تحریر: نرجس ملک
مہمان: سعدیہ احمد
ملبوسات : شاہ پوش
آرائش: دیوا بیوٹی سیلون
عکّاسی: عرفان نجمی
لےآؤٹ: نوید رشید
اصغر حسین مجیبی کی ’’حُسن‘‘ کے عنوان سے ایک نظم ہے ؎ دنیا میں کیا نہیں حسیں…بے حُسن کوئی شئے نہیں… حُسن ہے لالہ زار میں… کیفیتِ بہار میں… سینۂ داغ دار میں… نرگسِ سوگوار میں… سبزۂ جوئبار میں… موسمِ خُوش گوار میں… وادی و کہسار میں… جلوۂ حُسن ہے نہاں… شورشِ آب شار میں… ناز و ادا میں حُسن ہے… شرم وحیا میں حُسن ہے… چشم وفا میں حُسن ہے… طرزِ جفا میں حُسن ہے… رنگ ِحنا میں حُسن ہے… لغزشِ پا میں حُسن ہے… نے کی صدا میں حُسن ہے… حُسن ہے، سوز و ساز میں… طرزِ دُعا میں حُسن ہے… حُسن نہاں سحاب میں… ذرّہ و آفتاب میں… موج کے پیچ و تاب میں… جلوۂ ماہتاب میں… سیلی زدہ سراب میں… قمقمۂ حباب میں… بحر کے اضطراب میں… سیلِ رواں میں حُسن ہے… حُسن گہر کے آب میں… رنج و محن میں حُسن ہے…لُطف میں ہے، کرم میں ہے… حُسن سرِنیاز میں… سجدہ گہہ نماز میں… دیدۂ نیم باز میں… چشمِ فسوں طراز میں… چہرۂ دل نواز میں… سلسلۂ دراز میں… حُسن سکوتِ ساز میں… کیفِ تپش میں حُسن ہے … حُسن شہیدِ ناز میں۔ بلاشبہ قدرت کی ہر تخلیق مظہرِ حُسن وجمال ہے۔ اُس کی صنّاعی و کاری گری، ہُنرمندی وہُنرکاری کا نہ کوئی مول ہے، نہ ثانی اور نہ ہی کوئی صنعتِ پروردگار کو مکمل طور پر سمجھنے کا دعوے دار ہو سکتا ہے۔ مگر یہ طے ہے کہ اُس نے فطری شرم و حیا اور لاج، شرم کے اظہار میں جو حُسن و دل کشی رکھی ہے، اُس کا کوئی مقابل، ثانی، نعم البدل ہی نہیں۔
نبی کریمﷺ کافرمان ہے کہ ’’حیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔‘‘(بخاری) اور ’’حیا اور ایمان دونوں ایسے ساتھی ہیں کہ جب اُن میں سے ایک اُٹھ جاتا ہے، تو دوسرا بھی اُٹھالیا جاتا ہے۔‘‘(مستدرک حاکم) پھر فرمایا ’’حیا ایمان کا جزو ہے اور ایمان جنّت میں لے جائے گا اور بے حیائی ظلم ہے اور ظلم جہنّم میں لے جائے گا۔‘‘ (ترمذی) اور یہ کہ ’’حیا نیکی ہی لاتی ہے۔‘‘(صحیح بخاری) اور پھر وہ حدیث، جس کے ایک جملے میں ایسی جامعیت و کاملیت ہے کہ اُس کے بعد پھر موضوعِ حیا پہ کہنے کو کچھ رہ ہی نہیں جاتا کہ ’’جب تُو حیا نہ کرے، تو پھر جو چاہے کر۔‘‘ (سنن ابودائود)
تو ذرا غور کریں کہ دین میں شرم وحیا کی کس قدر تاکید و تلقین کی گئی ہے۔ اور جب بات شرم و حیا کے اظہار کی ہوتی ہے، تو قلب و نگاہ کی حیا اپنی جگہ، مگر عملی اظہار کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ انسان کا ظاہری لباس، اُس کے باطنی خواص کا آئینہ دار ہو۔ مطلب حیادار شخص کی پوشاک سے بھی اُس کی شرم وحیا ظاہر ہونی چاہیے۔ اور ہماری آج کی بزم گویا ’’شرم و حیا میں حُسن ہے…‘‘ ہی کی عملی تفسیر ہے۔ دیکھیے، ملٹی شیڈڈ قمیص شلوار کے ساتھ نیٹ کا سفید دوپٹا کیسا اُجلا سا تاثر دے رہا ہے۔ ایک اور ملٹی شیڈڈ پہناوے کے ساتھ میچنگ دوپٹا ہے، تو بیج رنگ پلین ٹرائوزر کے ساتھ پرنٹڈ قمیص اور بیج رنگ ہی کا نیٹ کا دوپٹا ہے۔ پھر آتشی گلابی رنگ ٹرائوزر، فراک کے ساتھ شیفون کا سفید رنگ دوپٹا انتہائی بھلا معلوم ہو رہا ہے، تو سفید رنگ شلوار کے ساتھ کِھلےکِھلے رنگوں کے قمیص، دوپٹے کا بھی جواب نہیں۔
ایک روزہ دار کو مجسّم روزہ دار نظر آنا ہی چاہیے اور ہمارا یہ انتخاب یہ امر بحُسن و خُوبی انجام دے سکتا ہے۔