• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خوش قسمتی سے پاکستان کے معروف قانون دان جناب حامد خان نے آئین سازی اور سیاسی تبدیلیوں کی مختلف منزلوں کا احاطہ اپنی شہرہ آفاق تصنیف Constitutional and Political History of Pakistan میں کمال عمدگی سے کیا ہے، مگر اُردو دَان طبقے اُن سے کم ہی استفادہ کر پاتے ہیں، لہٰذا ہم اُن کی اور دِیگر مصنّفین کی بلندپایہ تحقیق سے اپنے قارئین کو عام فہم زبان میں زیادہ سے زیادہ فیض یاب کرنے کی کوشش کریں گے۔ 1909ء کی آئینی اصلاحات اپنی خوبیوں کے باوجود سیاسی قائدین کی توقعات پر پوری نہیں اتری تھیں، کیونکہ اُن سے حکومت سازی کے عمل میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں آئی تھی۔ کونسلوں کے انتخابات بالواسطہ تھے اور جائیداد اَور تعلیم کی پابندیوں کے سبب رائےدہندگان کی تعداد اِنتہائی محدود تھی۔ اِس کے علاوہ مخصوص مفادات کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی اور سیاست پر زمینداروں اور کاروباری طبقوں کے حاوی ہونے کے مواقع پیدا کئے گئے تھے۔ بدقسمتی سے حکومتِ برطانیہ نے مسلمانوں سے بار بار وَعدوں کے برعکس، بنگال کی تقسیم منسوخ کر کے انتہا درجے کی بےاصولی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اِس سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان سیاسی کشمکش یک لخت شدت اختیار کر گئی تھی۔ اُنہی دنوں دو اَیسی کتابیں منظرِعام پر آئیں جو مسلمانوں اور ہندوؤں کے تصوّرات کی ترجمانی کرتی اور متصادم رویّوں کو فروغ دے رہی تھیں۔ ایک شہرہ آفاق کتاب ’’مسدسِ حالی‘‘ تھی۔ مولانا الطاف حسین حالیؔ نے پیش لفظ میں لکھا تھا کہ مَیں نے مسلمانوں کے لئے ایک آئینہ خانہ تعمیر کیا ہے تاکہ وہ دَیکھ لیں کہ وہ کیا تھے اور اَب کیا ہو گئے ہیں۔ شاعر کا بڑا مقصد مسلمانوں کو جہالت، تفرقہ بازی، عدم برداشت اور خودغرضیوں کی پستیوں سے اٹھا کر ایک منظم اور متحد قوت میں ڈھالنا تھا۔ اُسی زمانے میں چترجی کا ناول ’’انندا ماتھ‘‘ شائع ہوا جس میں یہ دکھایا گیا کہ بنگال کے اندر مسلم عہدِ اقتدار کے دوران ہندوؤں پر بڑے ٘مظالم ڈھائے گئے ہیں۔ اِس اعتبار سے اُن کی جدوجہد انگریزوں کے بجائے مسلمانوں کے خلاف تھی۔ ناول میں زیادہ تر ذکر ماضی کا تھا، مگر قاری کے ذہن پر یہ نقش ثبت ہوتا جا رہا تھا کہ انگریز مسیحا بن کے اُن کی نجات کو آئے ہیں۔ تقسیمِ بنگال کی منسوخی کے تین برس بعد 1914ء میں پہلی جنگِ عظیم چھڑ گئی اور ترکی، برطانیہ اور اُس کے اتحادیوں کے خلاف جنگ میں شریک ہو گیا۔ ہندوستان کے مسلمان اُسے ملتِ اسلامیہ کا آخری سیاسی قلعہ سمجھتے اور بلقان اور طرابلس کی جنگوں میں اُس کے ساتھ والہانہ ہمدردی کا اظہار کرتے رہتے تھے۔ ترکی کا سلطان رسمی طور پر مسلمانوں کا خلیفہ تھا۔ اِس منصب کو خطرہ پیدا ہوا، تو ہندوستان کے مسلمانوں میں شدید اضطراب پھیلتا گیا۔ اُن میں بعض ایسے حساس لیڈر بھی موجود تھے جو برطانیہ کو شکست دینے کے لئےاندر سے فوجی بغاوت کو منظم کرنے کی تدبیریں سوچنے لگے تھے۔ اُن میں مولانا محمد علی جوہرؔ، مولانا محمود الحسن ، مولانا حسین احمد اور مولانا عبیداللّٰہ سندھی وغیرہ شامل تھے۔ ترکوں کی مدد کے لئے فنڈ قائم ہوا، تو سالہاسال خواتین اپنے قیمتی زیورات چندے میں دیتی رہیں۔ اِسی طرح مردوں کی طرف سے بھی برسوں بڑے پیمانے پر مالی امداد فراہم کی جاتی رہی جس سے اسلحہ خرید کر تُرک، برطانیہ کے خلاف برسرِپیکار رَہے۔ ’’تحریکِ خلافت‘‘ کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے علی برادران نے گاندھی جی سے تعاون کی اپیل کی۔ اُنہوں نے اِس موقع کو غنیمت جانا اور وُہ تحریکِ خلافت میں کود پڑے جس کی حمایت میں مسلمانوں کا ایک سمندر اُمنڈتا چلا آ رہا تھا۔ یہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین تعاون کا ایک عجیب و غریب دور تھا۔ دونوں قوموں کے درمیان تمام اختلافات ختم ہو گئے تھے اور وُہ آپس میں اِس طرح شِیر و شکر دکھائی دیتے جس کا تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ مسلمان بےجھجک مندروں میں جانے لگے اور مسجدوں میں غیرمسلموں کا سواگت ہونے لگا۔ دوستیوں کو مضبوط کرنے کے لئےپگڑیاں تبدیل کی جا رہی تھیں۔ اِس پوری صورتِ حال سے گاندھی جی نے پورا پورا فائدہ اُٹھایا، کیونکہ ترکِ موالات اور تحریکِ خلافت کی ابھرتی ہوئی قوت سے برطانیہ سخت دباؤ میں آتا جا رہا تھا۔ عوامی تحریکوں کے شانہ بہ شانہ آئینی مسائل پہ سیاسی قائدین کے درمیان گفت و شنید کا سلسلہ بھی چل نکلا تھا۔جناب محمد علی جناح انگلستان سے بیرسٹری کر کے ہندوستان واپس آ کر کانگریس کے ساتھ وابستہ ہو گئے تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ ہندو مسلم اتحاد سے جلد آزادی حاصل کی جا سکے گی۔ اُنہوں نے مسلم لیگ سے بھی رابطے قائم کر لئے اور اُسے 1915ء میں اپنا سالانہ اجلاس کانگریس کے ساتھ بمبئی میں ملی جلی تاریخوں میں منعقد کرنے پر راضی کر لیا۔ یہاں دونوں جماعتوں کی کمیٹیاں اِس غرض سے قائم کی گئیں کہ باہمی گفت و شنید کے ذریعے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان سیاسی سمجھوتے کی راہ نکل آئے۔ اگلے سال اُن کمیٹیوں نے ہندوستان کے آئندہ سیاسی مطالبات کے متعلق ایک اسکیم پر اتفاق کر لیا۔ دسمبر 1916ء میں دونوں جماعتوں کے سالانہ اجلاس لکھنؤ میں ہوئے جن میں کمیٹیوں کی سفارشات منظور کر لی گئیں۔ تاریخ میں یہ سمجھوتہ ’’میثاقِ لکھنؤ‘‘ کے نام سے محفوظ ہے۔ اِس آئینی سمجھوتے میں جداگانہ انتخابات پر اتفاق ہوا، مگر مسلمانوں کے تحفظ کے نقطۂ نگاہ سے ایک شق اِس سے بھی کہیں زیادہ اَہم تھی کہ اگر کسی مجلسِ قانون ساز کا کوئی غیرسرکاری ممبر ایسی قرارداد یا مسودہ پیش کرے جسے کسی فرقے کے ممبروں کی تین چوتھائی تعداد اپنے فرقے کے لئےنقصان دہ یا ناقابلِ قبول قرار دَے، تو ایسی قرارداد یا مسودہ کو زیرِبحث نہیں لایا جائے گا۔ برطانوی حکومت نے یہ شق 1919ء کے ایکٹ میں شامل نہیں کی، مگر یہ مطالبہ مسلمانوں کے بنیادی مطالبات میں شامل رہا۔ 1916ء کے سمجھوتے نے وقتی طور پر جناب محمد علی جناح کا خواب پورا کر دیا۔ دونوں جماعتیں ایک شہر میں سالانہ اجلاس منعقد کر رہی تھیں۔ پھر عدم تعاون اور سول نافرمانی کی احتجاجی تحریکیں اُٹھ کھڑی ہوئیں جو مسٹر جناح کے نزدیک افراتفری کو دعوت دینے کے مترادف تھیں۔ وہ 1920ء میں کانگریس سے مستعفی ہو گئے۔ ہندو مسلم اتحاد کا چند برسوں پر محیط مختصر دورانیہ آگے چل کر دو قوموں کے درمیان نئی اور طویل کشمکش کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین