تین نومبر 2007ء کو ایمرجنسی کا نفاذ ایک ناگزیر کارروائی تھی۔ جنرل مشرف قوت اور اختیارات کا تمام تر ارتکاز اپنی ذات میں نہیں چاہتے تھے حالانکہ ایسی کارروائیوں کا مقصد زیادہ سے زیادہ اختیارات کو اپنے ہاتھ میں رکھنا ہوتا ہے لیکن جنرل مشرف اختیارات سے دستبردار ہونے کے لئے تیار ہو گئے تھے تاہم اس وقت کی اعلیٰ عدلیہ، جس کے کچھ اپنے تصورات تھے، ان کے لئے رکاوٹ بن رہی تھی۔ وکلاء کے دل میں اپنی معرکتہ الآرا تحریک کی کامیابی کا نشہ تھاتو میڈیا بھی ملنے والی آزادی (جس کاکریڈٹ پرویز مشرف کے سوا کسی کو نہیں جاتا) کی وجہ سے ایک منہ زور طاقت کے طور پر سامنے آچکا تھا۔ ہم سب کی خواہش تھی کہ جنرل مشرف اپنی وردی اتاردیں اور ایسا کرتے ہوئے فوج کو اپنے اختیار سے آزاد کر دیں لیکن یہ سب کچھ تین نومبر کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا۔ مشرف کا آرمی چیف رہنا انتخابی عمل کو متاثر کر سکتا تھا۔ وہ لوگ جو مشرف کے خلاف غصے سے بھرے بیٹھے ہیں ان کے لئے اس دلیل کی تفہیم اتنی مشکل کیوں ہے؟
جنرل مشرف کے صدارتی انتخابات کو چیلنج کیا جاچکا تھا کہ وہ بطور حاضر سروس آرمی چیف انتخابی عمل میں حصہ لینے کے اہل نہیں ہیں۔ وکلاء تحریک کی کامیابی چیف جسٹس افتخار چوہدری جن کی فعالیت مثال بن چکی ہے، کی بحالی کے بعد سب کو اس بات کا احساس تھا کہ اب دیگر جج صاحبان ، جن کے فرمودات کا میڈیا کی زنیت بننا ایک معمول بن چکا تھا، مشرف کے خلاف فیصلہ سنائیں گے۔ یہاں یہ بات بھی عیاں ہورہی تھی کہ اگر جنرل کے خلاف فیصلہ آیا تو بھی وہ فوج کے چیف رہیں گے اور پھر ایسی صورت میں ہم کیا کرسکتے تھے؟ جب فوجی جنرل بے حد غیر معمولی صورت ِ حا ل سے دوچار ہوں تو ہی وہ چیف کے خلاف کچھ زیر ِ لب سرگوشیاں کرتے ہیں... جیسا کہ سقوط ِ ڈھاکہ کے بعد ہوا تھا ... لیکن اس وقت پاکستان میں ایسی انتہائی صورت ِ حال درپیش نہیں تھی چنانچہ آرمی جنرل پرویز مشرف کے ساتھ تھی۔ ان میں سے ٹاپ جنرل، جنرل ماجد اور جنرل کیانی، مشرف کی جانشین بننے کے لئے اس کی منظوری حاصل کرنے کے خواہاں تھے۔
دراصل جنرل مشرف پر وردی اتارنے کیلئے دبائو بیرون ِ ملک سے ’’اینگلو امریکن‘‘ طاقتوں کی طرف سے آیا تھا جو بے نظیر بھٹو کے ساتھ طے کئے جانے والے این آراو کی خالق تھیں۔ اگر پرویز مشرف کے خلاف سپریم کورٹ کا بدترین فیصلہ بھی آجاتا تو بھی ان کے پاس اس ڈیل کا مناسب جواز موجود ہوتا تو پھر ایسی صورت میں ہم کہاں کھڑے ہوتے؟ دوسری طرف جج صاحبان عوام کی طرف سے ملنے والی حمایت، جو کہ عدلیہ کی تاریخ کا ایک نیا باب تھا، سے سرشار ہو تے ہوئے زیادہ سے زیادہ مقبولیت حاصل کرنے کے لئے کمر بستہ تھے چنانچہ وسیع تر سیاسی منظر نامہ ان کی نگاہوں سے اوجھل تھا۔ اس سے پہلے اکتوبر 1999ء میں اُنھوں نے ’’حقیقت پسند‘‘ ہونے میں دیر نہیں لگائی اور نہ صرف مشرف کے شب خون کی توثیق کردی بلکہ بیک جنبش ِ قلم اُنہیں آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دے دیا تاہم پھر حالات میں ایک ڈرامائی تبدیلی آئی اور ’’حقیقت پسندوں‘‘ کے تیور بدلنا شروع ہوگئے۔ ادا ہونے والا صرف ایک حرف ِ ’انکار‘ ہی نہ تھا بلکہ اس کے ساتھ ہی ماضی، جو بہت بعید بھی نہ تھا، بھی حافظے سے اتر گیا۔
ایمرجنسی کا نفاذ تین نومبر کو کیا گیا جبکہ مشرف نے اٹھائیس نومبر کو وردی اتار دی۔ اس کے بعد پندرہ دسمبر کو ایمرجنسی اٹھا لی گئی جبکہ اس سے پہلے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جا چکا تھا۔ اس طرح یہ پاکستان کی تاریخ کی مختصر ترین ایمرجنسی ثابت ہوئی۔ اس کے اختتام پر دو اہم ترین واقعات رونما ہوئے... ملک کے آرمی چیف نے کمان چھوڑی دی اور ملک عام انتخابات کی طرف بڑھ گیا۔ ان انتخابات کے نتیجے میں جمہوری حکومت وجود میں آئی۔ ابھی وزیر ِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے حلف بھی نہیں اٹھایا تھا کہ اُنھوں نے نظربند جج حضرات کی رہائی کا حکم دے دیا اور اس کے ساتھ ہی ان کے گھروں کے گرد لگی ہوئی رکاوٹیں اٹھا لی گئیں۔ چنانچہ یاد رہے کہ ججوں کی رہائی نئی جمہوری حکومت کے حکم کے تحت عمل میں آئی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ کسی انقلابی تحریک نے آمریت کے ایوانوں میں رخنہ ڈالتے ہوئے ججوں کو قوت ِ بازو سے بحال کرایا تھا۔ اس لئے یہ حقیقت فراموش نہ کی جائے کہ اگر اُس وقت کی فوج کی کمان تبدیل نہ ہوتی تو نہ انتخابات ہوتے اور نہ جج بحال ہوتے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ججوں کی بحالی کے لئے نواز شریف لاہور سے ایک بڑے لانگ مارچ کی صورت میں نکلے لیکن یہ بھی یاد رہے کہ وہ اپنے ماڈل ٹائون والے گھر میں نظر بند تھے اور ان کی رہائی کے لئے کسی نے کمانڈو ایکشن نہیں کیا تھا۔ ان کے گھر کے گرد سے رکاوٹیں ہٹا لی گئیں اور وہ ایک آزاد شہری کی طرح گھر سے نکل کر جلوس کی قیادت کرتے ہوئے جی ٹی روڈ پر رواں دواں ہو گئے۔ ٹی وی کوریج کی وجہ سے ہجوم بڑھتا گیا یہاں تک کہ مارچ کا ایک سرا مریدکے پہنچ گیا۔یہ جاننے کیلئے بہت پہنچا ہوا پیر ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا۔ ایک اور پہلو پر غور کریں... ستائیس دسمبر کو بے نظیر بھٹو کے قتل کا سانحہ پیش آیا تھا اور اُس وقت تک مشرف بدستور آرمی چیف ہی تھے۔ اگر وہ انتخابات ملتوی کرنا چاہتے تو محترمہ کا قتل اور اس کے نتیجے میں پھوٹنے والے ہنگامے بہترین جواز تھے۔ انتخابات میں پانچ ہفتوں کا التوا ضرور دیکھنے میں آیا لیکن پھر ان کا انعقاد مقرر وقت پر ہو گیا۔ نئے آرمی چیف، جنرل کیانی نے انتظامیہ کو بہت واضح سگنل دے دیا کہ انتخابات میں ہرگز مداخلت نہ کی جائے۔
ان واقعات کو جس عنصر نے ممکن بنایا وہ تین نومبر کی ایمرجنسی، جسے آج کل غداری قرار دے کر مشرف کا ٹرائل کیا جارہا ہے، کے علاوہ اور کیا تھا؟ غداری آئین سے انحراف کا نام ہے جبکہ موجودہ صورت ِ حال کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ ایمرجنسی نے آئین کا تحفظ کیا۔ اگر اُس وقت جج حضرات کا فیصلہ مخالفت میں آجاتا تو تمام عمل پٹڑی سے اتر جاتا، یہ ایمرجنسی تھی جس نے ملک میں جمہوری عمل کو جاری کیا لیکن اس وقت ہم غصے سے بھرے ہوئے چہرے دیکھ رہے ہیں اور وہ ناپسندیدہ حقائق کو ہضم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس وقت آئین کے آرٹیکل 6 کی بازگشت سنائی دے رہی ہے لیکن اس کا اطلاق بارہ اکتوبر 1999ء کے اقدامات پر نہیں کیا جارہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اُن اقدامات کی توثیق سابقہ چیف جسٹس صاحب نے کردی تھی۔ اس کے علاوہ فوجی افسران سے بھی ان اقدامات کی پوچھ گچھ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جسٹس چوہدری کی عدالت کی طرف سے ان اقدامات کی توثیق کرنے پر ندامت یا شرمندگی کا اظہار کبھی دیکھنے میں نہیں آیا، اس کے بجائے ہمیشہ خود پارسائی کے زعم میں ڈوبے ہوئے چہرے گرد وپیش کے کمتر انسانوں پر گرجتے برستے رہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا نئی عدلیہ اس ’’روایت ‘‘ کو تبدیل کرتی ہے یا نہیں۔
اس وقت پاکستان کو بہت سے مسائل نے گھیرا ہوا ہے۔ ان مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے مشرف کا ٹرائل شروع کر دیا گیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت ایسا کرنے کے لئے بہت سرگرم دکھائی دیتی ہے تاکہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹی رہے اور وہ سمجھیں کہ حکومت کچھ کرنے میں مصروف ہے لیکن جب عوام کی قوت ِ خرید دم توڑ رہی ہو، ان کی جیبیں خالی ہوں اور اشیائے ضروریات کا حصول ایک خواب بنتا جا رہا ہو تو پھر ان کو مشرف اور اس کے غداری کیس سے کیسے بہلایا جاسکتا ہے۔ کافی دیر سے ہر خرابی پر مشرف کو مورد ِ الزام ٹھہرانے کا فارمولا کام دیتا رہاہے لیکن اب یہ ازکار رفتہ ہو گیا ہے۔ اگر کسی دوسرے سیارے سے آیا ہوا کوئی مبصر یہ کہے کہ پاکستان کا اصل مسئلہ طالبان یا خالی ہوتا ہوا خزانہ نہیں بلکہ نادرا کے چیئرمین کی تعیناتی ہے تو اُسے صورت ِ حال کا غلط اندازہ لگانے پر معافی دی جاسکتی ہے لیکن چوہدری نثارایسا کہہ رہے ہوں تو؟ اس سے پہلے چوہدری صاحب کی سکندرانہ ذہنیت کا پردہ بلو ایریا والا سکندر ، جس نے چھے گھنٹے تک اسلام آباد پولیس کو تگنی کا ناچ نچائے رکھا، چاک کرچکا ہے۔ اس کے کئی دن بعد تک وزیر ِداخلہ طیش کے عالم میں عوام کو اپنے بیانات سے محظوظ کرتے رہے۔ اب وہ نادرا چیئرمین کے بارے میں ایسی ہی سکندری کررہے ہیں ۔ اُن کو پتہ نہیں کسی نے بچپن سے ہی بتارکھاہے کہ وہ جوکچھ عوام کو بتائیں گے، اس پر فوراً یقین کر لیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر ِ داخلہ چاہتے ہیں کہ عوام مان جائیں کہ چیئرمین نادرا کو آدھی رات کو برطرف نہیں کیا گیا تھا تاہم عوام بہت کچھ سمجھنے کے قابل ہوچکے ہیں۔ روپیہ اپنی کھوئی ہوئی قدر بحال نہیں کرسکا ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں ایسا کوئی امکان پایا جاتا ہے لیکن ہمیں کم ازکم مسٹر ڈار کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ وہ ان سنگین حالات میں بھی قوم سے ہلکا پھلکا مذاق کرتے رہتے ہیں۔ پرویز رشید کو عمران خان کا بہترین مشتہر کہا جاسکتا ہے۔ میراخیال تھا کہ نیٹو سپلائی روکنے کی حماقت کرتے ہوئے عمران خان عوامی مقبولیت کھو دیں گے لیکن پی ٹی آئی کو وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات کی خداداد صلاحیتوں پر یقین رکھنا چاہئے کہ وہ جتنی بھی حماقتیں کرگزریں، وہ ان کی مقبولیت پر آنچ تک نہیں آنے دیں گے۔ پی ٹی آئی کو ان کا شکرگزار ہونا چاہئے۔