ہم کس طرف جارہے ہیں، یہ ملک کس طرف جا رہا ہے، ہمارے آداب او اور اخلاقیات کس طرف جا رہیں ہیں۔ کیا ہم اپنی اخلاقی اقدار کھو چکے ہیں اور ہم بحیثیت فرد اور قوم تباہ ہو رہے ہیں یا ہو چکے ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جو اس وقت ہر ذی شعور انسان کے دماغ میں چل رہا ہے اور وہ اس کے جواب کا متلاشی ہے ۔ ذرا سوچیں پہلے ہم کیا تھے اب کیا ہو گئے ہم کو ترقی کرنا تھا پستی کے دلدل میں گرتے جارہے ہیں اور الزام دوسروں کو دیتے ہیں تا کہ اپنے آپ کو بری الزمہ قرار دے سکیں۔رمضان المبارک کا رحمتوں کا پہلا عشرہ گزر گیا اور مغفرت کا عشرہ جاری ہے تمام امت مسلمہ خاص کر ہم پاکستانیوں کے لیے کے ہم اللہ سے معافی مانگ کر نئی شروعات کا آغاز کریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں کرپشن بہت عام ہے سرکار کے تمام محکمےکرپشن کے بغیر چل ہی نہیں سکتے رشوت لینے کا رواج عروج پر ہے اور سرکاری ملازمین اس کو اپنا حق بھی سمجھتے ہیں جب انسان غلط کاموں کو صحیح سمجھتے لگے تو بس وہیں سے زوال کی شروعات ہوتی ہے اور ہمارے یہاں اب یہ اپنی بلندی پر ہے رمضان کے آتے ہی لوگوں کی طرف سے صدقہ خیرات ، راشن کی تقسیم، اور دیگر اچھے کاموں میں تیزی آجاتی ہے جو یقینا بہت اچھی بات ہے تا ہم ہم اس کے کے ساتھ بری عادتیں ترک نہیں کرتے اور یہی وجہ ہے کہ ایک مہینے اچھے اور نیک کام کرکے گیارہ مہینے غلط کاموں میں مصروف رہتے ہیں ۔کیا یہ طرز عمل ٹھیک ہے یقیناً نہیں اور شاید یہ وجہ ہے کہ ہم بلندی کے بجائے پستی میں گرتے جارہے ہیں پستی میں گرنے کی کئی وجوہات ہیں کیونکہ ہم غلط کام کر کے اسے غلط نہیں مانتے، دوسروں کو تکلیف دے کر خوش ہوتے ہیں، دوسروں کا حق چھیننا اپنا فرض سمجھتے ہیں، غلط کام کر کر شان سے بیا ن کرتے ہیں، حقدار کو اس کے حق سے محروم کر تے ہیں اور نہ جانے کتنے غلط کام ہم روز کرتے ہیں اور ان کو نوٹس بھی نہیں کرتے کہ یہ ہم نے کیا کر دیا یا پھر شاید ہمیں احساس ہی نہیں کہ ہم کیا کررہے ہیں اور ہم اپنی آنے والی نسلوں کو کیا سبق دے رہے ہیں۔ ذرا سوچئے!