تحریر: نرجس ملک
مہمانانِ گرامی: حسن ضیاء خان اینڈ فیملی
عکّاسی و اہتمام: عرفان نجمی
لے آؤٹ: نوید رشید
دنیا کی آٹھ ارب کی آبادی میں سے اگر اللہ نے ہمیں بحیثیت مسلمان اپنے دین کی اطاعت و پیروی کے لیے چُنا، اپنےمحبوب، آخری نبی حضرت محمّد مصطفٰیﷺ کے اُمّتی ہونے کا شرف بخشا ہے، تو یقیناً یہ ہماری خُوش بختی و خُوش قسمتی ہی ہے اور پھر یہ بھی ہماری خُوش بختی ہی ہے، جو ایک بار پھر ماہِ رمضان جیسا تمام مہینوں کا سردار مہینہ، ہم پر سایہ فگن ہے اورہم اس کےدامن سےجھولیاں بَھربَھر رحمتیں، برکتیں اور نعمتیں سمیٹ رہے ہیں۔ حضرت سلمان فارسیؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ماہِ رمضان سے متعلق ارشاد فرمایا کہ ’’یہ بہت افضل اور مبارک مہینہ ہے۔
اِس میں ایک رات ایسی ہے، جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے روزوں کو فرض فرمایا اور اس کے رات کے قیام کو ثواب کی چیز ٹھہرایا۔
جو شخص اِس مہینے میں کوئی نفلی نیکی بجا لائے گا، تو وہ ایسے ہی ہے، جیسا کہ عام دِنوں میں فرض کا ثواب ہو اور جو شخص اِس مہینے میں کسی فرض کو ادا کرے گا، وہ ایسا ہے، جیسے غیر رمضان میں ستّر فرائض ادا کرے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنّت ہے۔
یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں مومن کا رزق بڑھایا جاتا ہے۔ جو شخص کسی روزے دار کا روزہ افطار کروائے، وہ اُس کے لیے گناہوں کی معافی اور آگ سے نجات کا سبب ہوگا اور اُسے روزے دار کے ثواب کے برابر ثواب ملے گا، مگر روزہ دار کے ثواب سے کچھ بھی کمی نہیں ہوگی۔ یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کا اوّل حصّہ رحمت، درمیانی حصّہ مغفرت اور آخری حصّہ جہنم کی آگ سے آزادی کا ہے۔‘‘(ابنِ خزیمہ)
اسی طرح ایک اور روایت میں حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے قسم کھا کر فرمایا کہ ’’تم پر ایسا مہینہ سایہ فگن ہوگیا ہے کہ مسلمانوں پر اِس سے بہتر مہینہ اور منافقین پر اس سے بُرا مہینہ کبھی نہیں آیا۔‘‘ جب کہ ایک اور روایت میں حضرت ابو مسعود غفاریؓ بیان کرتے ہیں کہ رمضان کا مہینہ شروع ہوچُکا تھا کہ ایک دن مَیں نے نبی کریمﷺ کو فرماتے ہوئے سُنا کہ ’’اگر لوگوں کو رمضان المبارک کی فیوض وبرکات کا علم ہوتا، تو وہ تمنّا کرتے کہ پورا سال رمضان ہی ہو۔‘‘(ابن خزیمہ)
ماہِ عظیم کے حصّہ اوّل و دوم، عشرۂ رحمت و عشرۂ مغفرت تمام ہوئے۔ اور ہر ایک اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہےکہ ہم پچھلے کتنے عرصے سے مستقل سُن رہے ہیں کہ مُلک ڈیفالٹ ہونے جارہا ہے، مُلک دیوالیہ کی طرف بڑھ رہا ہے، مگر پاک پروردگار نے اِس مقدّس و محترم، بابرکت و باسعادت، اپنے بہت پیارے، لاڈلے مہینے کے طفیل لوگوں کو کیسے صلہ ٔ رحمی، وسعتِ قلبی، کُشادہ دلی کی توفیق عطا کی ہے کہ جن کے دستر خوان وسیع ہوتے تھے، وہ تو مزید وسیع ہوئے ہی، لیکن جنہیں دو وقت کی دال، روٹی بھی بمشکل نصیب ہو رہی تھی، اُن کے لیے بھی کہاں کہاں سے اور کیسے کیسے سبیلیں نہیں بنیں۔ یہ سحر و افطار کے گلی محلوں، سڑکوں، چوکوں، چوراہوں کے مناظر اور گھر گھر بِچھے امن و آشتی کے دستر خوانوں کے نظارے ایک مسلمان ہونے ہی کا اعجاز و ثمر ہیں۔
ہماری آج کی بزم، ماہِ صیام کے کچھ بیش قیمت، اَن مول و بے مثل لمحات ہی کی عکّاسی سے مزیّن ہے، تو اِسے ہماری طرف سے آخری تحفہ برائے رمضان سمجھ کے قبول فرمائیے۔