کیسز ہیں اور تفتیش بھی جوائن کرنی ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ماتحت عدالتوں میں بھی ڈیکورم برقرار رکھنا چاہیے۔
وکیل سلمان صفدرنے بتایا کہ ابھی تک جے آئی ٹی نے تفتیش کے لیے بھی نہیں بلایا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ ابھی تو 15 رمضان ہے اور عید میں آدھا مہینہ ہے، ضمانت قبل ازگرفتاری میں 2 ہفتے کی تاریخ کیسے دیں؟
اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون روسٹرم پر آگئے جنہوں نے کہا کہ سیکیورٹی تھریٹ تو ان کو زندگی بھر رہیں گی، کروڑوں روپے سیکیورٹی پر خرچ آتے ہیں، یہ ایک تاریخ بتا دیں جس پر پیش ہوں گے۔
وکیل سلمان صفدرنے عدالت کو بتایا کہ عمران خان عید کے بعد انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے سامنے سرینڈر کر دیں گے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کوئی ایسا ریلیف نہیں دے سکتے جو کسی اور کو نہ دیا جا سکے۔
وکیل سلمان صفدرنے کہا کہ عمران خان کے خلاف بہت سے کرمنل مقدمات درج ہوچکے ہیں، معاشی بحران چل رہا ہے، سیکیورٹی پر بے پناہ خرچ آتا ہے، تفتیش جوائن کرنا انا کا مسئلہ نہیں ہے، عام حالات میں تھانے جا کر تفتیش میں شامل ہوتے ہیں، ہم نے کہا ہے کہ سوالنامہ دے دیں، ہم جواب دے دیتے ہیں، یہ بھی آپشن دیا کہ الزامات کے جواب میں تحریری بیان جمع کرا دیتے ہیں۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ عمران خان کے خلاف 140 کرمنل کیسز بنائے گئے ہیں، وہ مقدمات کی سینچری کر کے اب ڈبل سینچری کی طرف بڑھ رہے ہیں، عمران خان جس دن ہائی کورٹ میں پیش ہوں گے اسی دن سرینڈر کرنے ٹرائل کورٹ جائیں گے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اگر ہم آپ کی بات مان لیں تو یہ تو 3 ہفتے کا ٹائم بن جاتا ہے، امریکا کے سابق صدر تو عدالت میں پیش ہوئے اور فردِ جرم کا سامنا کیا۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ اس بحث میں نہیں جانا چاہتا، فلڈ گیٹ کھل جائے گا، 140 کیس کس پر ہوتے ہیں؟ ہمیں ایک سابق وزیرِ اعظم کو لاحق خطرات کو ختم کرنا چاہیے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہم صرف یہ دیکھ رہے ہیں کہ اس آرڈر کے نتائج کیا ہوں گے؟ دیکھنا ہو گا کہ کل کوئی اللّٰہ دتہ آئے گا تو کیا اسے بھی یہ ریلیف دے پائیں گے؟
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے سوال کیا کہ اگر عمران خان آئندہ سماعت پر بھی نہیں آتے تو کیا ہو گا؟
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ضمانت کے لیے پٹیشنر کا خود پیش ہونا ضروری ہے، اگر نہیں آتے تو قانون کے مطابق کارروائی ہو گی، ہم پہلے سے آرڈر میں کچھ لکھ کر ہاتھ نہیں باندھنا چاہتے۔
چیف جسٹس نے ؒاستفسار کیا کہ اسیسمنٹ کمیٹی تھریٹ کا جائزہ لے کر سیکیورٹی بڑھاتی ہے؟ آئی جی اسلام آباد نے مجھے بلٹ پروف گاڑی آفر کی تھی مگر میں نے منع کر دیا، آپ نے عمران خان کے لیے فول پروف سیکیورٹی کا نوٹیفکیشن دکھایا ہے، آپ نے عمران خان کو بطور سابق وزیرِ اعظم سیکیورٹی نہیں دی، اس کو سیکیورٹی واپس لینا ہی تصورکیا جائے گا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئی جی کے پاس اختیار ہے کہ وہ سیکیورٹی میں اضافہ کر سکتے ہیں، عمران خان کو چاہیے کہ آنے سے قبل آگاہ کریں کہ کب یہاں آ رہے ہیں۔
عدالت نے عمران خان کی 8 مقدمات میں 18 اپریل تک عبوری ضمانت میں توسیع کر دی اور ان کی آج کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواستیں بھی منظور کر لیں۔
وکیل سلمان صفدر نے استدعا کی کہ آخری گزارش ہے کہ 18 اپریل کو ساڑھے 11 بجے کا وقت مقرر کر دیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہم 18 اپریل کو یہ درخواست نمٹا کر آپ کو پروٹیکشن دے دیں گے۔
واضح رہے کہ آج ہی اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان کی جانب سے جوڈیشل کمپلیکس کے باہر توڑ پھوڑ سمیت 8 مقدمات میں حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی آج تک عبوری ضمانت منظور کر رکھی ہے۔
عدالتِ عالیہ نے عمران خان کو شاملِ تفتیش ہونے اور ہر پیشی پر حاضر ہونے کی ہدایت کی تھی۔