• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلی جنگِ عظیم کے دوران وزیرِ ہند مسٹر مانٹیگو نے 20؍اگست 1917ء کو ایک تاریخی اعلان کیا کہ برطانوی پالیسی کی ترجیح بتدریج ایسی خود مختار حکومت قائم کرنا ہے جو مکمل طور پر ہندوستان کے نمائندوں کے سامنے جواب دہ ہو گی۔ یہ یقین بھی دلایا کہ ذمےدار حکومت کی پہلی قسط کے طور پر ایک نیا آئین جنگ کے اختتام کے فوراً بعد نافذ کیا جائے گا اور اِس مقصد کے لئے وزیرِ ہند عنقریب ہندوستان کا دورہ کریں گے۔ ایک طرف یہ وعدہ اَور دُوسری طرف برطانوی حکام کی عملی پالیسی میں سخت گیری کا رجحان غالب آتا جا رہا تھا۔ سیاسی اور شہری آزادیاں بری طرح پامال ہو رہی تھیں۔ اِن دست درازیوں پر ہندوستان کی سیاسی جماعتیں صدائے احتجاج بلند کر رہی تھیں جبکہ تحریکِ خلافت نے مسلمانوں میں زبردست جوش و خروش پیدا کر دیا تھا۔ چار برسوں تک ہندوستان کے پورے طول و عرض میں ہزاروں مسجدوں کے منبروں سے تحفظِ خلافت کا مطالبہ پوری قوت سے دہرایا جا رہا تھا۔ 1918ء کے شروع میں مسٹر گاندھی نے بھی اِس مطالبے کی بھرپور حمایت کا اعلان کر دیا تھا۔ نومبر 1918ء میں جنگ ختم ہوئی اور وَعدوں کے ایفا کا وقت آیا، تو یہ تاثر پیدا ہوا کہ برطانوی حکومت کسی بڑی آئینی تبدیلی پر آمادہ نہیں اور وُہ ترکی سے بھی نرمی روا رَکھنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ سخت کشیدگی کی اِس فضا میں رولٹ ایکٹ ایک بم کی طرح آن گرا۔ اُس کے ذریعے سرکاری افسروں کو وجہ بتائے بغیر شہریوں کی گرفتاری اور اَخبارات کی بندش کے اختیارات حاصل ہو گئے تھے۔ جب اُس کا بل امپیریل لیجسلیٹو کونسل میں پیش ہوا، تو سیاسی حلقوں نے شدید ردِعمل ظاہر کیا اَور اِسے حکومت کی بدترین بدعہدی کی علامت قرار دِیا۔ اُس زمانے میں امپیریل کونسل میں سرکاری ممبروں کی اکثریت کا نظام قائم تھا۔ حضرت محمد علی جناح جو غیرسرکاری ممبروں میں پیش پیش تھے، اُنہوں نے رولٹ ایکٹ کی شدید مخالفت کی۔ جب سرکاری ممبروں کی حمایت سے یہ بل منظور ہو گیا، تو مسٹر جناح نے ایک زوردار خط کے ساتھ اپنا استعفیٰ گورنرجنرل کو بھیج دیا۔ یہ عوام کے بنیادی حقوق کی حمایت میں بہت بڑا اَقدام تھا۔ مسٹر گاندھی نے ستیہ گری کا اعلان کردیا جس میں ملک گیر ہڑتال، جلسے اور جلوس شامل تھے۔ 9؍اپریل 1918ء کو ہندوؤں کا ’’رام نومی‘‘ تہوار تھا جس کا جلوس مذہبی کم اور سیاسی زیادہ تھا۔ اُس میں مسلمان بھی شریک ہوئے اور ’’شری رام چندر جی کی جے‘‘، ’’گاندھی جی کی جے‘‘ اور ’’ہندو مسلم اتحاد کی جے‘‘ کے نعرے لگتے رہے۔ اُس جلوس میں لاہور کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہندو اَور مسلم ایک ہی برتن میں پانی پی کر ’’ہندو مسلم ایک ہیں‘‘ کے نعرے لگاتے رہے۔ پنجاب میں اُن دنوں ایک جابر گورنر مائیکل اوڈوائر ( Michael O'Dwyer) کی حکومت تھی۔ اُس کا چیف سیکریٹری ٹامسن بھی اُسی ذہنیت کا انگریز تھا۔ وہ دونوں عوامی احتجاج کو برداشت نہیں کر سکے اور بہیمانہ اقدامات پر اُتر آئے۔ ’خطرناک‘ لیڈروں کی گرفتاری کا پروگرام بن گیا اور پولیس کو لاٹھیوں اور بندوقوں کے ساتھ مستعد رہنے کے احکام صادر ہوئے۔ امرتسر اور اِدھر لاہور میں ’’رام نومی‘‘ کا جلوس ختم ہو رہا تھا، اُدھر پنجاب کی مشرقی سرحد کے آخری ریلوے اسٹیشن پلوی جو ضلع گورگاؤں میں واقع تھا، اُس پر ایک پولیس کپتان گاندھی جی کا پنجاب میں داخلہ بند کرنے کے لئے پولیس کے ایک دستے کے ساتھ کھڑا تھا۔ ریل کے پہنچتے ہی گاندھی جی سے وارنٹ کی تعمیل کرائی گئی۔ اُنہوں نے حکم کی تعمیل سے انکار کر دیا، چنانچہ وہ پولیس کی حراست میں واپس بمبئی روانہ کر دیے گئے۔ اگلی صبح پہلا وار اَمرتسر میں ڈاکٹر کچلو اَور ڈاکٹر ستیہ پال پر ہوا۔ ڈپٹی کمشنر نے اُن دونوں کو اَپنے بنگلے پر بلا لیا جس کے عقبی دروازے پر ایک موٹرکار کھڑی تھی۔ چند ہی لمحوں میں پولیس کے سپاہی اُن دونوں لیڈروں کو لے کر کار میں بیٹھ گئے، کھڑکیاں بند کر لیں اور کار دَھرم شالے کی طرف روانہ ہو گئی۔ جب کئی گھنٹے گزر گئے اور یہ دونوں لیڈر اَپنے گھروں میں نہیں پہنچے، تو اُن کی گرفتاری کی خبر پورے شہر میں پھیل گئی، ایک ہجوم اکٹھا ہو گیا اور یہ نعرہ لگاتا ہوا کہ ’’ہمارے لیڈر رَہا کرو یا ہمیں بھی گرفتار کرو‘‘ ڈپٹی کمشنر کے بنگلے کی طرف بڑھنے لگا۔ ریلوے کے پُل پر پولیس کے ایک مسلح دستے نے اُس کا راستہ روک لیا۔ پولیس کے افسروں نے مجمع کو منتشر کرنے کے لئے مذاکرات شروع کئے۔ ابھی گفتگو جاری تھی کہ مجمع کا عقبی حصّہ پُل کے نیچے ریلوے لائن تک پھیل گیا۔ وہاں اسٹیشن کے قریب ایک فوجی دستے کا کیمپ تھا اور سنتری پہرے پر تھے۔ ایک سنتری نے لوگوں کو اسٹیشن کی طرف بڑھتے دیکھا، تو گولی چلا دی۔ گولی کی آواز سن کر مجمع مشتعل ہو گیا اور اُس نے پولیس پر خشت باری شروع کر دی۔ جواب میں پولیس نے فائر کھول دیا اور مجمع شہر کی طرف بھاگا۔ سامنے انگریزوں کے دو بینک آ گئے۔ لوگ اُن میں گھس گئے، دو اَنگریز ملازم جان سے مار ڈالے اور فرنیچر کو آگ لگا دی۔ اُسی روز یہ المناک واقعہ بھی پیش آیا کہ ایک انگریز لیڈی ڈاکٹر جو اِنسانی ہمدردی رکھنے والی خاتون کی شہرت رکھتی تھی، بائیسکل پر جا رہی تھی۔ اُس پر کسی نے ڈنڈا دَے مارا، وہ گر پڑی اور سائیکل چھوڑ کر ایک گلی کی طرف دوڑی۔ غنڈوں نے اُس کا تعاقب کیا اور گلی میں اُسے مار مار کر بےہوش کر دیا۔ جب غنڈے چلے گئے، تو گلی میں رہنے والے بےہوش خاتون کو اُٹھا کر ایک گھر کے اندر لے گئے، اُسے ہوش میں لائے اور بعد میں اسپتال لے گئے۔ چند روز بعد وہ اِنگلستان واپس چلی گئی۔ دو روز بعد جب امرتسر فوج کے سپرد ہوا، تو فوج کے کمانڈر بریگیڈیئر ڈائرنے دوسری انتقامی کارروائیوں کے علاوہ ایک حکم یہ بھی دیا کہ جس گلی میں ڈاکٹر شوڈ کو زدوکوب کیا گیا تھا، اُس گلی سے لوگ پیٹ کے بل رینگتے ہوئے گزریں گے۔ گلی کے دونوں سروں پر فوجی دستے تعینات کر دیے گئے جو اِس حکم کی تعمیل بڑی بے دردی سے کراتے رہے۔ یوں اِس کڑی سزا کے تختۂ مشق وہی لوگ بنے جنہوں نے ڈاکٹر کی جان بچائی تھی۔ (جاری ہے)

تازہ ترین