• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان تحریک انصاف کی مختصر تاریخ کے اوراق پر موجود حقائق یہ شکوہ کرتے ہیں کہ پارٹی کسی مسلمہ نظریہ، جمہوری سوچ اورقومی سلامتی کے تصور پر یقین نہیں رکھتی بلکہ تشدد پسندی کا راستہ اس کی جدوجہد کی بنیاد رہی ہے۔ ان کے منشور کا بنیادی جزو اقتدار کے حصول کے لئے کوئی بھی حد عبور کرنے کے نظریہ پر عمل کرنے پر یقین رکھتی ہے۔اس کی قیادت اور ان کا 'نظریہ ضرورت‘ ماننے والے ہر شخص کے لئے اپنی جائز یا ناجائز خواہش کی تکمیل کے لئے کوئی بھی آئینی یا غیر آئینی، اخلاقی یا غیر اخلاقی، پر امن یا پر تشدد راستہ اختیار کرنا ہر طرح سے جائز ہے لیکن کوئی دوسری پارٹی وہی راستہ اختیار کرے تو ان کا یہ فعل غداری، ملک دشمنی اور شرپسندی پر مبنی قرار پاتی ہے۔تحریک انصاف کی اس سوچ کی نفی یا ان سے اختلاف کرنے والوں کا ماننا ہے یہ جماعت کسی تبدیلی کے لئے امن کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے عوامی طاقت کے غلط استعمال کے ذریعے جلاؤ گھراؤ کے منفی عمل کو جائز سمجھتی ہے اور پرتشدد راستے پر چل کر منزل حاصل کرنا ان کے سیاسی شعار اور عقائد کے بنیادی اجزاء میں شامل ہے۔

سیاسی رموز سے آگاہی رکھنے والے ناقدین کا ماننا ہے تحریک انصاف کی سیاست میں شدت پسندی کا زہر 2014میں 126روز کے دھرنے کے دوران شامل ہوا۔کبھی تاریخ رقم طراز ہو گی کہ تحریک انصاف کی مقبولیت سے استفادہ کرنے کی کوشش میں اس کی خیر خواہی کا دعویٰ کرنے والے شیخ رشید جیسی شخصیت نے دھرنے کے دوران طاقت کے استعمال کی ترغیب دی اور جلاؤ گھیراؤ کا راستہ دکھایا اور نوجوان نسل جو اس جماعت کی اساس تھی، باور کرایا کہ تشدد کے علاوہ اقتدار کی منزل تک پہنچنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں اور اس کی تائید و تقلید نوجوان نسل کے قائد عمران خان نے یہ سمجھتے ہوئے کی کہ اقتدار کے ایوانوں تک رسائی کا اس سے سہل اور مؤثر راستہ کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔تشدد پسندی کی اس "کامیاب" پالیسی کا زہر عمران خان کے ذریعے نوجوان نسل کے دل دماغ میں سراعیت کرتا چلاگیا اور یہ زہر نظام کی تباہی کے عمل پر منتج ہوا جس کی ابتداء عمران خان نے اسی دھرنے کے دوران اعلان بغاوت، سول نافرمانی اور جنگ گروپ سمیت ان کی منفی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے صحافیوں اور میڈیاہاؤسز کے خلاف انتقامی کارروائیوں سے کی۔ناقدین کا تجزیہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کے زور پراور ان کی پشت پناہی میں بغاوت، لاقانونیت، سول نافرمانی، بد زبانی، بداخلاقی،تکبر، غرور، الزام تراشی، بے حسی، شدت پسندی اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے ہنر کو سیاست میں متعارف کرایا اور ان بنیادی برائیوں کو "جہاد" کے نظریے کے نام پر نوجوان نسل کی رگوں میں اتار کر گمراہی کے راستے پر ڈالا گیا۔اس گمراہی کی بے شمارمثالیں تحریک انصاف کی مختصر تاریخ کے اوراق پر بکھری پڑی ہیں جن پر ملک اور ریاست کی تضحیک اور بے توقیر کرنے کے سیاہ دھبے نمایاں طور پر موجود ہیں۔ اس منفی سوچ کی حوصلہ افزائی کبھی اسٹیبلشمنٹ اور کبھی عدلیہ نے کی جنہوں نے عمران خان کے لئے انصاف کے علیحدہ پیمانے قائم کئے اور انصاف کے ترازؤں کا جھکاؤ علی الاعلان عمران خان کی جانب کر کے ریاست دشمنی میں عمران خان کے ساتھ کھڑے ہو گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک بحرانوں میں پھنستا چلا گیا جو عمران خان کے پیدا کردہ تھے لیکن عدلیہ "عدل" کی بیساکھیوں کے سہارے عمران خان کے ساتھ کھڑی رہی اور عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے اشتراک سے ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کی یادیں تازہ کرتی رہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج ریاست بحرانوں کا شکار ہے، آج آئین اور قانون کو ٹھوکر کی نوک پر رکھنے والے کئی علی امین گنڈاپور ریاست پر یلغار کے لئے موجود ہیں جن کے پیچھے ریاست نہیں عدلیہ کھڑی ہے۔آج بھی سینکڑوں گنڈاپور عمران خان کے ایک اشارے پر غیر علاقوں سے ہزاروں مسلح دہشتگردوں کے ذریعے اسلام آباد پر قبضہ کرنے کے لئے تیار ہیں جو شائد عدل کے ایوانوں کی نظروں میں نہیں ہیں۔شائد یہ شرانگیزیاں ایوان عدل کی نگاہوں سے اوجھل ہیں جب عمران خان کے لانگ مارچ سے قبل گنڈاپور نے ممنوعہ اسلحہ سے لیس جتھوں کو بنی گالا میں عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر جمع کر لئے تھے جو امن میں خلل کے علاوہ اسلام آباد پولیس کے لئے چیلنج بن گئے تھے۔

ہر دور میں وہ ریاستی نمائیندے عمران خان کے نشانے پر رہے جو ان کی خلاف کسی ریاستی کارروائی کا حصہ بنے۔دھرنے کے دنوں میں اشتعال انگیز تقاریر کے دوران اس وقت کے آئی۔جی اسلام آباد کو دھمکیاں دیتے ہوئے اعلان کیا جاتا کہ "تیموری! تمہیں نہیں چھوڑوں گا" جبکہ موجودہ دور میں ایک جج صاحبہ جنہوں نے ان کی خواہش کے برعکس ان کے خلاف فیصلہ دیا تھا، انہیں دھکیاں دیں، موجودہ وزیر داخلہ اور آئی جی اسلام آباد بھی مستقل ان کے نشانے پر ہیں۔

انتظامی اور قانونی ماہرین کا مؤقف ہے کہ معاشی، انتظامی اور سیاسی بحرانوں کی سنگینی میں اس وقت تک اضافہ ہوتا رہے گا جب تک عدل کے تقاضے بلا خوف و عناد اور بلا امتیاز پورے نہیں کئے جائیں گے۔امتیازی انصاف ریاستی قدروں کی تنزلی اور انجام کار تباہی کا سبب بنتا ہے۔لیکن یہ قوم رب عظیم کی شکر گزار ہے کہ ان حالات میں بھی عدل کی اعلیٰ اقدار کے مطابق انصاف پر ایمان اور یقین رکھنے والے عادل موجود ہیں جو ملک و قوم کو مایوسی کے اندھیروں سے نکال روشن مستقبل عطا کرنے کی اہلیت اور استطاعت رکھتے ہیں۔

تازہ ترین