• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

جسٹس سجاد علی شاہ اور نوازشریف کے اختلافات کا آغاز تو بہت پہلے ہو چکا تھا مگر جب سجاد علی شاہ اسلام آباد کےایک ہوٹل میں عدلیہ کی آزادی کا جشن منا رہے تھے تو خبر ملی کہ فیصل آباد میں واسا کے تین افسروں کو وزیراعظم نوازشریف کے حکم پر ہتھکڑی لگا کر گرفتار کرلیا گیا ہے ۔جسٹس سجاد علی شاہ نے ازخودنوٹس لیکر ان افسرو ں کو ضمانت پر رہا کر دیا تو وزیراعظم اور چیف جسٹس کے درمیان فاصلے بڑھنے لگے۔ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے واقعات میں اچانک اضافہ ہوگیا۔رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مولانا عبداللہ اور سماجی رہنما حکیم سعید جیسی شخصیات دہشت گردوں کا نشانہ بن گئیں تو ایک طرف سندھ میں گورنر راج لگا کر غوث علی شاہ کو مشیر اعلیٰ مقرر کردیا گیا تو دوسری طرف دہشت گردی میں ملوث ملزموں کا ٹرائل کرنے کیلئے خصوصی عدالتوں کی تشکیل پر غور ہونے لگا۔ایرانی قونصل جنرل صادق گنجی کے قتل کا مقدمہ برسہا برس سے التوا کا شکار تھا اور دہشت گردی کے دیگر واقعات میں گرفتار افراد کو بھی سزا نہ ہوسکی تھی اسلئے نوازشریف انصاف کی تیز ترین فراہمی کے لئے اینٹی ٹیرراِزم کورٹس بنانا چاہتے تھے۔جسٹس سجاد علی شاہ بجا طور پر ان خصوصی عدالتوں کے خلاف تھے ۔چیف جسٹس کے منصب کا تقاضا تو یہ تھا کہ انسداد ہشت گردی کا قانون منظور ہونے کے بعد کوئی اسے چیلنج کرتاتو وہ قانون کے مطابق فیصلہ کرتے مگروہ وزیر اعظم نوازشریف اور وزیرقانون خالد انور سے اس حوالے سے مذاکرات کرتے رہے کہ اس قانون میں کونسی شق کوشامل کیا جائے اور کونسی شق ناقابل قبول ہوگی۔حکومت نے جسٹس سجاد علی شاہ کی تجاویز تسلیم نہ کیں اور13جنوری 1997ء کو اپنی مرضی کا قانون پاس کرلیا تو چیف جسٹس بھی کمرکس کے حکومت کے خلاف میدان میں آگئے۔ سجاد علی شاہ کے نوازشریف سے اختلافات تب نکتہ عروج کو پہنچ گئے جب جسٹس سجاد علی شاہ نے ہائیکورٹ کے پانچ ججوں کو سپریم کورٹ کے جج کے طور پر ترقی دینے کی سفارش کی ۔لاہور ہائیکورٹ سے تین ججوں کو سپریم کورٹ بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا جن میں جسٹس شیخ ریاض احمد ،جسٹس منیر اے شیخ اور جسٹس چوہدری محمد عارف شامل تھے ۔جسٹس سجاد علی شاہ اپنی خود نوشت ’’Law courts in a glass house‘‘میں شہبازشریف سے ہونے والی ملاقات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں’’ جب ہم ججوں کی تعیناتی سے متعلق بات چیت کر رہے تھے تو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ اور رجسٹرار موجود نہ تھے ۔دوران گفتگو شہباز شریف نے کہا کہ وہ جسٹس شیخ ریاض احمد کے بغیرپنجاب حکومت نہیں چلا سکتے کیونکہ وہ بہت’’کوآپریٹو ‘‘ہیں۔ججوں کی تعیناتی سے متعلق ہونے والی بات چیت میں مزید کوئی پیشرفت نہ ہو سکی‘‘سپریم کورٹ میں مستقل ججوں کی 17اسامیاں تھیں ،ججز کیس میں کہاگیا تھا کہ جج کی نشست خالی ہونے پر 30دن میں تقرری کی جائے گی ۔ڈیڑھ سال سے سپریم کورٹ میں11سے لیکر 13جج کام کرتے رہے اور باقی نشستیں خالی رہیں مگر اب چانک چیف جسٹس نے ان خالی اسامیوں کو پر کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ سجاد علی شاہ حکومت سے اصول پسندی اور میرٹ کا تقاضا کر رہے تھے حالانکہ ان کی اپنی بے اصولی کا عالم یہ تھا کہ ججز کیس کا فیصلہ آنے کے بعد سپریم کورٹ کے جن تین ججوں کو کنفرم کیا گیا ،وہ متعلقہ ہائیکورٹس کے سینئر موسٹ جج نہیں تھے۔

حامد خان اپنی کتاب ’’A History of the Judiciary in Pakistan‘‘میں لکھتے ہیں ’’ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چیف جسٹس نے ان پانچ اسامیوں پر اچانک اورایک ساتھ تعیناتی کا فیصلہ کیوں کرلیا ؟یقیناًحکومت پر غلبہ حاصل کرنے کی لڑائی میں چیف جسٹس کی طرف سے اعلیٰ عدلیہ میں نامزدگی کے اختیار کو ہتھیار کی حیثیت حاصل ہو چکی تھی اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے اس ہتھیار کا بے دریغ استعمال کر رہے تھے۔ ‘‘نوازشریف نے جسٹس سجاد علی شاہ سے نمٹنے کیلئے اس موقع پر یہ حکمت عملی اختیار کی کہ ایوان صدر سے آئین کے آرٹیکل 176کے تحت جاری ہونے والے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد17سے کم کرکے 12کردی ۔ اگرچہ سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد بڑھانا یا گھٹانا حکومت کا اختیار تھا مگر چند روز بعد ہی چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں تین رُکنی بنچ نے اس نوٹیفکیشن کو معطل کردیا۔چیف جسٹس کو ایوانِ صدر کی تائید وحمایت حاصل تھی اس لئے حکومت کو پسپائی اختیار کرنا پڑی اور یہ نوٹیفکیشن واپس لے لیا گیا۔

جسٹس سجاد علی شاہ کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ قریب آرہی تھی مگر وہ منصب نہیں چھوڑنا چاہتے تھے ۔جسٹس اجمل میاں اپنی کتاب ’’A judge speaks out‘‘میں لکھتے ہیں ’’ سروس ریکارڈ اور تعلیمی اسناد کے مطابق ا نہیں 16فروری1998ء کو 65سال عمر کی حد پوری ہونے پر سبکدوش ہونا تھا مگر وہ ریٹائر نہیں ہو نا چاہتے تھے۔اپنی ریٹائرمنٹ کی تاریخ سے چند ماہ پہلے انہوں نے صدر مملکت فاروق لغاری کو درخواست دی کہ ا نکی صحیح تاریخ پیدائش 17فروری1933ء نہیں بلکہ 10مئی 1934ء ہے اور اس مقصد کیلئےانہوں نے کراچی میونسپل کارپوریشن سے برتھ سرٹیفکیٹ بھی حاصل کرکے پیش کیا اور استدعا کی کہ انہیں 17فروری 1998ء کے بجائے 10مئی1999ء کو ریٹائر کیا جائے۔‘‘ سجاد علی شاہ دورانِ تعلیم ہی اپنی تاریخ پیدائش ٹھیک کروا لیتے تو کوئی حرج نہ تھا لیکن ریٹائرمنٹ سے چند ماہ پہلے جعلی برتھ سرٹیفکیٹ بنواکر ریٹائرمنٹ کی مدت بڑھا لینے سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ چیف جسٹس کا منصب چھوڑنے کو تیار نہ تھے یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ اعلیٰ عہدوں اور بڑی کرسیوں پر بیٹھے لوگ ،نوکری بچانے کیلئے کبھی بہت چھوٹے ہو جاتے ہیںاور وہ منصف جو وزرائے اعظم کو بیک جنبش قلم گھر بھیج دیتے ہیں ،اپنی مدت ملازمت مکمل ہونے پر بھی سبکدوش نہیں ہونا چاہتے۔(جاری ہے)

تازہ ترین