• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ن لیگ کے قائد میاں نوازشریف کی صلاحیتوں کا لوہا کوئی مانے نہ مانے یہ درویش ضرور مانتا ہے۔ اس وقت ہماری قومی سیاست میں جو ارتعاش پیدا ہوا ہے، اس کی ڈوریاں اسی نواز شریف کے ہاتھوں میں ہیں جسے ان کے مخالفین اکثر و بیشتر لندن پلان کا نام دیتے ہوئے جلتے کڑھتے رہتے ہیں۔

عوام تو رہے ایک طرف ہمارے بہت سے بلند بانگ دانشوروں کو بھی یہ سمجھ نہیں آرہی کہ آگے کیا ہونے جارہا ہے؟ بہت سے اس الجھن کا شکار ہیں کہ سپریم کورٹ جیسے آئین کے کسٹوڈین ادارے سے ’متھا‘ لگانا بڑا خطرناک فیصلہ ہے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ شہباز شریف کو گھر بھیج دیا جائے گابلکہ ن لیگ اور اس کی حکومت کا بیڑا بھی غرق ہوجائے گا۔ طاقتوروں کا تو کوئی اعتبار نہیں ہوتا ان کی دوستی اچھی نہ دشمنی، نہ جانے کب وہ آنکھیں دکھا دیں۔ ان کے بہکاوے میں آکر پہلے ن لیگ مقبولیت کے ہمالہ سے پاتال کی تاریکی میں گری ہے اور پھر نوازشریف کی تو کبھی کسی آرمی چیف سے بن ہی نہیں سکی۔

دوسری جانب جناح ثالث اپنی مقبولیت کے زعم میں مبتلا ہے۔ جب بھی الیکشن ہونگے وہ ان سب کو پچھاڑ یا دبوچ کررکھ دے گا۔ کتنی دیر بھاگو گے ؟الیکشن تو بالآخر کروانے ہی پڑیں گے۔ اب تو سپریم کورٹ کی ننگی تلوار بھی تمہارے سروں پر لہرا رہی ہے۔ اس کے کارندے طاقتوروں سے معاملات سیدھے کرنے کیلئے بھاگے پھر رہے ہیں۔ کسی بھی وقت کوئی ایسی خبر آسکتی ہے جو کھیل کا پانسا پلٹ کر رکھ دے گی کیونکہ عمران خان نے انہیں ناکوں چنے چبوا کر رکھ دیے ہیں۔اس تمام تر پروپیگنڈےکے باوجود درویش معاملات کو دوسری طرف جاتے دیکھ رہا ہے۔ مانا کہ اس وقت سوسائٹی کی طرح ہمارے ادارے بھی منقسم ہیں حتیٰ کہ ہماری سپریم جوڈیشری آج جیسے حالات سے گزررہی ہے، پچھلی پون صدی کی تاریخ میں شاید ایسی صورتحال حال کبھی نہیں ہوئی۔ بظاہر وہ پوری طاقت سے آئین کی ماں یعنی پارلیمنٹ کے بالمقابل کھڑی ہے لیکن اندر سے کھوکھلی ہے۔ ن لیگیوں یا ان کے اتحادیوں کو چاہئے کہ وہ یہ پروپیگنڈہ کریں کہ اگر نوے دن میں انتخابات کروانا ایک آئینی تقاضا ہے جسے پامال کیا گیاتو قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کروانا بھی ویسا ہی آئینی تقاضا ہے جس پر اکتوبر میں لازماً عمل ہوگا اور یہ کہ اسمبلیاں ناجائز طور پر کیوں توڑی تھیں؟ استعفے کیوں دیے تھے؟

آپ لوگ امتحان کی اس گھڑی میں مضبوط اعصاب کے ساتھ سپریم جوڈیشل کونسل کو بہر صورت متحرک کروائیں۔ اتنی بڑی آئین شکنی اور پارٹی بازی ہورہی ہے جو اپنے تئیں منصفی و چوکیداری کا دعویدار ہے۔ وکلا برادری کو بھی اس حوالے سے متحرک کیجئے۔ پارلیمنٹ کی ساورنٹی و بالادستی منوانے کا اس سے نادر موقع ہاتھ نہیں آئے گا۔ بظاہر جو نقصان ہو رہا ہے کرواتے چلے جائیں لیکن اپنے مؤقف پر سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹ کر کھڑے رہیں۔ اس کے ساتھ ہی تمام جمہوریت نواز سیاستدان یہ عہد کرلیں کہ اگلی پارلیمنٹ جیسے تیسے اختلافات کے باوجود غیر منتخب اشخاص یا محکموں کو پارلیمنٹ کی عظمت کے تابع کرنے کے لئے ٹھوس آئینی ترامیم کرے گی تاکہ اس نوع کی آمرانہ سوچ آئندہ نہ سر اُٹھا سکے۔

اسی تمام تر جدوجہد کا کریڈٹ تین مرتبہ وزیراعظم منتخب ہونے والے رہنما نوازشریف کو جاتا ہے جس نے طاقتور تقرری پر پامردی کے ساتھ اسٹینڈ لیا ورنہ ان کی پارٹی کے بہت سے لیڈر بشمول چھوٹے بھائی باجوہ ڈاکٹرائن کا شکار ہوئے پڑے تھے۔ رہ گئی جناح ثالث کی کے ٹو پر چڑھی مقبولیت تو اسے نیچے گرتے زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ یہاں مقبولیت کے بڑے بڑے دعویدار آئے ہیں جو کہتے تھے کہ اگر ہمارے ساتھ کچھ ہوا تو پنجاب کے دریا سرخ ہوجائیں گے مگر جب آہنی ہاتھ پڑا تو کوئی چڑیا بھی نہیں پھڑکی۔ دو تہائی اکثریت والے کو براستہ جیل دیس نکالا دے دیا گیا۔

احباب کا سوال ہے کہ اگلا سیٹ اپ کیا ہو سکتا ہے؟ جواب ہے کہ اس کا فیصلہ حسبِ روایت پنجاب سے ہی ہونا ہے۔ جو لوگ اس نوع کے بعید از قیاس تجزیے کرتے ہیں کہ اگلا طاقت ور کھلاڑی سندھ سے اُتارا جائے گا تو وہ بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ وہ جب پنجاب سے فارغ ہے تو گیم بھی اس کی نہیں بن سکتی۔ درویش کا گمان ہے کہ اگلی حکومت بھی اتحادی ہی ہوگی جس کی قیادت بڑے میاں صاحب خود کرسکتے ہیں ۔ اتحادی بالخصوص ن لیگی یہ سمجھ لیں کہ ان کا اصل حریف کوئی کھلاڑی یا اناڑی نہیں اس ملک کی ڈوبتی ہوئی معیشت ہے۔ جب ملک ڈوب رہا ہوگا تو آپ لوگ کیسے تیر سکیں گے؟ بہرحال آپ سب لوگ نوازشریف کا شکریہ ادا کرو جس نے تمام سیاسی وعدالتی بحرانوں اور طوفانوں سے آپ لوگوں کو کس خوبصورتی سے نکالا ہے۔

تازہ ترین