پاکستان میں موجودہ نظام حکومت کی مکمل ناکامی اس حقیقت سے ظاہر ہوتی ہے کہ اختیارات اور فنڈز کو نچلی سطح تک منتقل نہیں کیا جاتا کیونکہ بدعنوان اراکین پارلیمنٹ فنڈز اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں اور بلدیاتی اداروں کے منتخب نمائندوں کو منتقل نہیں کرنا چاہتے ۔ اس اہم ضرورت کو پورا کئے بغیر، جمہوریت ایک بہت بڑی دھوکہ دہی کے سوا کچھ نہیں، جس کا ہم پاکستان میں مشاہدہ کر رہے ہیں۔ٹیکنوکریٹ حکومت کے حامیوں کی طرف سے یہ دلیل دی گئی ہے کہ پاکستان میں فوجی حکومتوں کے دوران گزشتہ 75سالوں کے دوران جی ڈی پی کی شرح نمو (اور اس کے نتیجے میں ہونے والی سماجی و اقتصادی ترقی) جمہوری حکومتوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر بہتر رہی ہے، اس کی وجہ انہوں نے منتخب حکمرانوں کی بدعنوانی کو قرار دیاہے۔ فوجی حکومتوں کے دوران جی ڈی پی کی ترقی کی شرح اور منتخب حکومتوں کے دوران جی ڈی پی کی شرح کا موازنہ اس دلیل کی تائید کرتا ہے۔ صدر ایوب خان اور صدر پرویز مشرف کے دور حکومت کے ابتدائی چند سالوں میں جو تیز رفتار اقتصادی ترقی ہوئی وہ سب پر نمایاں ہے اور اس کی شرح 6۔7فیصد رہی۔کسی قابل ٹیکنو کریٹ حکومت میں وزراء، سیکرٹریز اور دیگر اعلیٰ سرکاری افسران سائنس دان، انجینئر اور ترقیاتی ماہر معاشیات ہوتے ہیں۔
یہ قومی ترقی کیلئے نہایت اہم ہے۔ٹیکنوکریٹ حکومت کی حمایت میں دوسری طاقتور دلیل یہ ہے کہ ایک علمی معیشت میں سماجی و اقتصادی ترقی صرف اعلیٰ قیمتی تکنیکی مصنوعات کی تیاری اور برآمد کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ان میں انجینئرنگ کے سامان، دوا سازی، ویکسین، بائیو ٹیکنالوجی پر مبنی صنعتی مصنوعات، آئی ٹی مصنوعات جیسے مصنوعی ذہانت اور روبوٹکس، نینو ٹیکنالوجی پر مبنی مواد، توانائی ذخیرہ کرنے کے نظام، دفاعی آلات وغیرہ شامل ہیں۔ ان مصنوعات کی تیاری اور برآمد صرف قابل ترین سائنسدان اور انجینئر کی نگرانی میں ہی ممکن ہے۔قائداعظم محمد علی جناح نےاپنی ایک ذاتی ڈائری میں میں ایک نوٹ میں تجویز کیا تھاکہ پاکستان میں صدارتی نظام جمہوریت نافذ کرنا چاہئے جس کے تحت پارلیمنٹ کے علاوہ براہ راست وزراء کی تقرری کی جا سکے ۔ پارلیمانی نظام حکومت نے انگلینڈ کے علاوہ اور کہیں بھی تسلی بخش کام نہیں کیا ہے صدارتی طرز حکومت پاکستان کیلئے زیادہ موزوں ہے۔’’ یہ نوٹ اسلام آباد میں جناح پیپرز کی 1947 کی فائل 42میں دستیاب ہے۔ یہ نوٹ کتاب بعنوان دی جناح انتھولوجی (2010میں شائع ہونے والی تیسری جلد)کے صفحہ 81میں دوبارہ پیش کیا گیا ہے ۔پاکستان میں،وزیروں کا تقرر پارلیمنٹ سے ہوتا ہے۔لیکن ، یہ نظام ماہرین کو پارلیمنٹ میں داخل ہونے کا موقع فراہم نہیں کرتا کیونکہ پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے کی لاگت 15سے 20 کروڑروپے تک آتی ہے۔ یہ بہت بڑا خرچہ زیادہ تر اہل ماہرین اور ٹیکنو کریٹس کو پارلیمنٹ کی رکنیت سے دور رکھتا ہے اور صرف امیر وڈیروں کے لئے ممکن ہے ۔ لہذا متبادل طور پر، پارلیمانی جمہوریت کا ایک ’’علیحدہ نظام‘‘ تشکیل دیاجاسکتا ہے جس میں ٹیکنو کریٹس کا تقرر براہ راست وزیر اعظم پارلیمنٹ کے باہر سےکرنے کا مجاز ہو۔ جیسا کہ ، گھانا کےقانون کے مطابق، وزیروں کی ایک نمایاں تعداد، براہ راست پارلیمنٹ کے باہر سے مقرر کی جاتی ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں بھی وزیر اعظم وزراء کی ایک خاص تعداد کا تقرر براہ راست پارلیمنٹ کے باہر سے کر سکتا ہے۔ لہٰذا پاکستان میں ایک ایسا ہی پارلیمانی نظام جمہوریت آئین میں معمولی ترمیم کے ذریعے ان خطوط پر استوار کیا جا سکتا ہے جس کے تحت 70فیصد وفاقی وزراء کا تقرر ملک میں موجود اعلیٰ ماہرین میں سے پارلیمنٹ کے باہر سے کیا جا سکتا ہو جبکہ بقیہ 30فیصد وفاقی وزراء کا تقرر پارلیمنٹ سے کیا جائے لیکن ان کا طب، انجینئرنگ، قانون یا دیگر شعبوں میں مخصوص پیشہ ورانہ قابلیت رکھنا لازمی ہو۔اس کے ساتھ ساتھ مختلف وزارتوں کے سیکریٹری بھی اپنی اپنی وزارت کے شعبے میں بہترین ماہرین ہونے چاہئیں۔
اسلئے اب آگے بڑھنے کا واضح راستہ یوں ہے: (1) نئی حکومت کو آئین میں تبدیلی کرنی چاہئے تاکہ وزیراعظم کو ملک میں دستیاب بہترین ماہرین کو مختلف وزارتوں کے لئے براہ راست تعینات کرنے کی اجازت ہواور اراکین پارلیمنٹ کو قانون سازی تک محدود رکھا جائے۔ اس سے تمام بدعنوان اور طاقتور لوگ پیچھے ہٹ جائیں گے کیونکہ اس طرح وہ جو کروڑوں روپے کی ’’سرمایہ کاری‘‘ کر کے کی پارلیمنٹ میں شمولیت اختیار کرتے ہیں تاکہ اقتدار میں آنے کے بعد ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جائے ان کے یہ سارے خواب چکنا چور ہو جائیں گے (2)موجودہ کمزور قدرتی وسائل سے چلنے والی معیشت کو ایک مضبوط ٹیکنالوجی سے چلنے والی علمی معیشت میں تبدیل کرنا ہوگا۔ اس کیلئے ایک قومی ٹیکنالوجی اور جدت طرازی صنعتی پالیسی کی تشکیل اور اس کے نفاذ کیلئے حکمت عملی اور عملی منصوبہ بندی کی منظوری لینی چاہئے۔
(3) تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کو سب سے زیادہ قومی ترجیح دینی ہو گی اور وزیر اعظم کی براہ راست نگرانی میں اعلیٰ ٹیکنالوجی کے سامان کی تیاری اور برآمدات میں تعاون کیلئے تمام وزارتوں کو متحرک کرنا ہوگااور ملک کے اعلیٰ ماہرین پر مشتمل کمیشن تشکیل دینا ہو گا۔(4) فوری طور پر عدالتی اصلاحات کی جائیں اور ایسا ماحول تشکیل دیں کہ تمام کیسز کے دائر کرنے کے 12ہفتوں کے اندر اندر فیصلے کئے جائیں تاکہ غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری اور کاروبار کرنے میں آسانی کو ترمیم شدہ قانونی ڈھانچے سےبر وقت مدد حاصل ہو سکے۔(5) منصوبہ بندی کی وزارت کا نام بدل کر ’’ٹیکنالوجی پر کار فرما علمی معیشت‘‘ وزارت رکھا جائے اور دیگر تمام وزارتوں کو متحرک کیا جائے تاکہ پاکستان ایک مضبوط علمی معیشت کی طرف ہجرت کر سکے۔ مثال کے طور پر، وزارت ریلوے کو بلٹ ٹرینوں کی تیاری کا پابند کیا جائے اوربرآمدکے قابل بنایا جائے ۔ توانائی کی وزارت کو برقی موٹر گاڑیوں کیلئے شمسی توانائی کے پینلز،پن چکیاں اور ٹھوس ساختہ بیٹریوں کی تیاری اور برآمد میں معاونت کا کام سونپا جانا چاہئے۔ آئی ٹی کی وزارت کو ہر سال 100,000آئی ٹی کی پیشہ ورانہ افرادی قوت کی تربیت میں مدد کرنے کا کام سونپا جانا چاہئے اور حکمت عملی یہ ہو کہ ہماری آئی ٹی کی برآمدات کو سالانہ کم از کم 10ارب ڈالر بڑھایا جا سکے۔اس وقت یہ برآمدات 3ارب ڈالر ہیں جبکہ ہندوستان کی 150 ارب ڈالر ہیں۔مندرجہ بالا 5نکات پاکستان کے مستقبل کیلئے جمہوری طور پر منتخب پر بصیرت ، ایماندار پارلیمانی ٹیکنوکریٹ حکومت کے قیام کیلئے ایک مکمل فریم ورک ہے۔